کتی چوراں نال رلی ہوئی اے۔۔ارشد غزالی

کتی چوراں نال رلی ہوئی اے۔۔ارشد غزالی/تحریک انصاف کے حکومت میں انے سے پہلے ہی منی لانڈرنگ, جعلی بینک اکاؤنٹس اور کرپشن کے درجنوں مظبوط کیس موجود تھے مگر ساڑھے تین سال میں بھی موجودہ حکومت بڑے مجرمان کو سزا دلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ کیا اس کی وجہ ان کیسوں کا سیاسی اور انتقامی بنیادوں پر بنایا جانا تھا یا یہ موجودہ حکومت کی نااہلی تھی یا پھر “کتی چوراں نال رلی ہوئی اے” یعنی کہ ادارے, بیوروکریسی اور “دیگر” جو خود اس سسٹم کے بینیفشری اور حصے دار ہیں کیا وہ ان کیسوں کو منطقی انجام تک پہنچنے دے سکتے تھے۔ ان باتوں کی حقیقت سے قطع نظر فی الحال وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے استعفے نے ہر طرف ہلچل مچائی ہوئی ہے۔ کچھ لوگ اسے ڈوبتی کشتی سے نکلنے والے پہلے مسافر سے تشبیہ دے رہے ہیں کچھ اسے طاقتور حلقوں کے ایماء پر ہونے والی کارروائی جب کہ کچھ اسے حکومت کی ایک اور ناکامی قرار دے رہے ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ برسر اقتدار جماعت کا نام ہی تحریک انصاف ہے اور عمران خان کے نعرے احتساب, لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی اور نظام انصاف کی بہتری تھے مگر حکومت ان تمام معاملات میں سو فیصد ناکام رہی ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ صرف اپوزیشن ہی نہیں بلکہ وزیر اعلی پنجاب سے لے کر جہانگیر ترین اور کابینہ کے کئی ارکان تک کے کیسز عرصہ دراز سے تاخیر کا شکار ہیں ایسے میں یہ تصور کرنا کہ موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے اشرافیہ میں سے کسی کو سزا ہو محض خام خیالی ہی ہے تو پھر شہزاد اکبر کے استعفے کی بنیادی وجہ کیا تھی?

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ شہباز شریف کےکیسز کا معاملہ خان صاحب اور تحریک انصاف کی اگلے الیکشنز میں ہار جیت کا اہم نکتہ ہے اور اس ٹارگٹ کے حصول میں شہزاد اکبر ناکام رہے چنانچہ قرین از قیاس ہے کہ نواز شریف کی واپسی, لوٹی ہوئی دولت کی ریکوری, وزیر اعظم کو شہزاد اکبر کی طرف سے دی گئی حالیہ بریفنگ اور حقائق میں تضاد اور دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کا معاملہ شہزاد اکبر کے جانے کی بنیادی وجہ بنا جسے براڈ شیٹ کے سربراہ کاوے موسوی نے بھی اچھا چھٹکارا قرار دیا ہے۔ شہزاد اکبر کے استعفے کے ردعمل میں انہوں نے کہا کہ اس شخص کی قانون کی حکمرانی، عدالتی احکامات کی تعمیل، یا بدعنوانی کی تحقیقات سے کوئی وابستگی نہیں تھی نیز شہزاد اکبر نے نیب کی طرف سے مجھ سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی بدعنوانی کے خلاف ملکی یا بین الاقوامی جدوجہد میں کوئی ساکھ نہیں ہے۔

مہنگائی, نااہلی, بیروزگاری, اقرباء پروری اور بد انتظامی سمیت بہت سی وجوہات کی بناء پر تحریک انصاف عوام میں اپنی مقبولیت کھو رہی ہے۔ دیگر جماعتوں میں پیپلز پارٹی صرف اندرون سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور بظاہر اس کے کسی قسم کا اپ سیٹ کرنے کے کوئی اثار نظر نہیں ارہے جب کہ جے یو ائی یا دیگر جماعتوں میں سے بھی کوئی خان صاحب کے لئے پریشانی کا باعث نہیں۔ اس وقت ان کے مقابلے پر اگر کوئی جماعت ہے تو وہ صرف مسلم لیگ نون ہی ہے جس پر صرف ایک ہی صورت کاری ضرب لگ سکتی ہے کہ شہباز شریف کسی بھی کیس میں مجرم ٹھہریں اور نااہل ہو کر وزارت عظمی کی دوڑ سے باہر ہوجائیں۔ نواز شریف اور مریم نواز چونکہ پہلے سے ہی نااہل ہیں اور بظاہر انھیں اس معاملے میں کوئی ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا ایسی صورت میں شریف خاندان کے پاس واحد آپشن شہباز شریف ہی ہیں۔

اگر حکومت شہباز شریف کو اگلے انتخابات کی تیاریوں سے قبل سزا دلوانے اور نااہل کروانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ نون لیگ کئی حصوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ حکومتی ترجمانوں اور وزراء کے شہباز شریف کے کیسز اور پچھلے دنوں نون لیگ کے وزارت عظمی کے لئے سامنے انے والے”چار” امیدواروں کے حوالے سے بیانات بھی اس بات کو تقویت دے رہے ہیں جن کے بارے میں حکومتی وزراء کا موقف یہ تھا کہ ان لوگوں نے “خفیہ” ملاقاتیں کر کے خود کو وزارت عظمی کے امیدروار کے آپشن کے طور پر پیش کیا ہے جب کہ نون لیگ اس کے برعکس ان امیدواروں کے نام عبوری وزیر اعظم کے طور پر میاں صاحب کے سامنے پیش کئے جانے کی وضاحت دیتی نظر آئی تھی۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے اور نون لیگ تقسیم ہوجاتی ہے تو اس کا سادہ اکثریت سے اقتدار میں آنا تقریبا ًناممکن ہوجائے گا جب کہ اس تقسیم کی امید کا اشارہ خان صاحب بھی دے چکے ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی سمیت کمزور جماعتوں کی یہ خواہش ہوگی کہ ائندہ انتخابات میں مخلوط حکومت قائم ہو تاکہ انھیں بھی مرکز میں بھرپور نمائندگی مل سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ فیصلہ ساز اس بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح وہ اپنا وزن اسی پلڑے میں ڈالیں گے جوآ خر میں ہوا کے رخ کی وجہ سے زیادہ جھکا ہوا ہوگا دوسری طرف نئے چیف جسٹس کی آمد, آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری اور ڈیڑھ سال کے وقت سمیت کئی کارڈز ابھی عمران خان کے ہاتھ میں ہیں۔ آئندہ کیا ہوگا یہ تو آنے والا  وقت ہی بتائے گا مگر شہباز شریف اگر اپنے مقدمات “مینج” کرنے میں کامیاب نہ  ہوسکے تو تحریک انصاف کے لئے سنہرا موقع ہوگا کہ وہ آئندہ انتخابات میں اپ سیٹ کر کے پھر سے اقتدار کی راہداریوں کا حصہ بن سکے۔

Facebook Comments

ارشد غزالی
Columinst @ArshadGOfficial

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply