• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان اور سوئٹزرلینڈ میں سیاحت کے مواقع پر تقابلی جائزہ/شیر علی انجم

گلگت بلتستان اور سوئٹزرلینڈ میں سیاحت کے مواقع پر تقابلی جائزہ/شیر علی انجم

سوئٹرلینڈ کل رقبہ پندرہ ہزار نو چالیس مربع میل ہے اور حالیہ مردم شماری کے مطابق آبادی ساڑھے آٹھ ملین کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ فی کس آمدنی کے لحاظ سے دنیا کے خوشحال ممالک میں شمار ہوتا ہے۔بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق سوئٹزرلینڈ کو صرف سیاحت سے سالانہ 80 ارب ڈالر سے ذیادہ کی آمدنی ہوتی ہے اور سیاحت کیلئے منصوعی طریقے سے ذیادہ مواقع پیدا کی ہوئی ہے۔ ایک چھوٹا سا مُلک دنیائےسیاحت میں منفرد مقام رکھتے ہیں جس کی بنیادی وجہ قانون کی بالادستی، نظام کی درستگی اور بہتر سہولیات کی فراہمی ہے۔اُس ملک کا اگر گلگت بلتستان کا موازنہ کریں تو اس خطے کا رقبہ 72496 مربع کلومیٹر جبکہ آبادی تقریباً 25 لاکھ زائد نفوس پر مشتمل ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے دامن میں یہ خطہ چین اور جنوبی ایشیاء کے درمیان زمینی رابطے اور پاک چین دوستی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس خطے کی سرحدیں، افغانستان اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر تک پھیلی ہوئی ہیں جب کہ سٹریٹجک اہمیت کے حامل تین درے، قراقرم پاس، اندرا کلی پاس اور خنجراب پاس اس خطے کے شمالی حصہ کولداخ اور چین کے جنوبی صوبہ سنکیانگ سے ملاتی ہے۔ آٹھ ہزار میٹر بلند دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 5 سلسلہ قراقرم کے بولتورو گلیشیر کے اوپر ایک مسلسل بلند ہوتا ہوا ڈھانچہ تشکیل دیتی ہیں۔خوبصورت گلیشئرز اور جھیلوں، سرسبز وادیوں سے آراستہ، آبی، معدنی وسائل مالا مال اس خطے میں قدیم انڈس سویلائزیشن میں آریائی اور منگولین تہذیب کے رنگ بھی نظر آتا ہے۔ یہاں کے بروشو، تبتی،درد اور منگولین قوم کی نسلیں اپنی منفرد زبانوں بلتی، بروشسکی، شینا،واخی،کھوار اور دیگر منفرد ثقافتی ورثوں اور تہذیبوں کی منفرد گلدستے کے مانند انہیں مشترکہ مسائل کے ساتھ ایک قوم بناتی ہے اور سیاح یہاں کے ثقافتی روایتوں سے بہت ذیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ تہذیب و ثقافت، قدیم تاریخی مقامات، بلند بالا قدرتی آبشاریں، قدرتی سیاحتی مقامات اور یہاں پائے جانے والے دنیا کے بلند ترین پہاڑ اس خطے کو سوئٹزرلینڈ سے کہیں ذیادہ مقام دینے کے ساتھ سیاحوں کیلئے پر کشش بناتے ہیں لیکن بنیادی سہولیات فراہمی میں حکومتی ناکامی اور غلط پالیسز نے خطے کو آج بھی سیاحوں کی پہنچ سے دور کر رکھا ہوا ہے۔انفراسٹکچرکی خراب صورتحال انٹرنیٹ کی عدم دستیابی، سڑکوں کی خسہ حالی، فلائٹ آپریشن کی ناقص سروس سیاحت کو درپیش اہم مسائل ہیں جس کی طرف ہنگامی حالت میں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت سیاحت کی فروغ کے نام پر گرین اینڈ کلین سیاحت کے بجائے گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات کو بغیر کسی ماسٹر پلان کے کنکریٹ سٹی بنایا جارہا ہے۔ جس سے ماحولیاتی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال خطے کی تاریخ میں پہلی بار جنوری برف باری کے عین موسم میں بہار کا پھول کھلنا شروع ہوگیا جو کہ مستقبل کیلئے خطرناک پیغام ہے۔ کیونکہ ماحولیاتی آلودگی کے سبب جہاں گلیشرز کی افزائش نسل میں کمی ہوگی وہیں گلیشیرز پگھلنے کا بھی شدید خدشہ ہے۔ گلگت بلتستان کے ذیادہ تر علاقے ندی نالوں دریاوں کے کنارے آباد ہے یوں گلیشرز پگھلنے کی صورت میں انسانی المیہ بن سکتا ہے۔وہیں پورے پاکستان میں پانی کا بھی شدیدبحران پیداخارج ازامکان نہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں دنیا کا تیسرا بڑا برفانی ذخیرہ موجود ہے اسی طرح قطبین کے بعد میٹھے پانی کا دوسرا بڑا منبع گلیشرز کی شکل میں گلگت بلتستان میں موجود ہیں جس سے تقریباً دو ارب انسانوں کو پانی فراہم ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کے گلیشیئرز پر کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق یہاں پر 5218 گلیشیئرز اور 2415 گلیشیائی جھیلیں موجود ہیں۔ جن میں سے 52 جھیلوں کو انسانی آبادی کےلیے خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ لہذا ماحولیاتی آلودگی پاک، کلین اور گرین سیاحت کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ گرین سیاحت کیلئے درختوں کی حفاظت،سیاحتی مقامات کی اصل حالت کو برقرار رکھ کر سیاحت کے مواقع اور سیاحوں کیلئے سہولیات فراہم کرنا نہایت ضروری ہے لیکن بدقسمتی سےمقامی حکومت اس حوالے غافل نظر آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ خطے میں درختوں کٹائی بے دریغ طریقے سے جاری ہے اور نیا درخت لگانے کا رحجان کم ہوگیا ہے۔ حکومتی سطح پرہوٹلز مالکان پر گندگی نہ پھیلانے سے روکنے اورکچروں کی ری سائکلینگ کیلئے قانون سازی کرنا گلگت بلتستان اسمبلی کی اولین ذمہ داری ہے لیکن اس حوالے سے بھی کوئی میکنزم یا قانون نظر نہیں آتا۔ اس وقت پورے خطے میں سوریج کا کوئی نظام نہیں اور ہوٹل مالکان سیاحتی مقامات پر کھدائی کرکے گڑ بنالیتے ہیں جو کہ چند سو فٹ نیچے جاکر یا دائیں بائیں سے چشمے کی صورت میں نکل کر صاف شفاف ندی نالوں میں شامل ہوکر پانی کو مضر صحت بناتے ہیں جس سے اُس علاقے کے مکینوں میں ہیضے اور پیٹ کی مختلف بیماریاں عام ہوگیا ہے۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق حکومت نے 2019 سے لیکر 2022 تک خطے کے کل رقبے کا اٹھارہ اعشاریہ نو فیصد پلانٹیشن کی جو کہ نہ ہونے کے بابر ہے کیونکہ دوسری طرف ٹمبر مافیا سرکاری سرپرستی میں جس طرح سے جنگلات کی کٹائی کر رہا ہے وہ اس سے گئی گُنا ذیادہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ماحول کی آلودگی کی وجہ سے ہر سال تین کروڑ سے زائد انسان ہلاک ہورہے ہیں اور اس کےعلاوہ ہر سال بیالیس اعشاریہ پانچ ملین ایکڑز جنگلات کا رقبہ تباہ ہورہا ہے۔ انٹرنیٹ سروس کا اگر مختصر جائزہ لیں تو پاکستان ٹیلی کام ایک 1996 کے آرٹیکل 40 کے شق نمبر39 کے تحت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں نیم عسکری ادارہ اسپیشل کمونیکشن آرگنائزیشن ایس سی او کو ٹیلی کام کے اختیار کل حاصل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نجی کمپنیاں اُنکی اجارہ داری کے سبب گلگت بلتستان میں سروس دینےسے قاصر ہے اور یہ ادارہ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے بُری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ اس ادارے کی غیر معیاری سروس سے نہ صرف خطے میں ای کامرس اور بنکنک کا شعبہ بُری طرح متاثر ہے،وہیں سیاحوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاحت کی ترقی ایک اہم فیکٹر امن امان کا ہوتاہے اورخطے میں غیر مُلکی سیاح بغیر کی خوف خطر کے عام لوگوں کے ساتھ گھل مل کر علاقے کی خوبصورتی کا نظارہ کرتے نظر آتا ہے۔ لیکن صرف ضلع دیامر میں بدقسمتی سے ہر چند سال بعد دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوتا رہتا ہے اس وجہ سےخطے میں سیاحت کا شعبہ بھی متاثر ہوتا ہے۔بلند بالا چوٹیوں کی اگر بات کریں تو دنیا کے بلند ترین 14 ہزار چوٹیوں میں سے پانچ گلگت بلتستان میں موجود ہیں ان میں چار بلتستان میں ایک دیامر میں موجود ہے اور ہر سال دنیا بھر سے ہزاروں کوہ پیما ان بلند بالا پہاڑوں کو سر کرنے کیلئے گلگت بلتستان کا روخ کرتے ہیں۔لہذا ضرور اس امر کی ہے کہ اس خطے مزید بیورکریسی کے رحم کرم پر چھوڑ کر رکھنے کے بجائےسیاسی معاشی استحصالی کی خاتمے کیلئے خطے کی منتازعہ حیثیت کے مطابق پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ریاستی موقف، آئین کے آرٹیکل 257، سلامتی کونسل کے متفقہ قراردادوں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین اہم فیصلوں پاسداری کر کے ہوئے خطے میں معطل سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کو بحال کریں، نام نہاد معاہدہ کراچی کو ختم کرکےسلامتی کونسل کے قرارداد 13 اگست 1948 پر عمل درآمد کر کے آئین ساز اسمبلی کی قیام کو عمل میں لاکر مسئلہ کشمیر کی حل تک کیلئے آذاد کشمیر طرز کا نظام حکومت دیں تاکہ یہاں کے عوام کو اپنے خطے کے حوالے سے فیصلوں کا اختیار ملنے کے ساتھ وسائل، معدنیات، سوست ڈرائی پورٹ کی آمدنی، دیامر بھاشا ڈیم کی رائلٹی اور سی پیکمیں گلگت بلتستان کو برابری کے حقوق مل سکے۔ ایسا کرنے سے جہاں مسلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف کو بین الاقوامی سطح پر تقویت ملے گا وہیں سیاحت کی ترقی سے مُلکی خزانے کو ناقابل یقین فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ گلگت بلتستان میں جہاں سیاحت کے بیش بہا مواقع موجود ہیں وہیں پن بجلی گھروں کی تعمیر، زراعت کے بھی بہترین مواقع موجود ہیں۔
تحریر: شیر علی انجم

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply