مرزا مکسچر۔۔ربیعہ سلیم مرزا

میں گوجرانوالے کی وہ امرتا ہوں جسے نہ تو امروز جیسا آرٹسٹ ملا اور نہ ہی ساحر جیسا شاعر،
مرزامکسچر مل گیا ۔۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ دل کو روؤں یا جگر پیٹوں ۔؟مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے مجھ سے محبت نہیں ہے،اور اس کی زندگی میں میری محبت سے کوئی بدلاؤ نہیں آیا ۔

مجھے کبھی کبھار اس لڑکی کی قسمت پہ افسوس ضرور ہوتا ہے جو ایک بہترین آرٹسٹ اور کبھی کبھار کے شاعر سے بچھڑ گئی ۔ وہ ہوتی تو آج مرزا نامور آرٹسٹ ہوتا ۔رنگوں سے کھیلتے ہوئے تھک جاتا تو محبت پہ نظمیں لکھتا ۔مگر قسمت دیکھیے یہ ٹوٹا ہوا مزاح نگار مجھےمل گیا ۔جسے کوئی خوشی حیران نہیں کرتی اور کوئی دکھ اثر انداز ہی نہیں ہوتا ۔یہ بے حس بندہ زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ اداس رہ سکتا ہے ۔اور سولہویں منٹ وہ اپنی پریشانی کو لطیفہ بنا دے گا ۔کبھی میں حالات سے پریشان ہوجاتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ میری عمر کے کاغذ پہ اس کے دستخط ہیں جسے کسی حساب کتاب کی پرواہ نہیں ۔
میری ارینج میرج ہے ۔چونکہ جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں لہذا میرے پاس اس “ڈیفیکٹیڈ پیس ” کو بدلنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔کبھی گلہ کروں تو میری تعریف ایسی کرتا ہے کہ میں “تھاں مرجانی آں “۔

لہذا بائیس سال اور چار بچے ہوگئے اس بندے کو یہ بتاتے کہ بیڈ شیٹ بچھی ہوئی ہو تو اچھی لگتی ہے، گچھو مچھو کرکے پیروں میں صرف کھیس لپیٹا جاتا ہے ۔
لیکن نہ جی ،ان کا ناشتہ صرف اس دن بیڈ پہ نہیں ہوتا ہےجب گذشتہ روز گدے پہ چائے کا کپ نہ الٹا ہو ۔
پڑوسنیں تک پوچھتی ہیں، باجی آپ کا تو کوئی چھوٹا بچہ بھی نہیں پھر “گدا دھوپ میں کیوں “؟
کیا بتاؤں کہ میرا خصم اس پہ ہر دوسرے دن چائے گراتا ہے ۔اگلی سمجھے گی کہ ہورے کس چاہ کے دوران چائے گری ہوگی؟
آجکل مرزاصاحب اداس ہیں۔کچھ نہیں لکھتے ۔پینٹنگ بھی نہیں کرتے، بس چپ ہیں ۔

میری ساس کہا کرتی تھیں ۔
“کڑئیے، جب یہ چیخ رہا ہوں تو یہ غصے میں نہیں ہوتا ۔مگر جب یہ چپ ہو تو بہت خطرناک ہوتا ہے۔سلیم مرزے کو رنگوں اور بچوں میں رہنا اچھا لگتا ہے ۔اسے پھول اور عورتیں اچھی لگتی ہیں ۔بس بیوی بوجھ لگتی ہے ۔
لگتا ہے اسے یہ بوجھ تھکانے لگا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

پہلی گاڑی لی ۔۔۔تو پہلے مالک نے سیٹوں پہ اتنے خوبصورت سیٹ کور چڑھائے ہوئے تھے کہ جی خوش ہوگیا ۔مگر کبھی وہ انہیں چبھنے لگتے ، کبھی پسینہ آنے لگتا ۔
کبھی کہتے کمپنی کی بنائی ہوئی سیٹ صحتمند محبوبہ کی گود جیسی ہوتی ہے ۔
آخر میں نے بید کی تاروں سے بنی خوبصورت سی نشست خرید دی کہ سیٹ کے اوپر، کمر کے پیچھے رکھ لیں ۔تیسرے دن اٹھا کر پھینک دی کہ نشان پڑجاتے ہیں ۔بندہ پوچھے “وہاں کون دیکھتا ہے کہ کیا ڈیزائن بنا ہوا ہے “؟
انہیں سیٹ کور اتار کر ہی سکون آیا ۔
دومہینے بعد ہی سیٹوں میں سگریٹ سے سوراخ ہوگئے ۔اور رہی سہی کسر ان کی معشوق پوری کر گئی ۔جاتے جاتے سیٹ پہ بانی بناگئی ۔اتنی پرابلم تھی تو پیمپر لگاکر آتیں؟
پھر چھ مہینے تک گاڑی نہ بکی ،جو بھی خریدنے آتا ،پوچھتا،گاڑی میں سے مرے کتے کی بو کیوں آرہی ہے ۔؟
میں بتاتی بتاتی رک جاتی کہ مشکی کتی کی بُو ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply