• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پسماندہ علاقوں کے سیلاب متاثرین اور حکمران۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

پسماندہ علاقوں کے سیلاب متاثرین اور حکمران۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

تونسہ اور دیگر ایسے ہی علاقوں کے سیاستدان صوبائی یا قومی سطح پر عوام کے حقوق کی بات کیوں نہیں کرپاتے، اس سوال کا جواب آخری نکتے پر یہیں آکے ملتا ہے کہ یہ سب مرعوب ہیں، مرعوبیت کا شکار ہیں، پسماندہ بیک گراؤنڈ کا آدمی بعض اوقات کسی بلند و بالا عمارت کو دیکھ کر بھی مرعوب ہوجاتا ہے، اس کی ہیبت اور دباؤ میں آکر وہ چاہتے ہوئے بھی حق کی بات کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اقتدار کی اعلی سطحوں پر دوسروں کو مرعوب کرنے کی پالیسی بہت جاندار ہے، فرعونوں کے دربار کا دبدبہ اسی لئے رکھا جاتا ہے کہ دربار میں داخل ہونے والا شخص اپنا منہ بند رکھے۔ یہ حربے جمہور کو ان کی اوقات میں رکھنے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔
مرعوبیت کی وجہ پسماندگی اور نادیدگی ہے، اس بات کو حتمی مان لیا جاتا اور تونسہ کے عوامی نمائندوں کو چھوٹ دی جا سکتی تھی، لیکن اسی وقت آپ کے سامنے محسن داوڑ کا چہرہ آتا ہے، جو ایسے ہی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتا ہے، نادیدگی و غربت وہاں بھی اپنے عروج پر ہے، لیکن یہ شخص اسمبلی کی بلند عمارت، اقتدار کی چمک دمک اور پروٹوکول کے دبدبے سے مرعوب نظر نہیں آتا، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس ” قبائلی ڈان ” کے پیچھے ” سات ملکوں کی پولیس “پڑی ہے لیکن اس کا گرجنا برسنا کم نہیں ہوتا، ان کے بعض نظریات سے آپ کو اختلاف بھی ہو سکتا ہے لیکن ان کی آواز کو دبایا نہیں جا سکا کیونکہ وہ کسی قسم کی مرعوبیت کا شکار نہیں۔
دوسرے لفظوں میں غربت اور پسماندگی مرعوبیت کی وجوہات میں سے ہو سکتی ہیں، لیکن یہ حتمی نہیں، اس سے اگلا نکتہ یہ ہے کہ اس نفسیات کی وجہ کہیں فرد کی مادری زبان تو نہیں؟، سندھی اور سرائیکی زبانیں اپنے اندر عاجزی و انکساری کا عکس لئے ہوئے ہیں، فرد کے مزاج کی یہ عاجزی اور انکساری ایک سطح پہ جا کے اس حد تک گر سکتی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی عزت نفس، وقار اور خودداری کو نقصان پہنچاتی ہے، انہی مزکورہ اقوام میں یہ چیز سب سے ذیادہ دیکھنے میں ملتی ہے، کراچی و دیگر بڑے شہروں میں سرائیکی و سندھی بھیک مانگنے والے بچوں کی تعداد پختون یا افغانی بچوں سے کہیں زیادہ ہے، پختون بچے بھیک کی بجائے کباڑ جمع کرتے نظر آئیں گے، اس کی وجہ وہ زبان ہے جس میں بچہ سوچتا ہے، یہی سوچ اس کو عمل کرنے یا نہ کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔
لیکن زبان بھی آخری اور بنیادی وجہ نہیں ہے مرعوبیت کی، زبان اور غربت اپنا اپنا اثر ضرور رکھتی ہیں، لیکن سرائیکی یا سندھی جیسی عاجزی و انکساری سے بھرپور زبان سے تعلق رکھنے والوں میں بھی ایسے خوددار انسان ملتے ہیں کہ شہرہ آفاق شخصیات ان کے سامنے ماند پڑ جائیں۔
مرعوبیت کا بنیادی تعلق انسان کے مرکزی مقصد اور اس کی جدوجہد سے ہے، اگر منزل اور مقصد طے ہے اور جدوجہد اسی سمت میں ہے تو آپ کو کوئی ظاہری چمک دمک یا رعب و دبدبہ متآثر نہیں کر سکتا، سادہ الفاظ میں آپ کو اپنے فیلڈ میں ماہر ہونا چاہئے، اپنے مقصد میں یکسو ہونا چاہئے، اگر مقصد پیسے کمانا ہے تو بزنس کیجئے بجائے اس کے کہ سیاست کو پیشہ بنایا جائے، اگر مقصد عوام الناس کی خدمت ہے اور جمہور کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں تو جمہور ہی کی طرف پلٹنا ہوگا، عوام کے حقوق کی بات کرنا ہوگی، اس مقصد کے ساتھ آپ کسی فوجی ڈکٹیٹر یا سویلین بدمعاش کے سامنے بھی کلمۂ حق بلند کر سکتے ہیں، لیکن جب عوام یعنی مرکز سے رابطہ کمزور ہوتو اعتماد جاتا رہتا ہے، دل میں خوف رہتا ہے، اپنے ذاتی فائدے کیلئے ایک جماعت سے دوسری جماعت میں چھلانگیں لگتی رہتی ہیں، المناک حادثات کے وقت عوام میں جانے سے بھی گھبراتے ہیں، ہمارے نمائندے صرف اسی صورت آپ کے حقوق کی بات کر سکیں گے جب ان کا مقصد آپ کے حقوق کی پاسداری ہوگا، وگرنہ یہی ہوتا رہے گا جو ہوتا آیا ہے۔ نمائندے کا انتخاب ہی آپ کے مستقبل کا ضامن ہے۔
الہامی تعلیمات میں بھی فرد کو ایمان باللہ کی مسلسل تلقین و تاکید کی جاتی ہے اور اسے تمام اعمال کا مرکز مانا جاتا ہے، اگر فرد اس مرکز سے نظریں موڑ لے تو خوف و مرغوبیت کا شکار ہو جائے، یہی وجہ ہے کہ چٹائی پر بیٹھا کوئی حقیقی عالم و مومن کسی بڑے سے بڑے حکمران کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا کیونکہ اس کا اپنے مرکز سے تعلق مضبوط ہے، لیکن اگر یہ تعلق صرف ظاہری اور برائے نام ہے تو پھر کروڑ پتی اور معروف عالم ہونے کے باوجود آپ ہر آتے جاتے حکمران کی نگاہ کا تارا بننے میں کوشاں رہتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply