راجہ یاسر نے کچھ انوکھا نہیں کیا/محمد علی عباس

راجہ یاسر نے عمران خان کا ساتھ اس وقت چھوڑا جب عمران خان ہر طرف سے زیر عتاب ہیں۔ اس میں انہونی کیا ہے؟ کیا پہلے پنجاب میں کسی سرداران، راجگان، ملکوں، یا چوہدریوں نے حاکم وقت کے سامنے کلمہ حق کہا جو تمام امیدیں راجہ یاسر سے وابستہ تھیں؟ یا یہ کہ وہ پنجاب کی اس پگ کا تحفظ کریں گے جس کو داغ لگنے سے بچانے کے نعروں پہ نواز شریف کبھی اقتدار میں آئے تھے؟ چکوال کی ہی مثال لے لیں آج تک یہاں سے کسی وڈیرے یا سیاستدان نے کبھی مشکل میں اپنی پارٹی کا ساتھ دیا؟ سواۓ چوہدری لیاقت علی خان کے جو مرتے دم تک میاں نواز شریف کے ساتھ اپنی وفا نبھاتے رہے؟ یاپھر ایاز امیر جو مشکل وقت میں بھی اپنے موقف پہ ڈٹے رہے۔

راجہ یاسر نہ خود کوئی عام آدمی ہیں اور نہ ہی عام آدمی کے مسائل سمجھ سکتے ہیں۔ ایچی سن اور امریکہ سے تعلیم حاصل کرنے والا ایک شخص کیسے اس نوجوان کا دکھ سمجھ سکتا ہے جو سرکاری سکول میں اساتذہ کی عدم توجہی کے باعث نمبروں کی دوڑ میں اس لیے پیچھے رہ جاۓ کہ اس کے پاس شام کے وقت اسی استاد کے پاس ٹیوشن پڑھنے کی فیس نہیں؟ یا سرکاری ہسپتال میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے والوں کے دکھ بنگلوں میں رہنے والے اور بڑے بڑے ہسپتالوں سے علاج کرانے والے کیسے سمجھ سکتے ہیں؟

راجہ یاسر نے سیاست کا آغاز آج سے قریب ایک دہائی قبل کیا اور 2013 کے عام انتخابات میں شکست کے بعد عوام میں جانا شروع کیا۔ 2018 میں اگر تحریک انصاف ”فیض“ یاب نہ ہوتی تو راجہ یاسر کی کامیابی کے امکانات کم تھے۔ پہلی بار ایم پی اے بنتے ہی اعلیٰ تعلیم اور سیاحت کی وزارتیں عمران خان نے راجہ یاسر کو دیں۔ اب ان وزارتوں کے ثمرات چکوال پر پڑنا شروع ہوۓ تو چکوال کی پہلی جیپ ریلی منعقد ہوئی، چکوال کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹی کی قربانی سے یونورسٹی آف چکوال کا قیام عمل میں آیا۔ جو کہ یقیناً ایک اچھا قدم تھا لیکن اس کی خاطر چکوال کالج جیسے تاریخی اور انجینئرنگ یونیورسٹی جیسے بہترین اداروں کو ختم کر کے غریب بچوں کے لیے تعلیم کی راہیں مزید مشکل بنا دی گئیں۔

بہر حال راجہ یاسر نے چار سال وزارتوں کے خوب مزے لیے، سیکرٹریٹ آباد رہا اور روایتی سیاستدانوں کی طرح اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ بھی ڈھکے چھپے جاری رہا۔ بہت کچھ روائتی انداز میں ہی ہوا جس کی امید نہ تھی۔

تحریک انصاف پہ جو آج مشکل وقت ہے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اس سے بھی کڑے دن دیکھے، 2018 میں واقفان حال بتاتے ہیں کہ اٹک سے الیکشن لڑنے والے ایک سیاستدان کو کہا گیا کہ ن لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں آ جائیں تو سیٹ بھی پکی اور وزارت بھی لیکن اس مردِ میدان نے جواب دیا کہ “میاں صاحبان سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود اس مشکل وقت میں انہیں چھوڑنا کوئی مردانگی نہیں۔” نتیجتاً ان کے مخالفین ”فیض“ یاب ہو گئے۔ راجہ یاسر تاریخ سے گہرا لگاؤ  رکھتے ہیں اور مطالعے کے شوقین ہیں انہیں یہ پتہ ہونا چاہیے تھا کہ تاریخ ٹکرانے والوں کی لکھی جاتی ہے نہ کہ تلوے چاٹنے والوں کی۔ برادرم نبیل انور ڈھکو نے اسی عنوان سے کیا خوب تاریخی مقالہ تحریر کیا ہے جو اب سالوں تک زبان زدِ خاص وعام رہے گا۔

راجہ یاسر جب سیاست میں آۓ تھے تو لوگوں کو امید تھی کہ ایک پڑھا لکھا نوجوان کچھ تبدیلی لاۓ گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا ،وہی روایتی چاپلوس سیاستدان تھے جو ہر نئے آنے والے کےگرد گھیرا ڈال لیتے ہیں اور سیاہ کو سفید بناتے ہیں۔ چکوال یونیورسٹی کی امید سب کو تھی لیکن یہ اندازہ کسی کو نہ تھا کہ چکوال میں ایسی یونیورسٹی بنے گی جس میں ایک درجہ چہارم کا ملازم وائس چانسلر سے زیادہ طاقت ور ہوگا۔ مخالفین تو یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ اپنے رشتہ داروں کی زمینوں کی قیمتیں بڑھانے کے لیے جیپ ریلی کرائی گئی یا پھر یونیورسٹی کے لیے ایسی جگہ تجویز کی گئی جس سے اپنی زمینوں کی قیمتیں بڑھیں گی۔

راجہ یاسر چکوال سے عمران خان کے دوسرے پسندیدہ ترین شخص تھے، نام کیا لینا نمبر ون والے صاحب کو تو دنیا جانتی ہے۔ ایسے مشکل وقت میں خان کا ساتھ چھوڑنے پر بہت سے لوگ حیرت میں ہیں لیکن میرے لیے اس میں کوئی  حیرت کی بات نہیں، کہ چکوال کے راجوں، سرداروں، ملکوں کا روز اوّل سے یہی خاصہ رہا ہے کہ ایڑیاں اٹھا کے ”سرکار“ کی جانب دیکھتے ہیں۔ راجہ یاسر نے ”اُن“ سے بچنے کے لیے وہی کیا جو مشرف دور میں جنرل مجید ملک نے کیا تھا۔سردار عباس نے 2018 میں پی ٹی آئی میں شمولیت کر کے یہی کچھ کیا تھا۔ سردار ذوالفقار دلہہ نے بھی یہی کام کیا تھا جب ایک شام ن لیگ کو ماں کہہ رہے تھے اور اگلی دوپہر پی ٹی آئی کا ٹکٹ جمع کروا رہے تھے- سرداران ٹمن بھی اسی کام کے لیے مشہور ہیں۔

راجہ یاسر نے کچھ انوکھا کام نہیں کیا سیاست چھوڑی اور ایسی مبہم پریس کانفرنس کی کہ جب حالات سازگار ہوۓ واپسی کے تمام راستے کھلے چھوڑ دئیے۔ فرض کریں راجہ یاسر اب سیاست نہ بھی کریں تو اپنی سیاسی زندگی کا خاتمہ ایسے کیا کہ وہ سیاست کے میدان میں قِصہ پارینہ بن جائیں گے۔ صحیح وقت پہ مرنا، مشکل میں درست فیصلہ کرنے اور بھریا میلہ لوٹنا قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے اور چکوال کے مالکوں کو یہ نصیب نہ ہوا۔

تحریک انصاف کو خیر باد راجہ یاسر نے کیا جبکہ سوشل میڈیا پہ طوفانِ بدتمیزی مچا ہوا ہے جس میں پورے مائر منہاس خاندان پہ طعن و تشنیع کے تیر برساۓ جا رہے ہیں۔ راجہ یاسر ہم مائروں کے لیے اس لیے تو قابلِ احترام ہو سکتے ہیں کہ وہ پڑھے لکھے ہیں اور محسنِ چکوال راجہ سرفراز خان کے پوتے ہیں لیکن وہ مائروں کے سردار یا نمائندہ نہیں جو ان کے اس فعل سے پوری برادری کو ہی رگڑا جا رہا ہے۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ مائر منہاس خاندان کی اہم شخصیات نے ہر میدان میں ملک و قوم کا نام روشن کیا۔ مائروں میں بہترین نثر نگار، دانشور، شاعر، فنکار صاحبانِ علم و دانش بھی پیدا ہوۓ اور بجا طور پر یہی اہل علم و دانش اس قبیلے کا فخر ہیں۔ قدر و قیمت انسان کی ہے نہ کہ قوم یا قبیلے کی۔ نامور وہی ہوگا جس کا کام زندہ رہے گا اور مائروں میں ایسی کئی شخصیات موجود ہیں اور کئی دنیا سے جا چکی ہیں جنہیں لوگ ان کے اچھے کام کی وجہ سے یاد کرتے ہیں نہ کہ مائر منہاس ہونے کی وجہ سے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تمام تر اختلافات کے باوجود راجہ یاسر اپنے مخالفین کے لیے اس لحاظ سے بہر طور بہتر تھے کہ بدزبان نہ تھے۔ اگر مستقبل میں حیدر سلطان کا مقابلہ کبھی شیخ وقار یا ذوالفقار دلہہ سے ہوا اور ”لمیاں پا دِتّا“ جیسے غیر مہذب جملے سیاسی جلسوں میں استعمال ہوں گے تو قدرِ اعلیٰ خاندانی روایات کے امین راجہ یاسر بہت یاد آئیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply