دھتکارے ہوئے لوگوں کا مستقبل/سیّد بدر سعید

ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جسے یہ معاشرہ انسان ہی نہیں سمجھتا، یہاں تک کہ ان کے والدین، عزیز و اقارب اور اہل محلہ بھی انہیں بطور انسان قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ کسی انسان کا خواجہ سرا پیدا ہونا اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور کسی بھی گھر میں خواجہ سرا بچہ جنم لے سکتا ہے۔ ہم میں سے بھی کوئی خواجہ سرا ہوتا تو ہمیں قدرت کے ایسے فیصلے کو روکنے یا تبدیل کرنے کا اختیار نہ تھا۔ دوسری جانب اس حقیقت کو جاننے کے باوجود ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں سے غیر انسانی رویہ برتا جاتا ہے۔ کسی کا خواجہ سرا ہونا اس کے لیے باعث شرم بنا دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ کمیونٹی علاج کے لیے ہسپتال جاتے ہوئے بھی ڈرتی ہے۔ ایسے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں کوئی خواجہ سرا ہسپتال جائے تو اسے عملہ اور مریضوں کے لواحقین کی جانب سے بھی ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ملازمت کرنا چاہیں تو اول تو انہیں ملازمت ہی نہیں دی جاتی اور اگر کہیں ملازمت مل جائے تو وہاں بھی اچھا ماحول نہیں مل پاتا۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ خواجہ سراؤں کو ایسی شکایات صرف مردوں سے ہی نہیں بلکہ خواتین سے بھی ہے کیونکہ خواتین کی جانب سے بھی انہیں ایسے رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں نفرت، خوف، طنز اور تضحیک کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے معاشرے میں معذوروں سے بھی اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ معذور افراد کا کوئی بہت قریبی ہو تو اس کا کچھ وقت اچھا گزر جاتا ہے ورنہ انہیں بُری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ان کو تمسخر آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے یا پھر ان کے لیے ترس کھانے والا انداز اپنایا جاتا ہے، انہیں عجیب و غریب توہین آمیز ناموں سے پکارا جاتا ہے اور مذاق اڑایا جاتا ہے۔ روزگار کے کم وسائل ملنے سے لے کر اپنوں کی بے گانگی اور معاشرے کے توہین آمیز القابات نے ان کو معاشی طور پر اتنا کمزور بنا دیا کہ یہ عضو معطل بن کر رہ گئے۔ ان میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو معاشرے کا اہم جزو بن سکتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں شاہراہوں پر ذہنی معذور بھی نظر آتے ہیں جن میں خواتین خاص طور پر شدید خطرے کا شکار ہیں۔ جنسی حملوں سے لے کر ان کی مجبوری اور بھوک کا فائدہ اٹھانے والے درندوں کی کمی نہیں ہے۔ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی کوئی واردات ہو سکتی ہے جو ان کی ذہنی معذوری کی وجہ سے کہیں رپورٹ نہیں ہو پاتی۔ اسی طرح بہت سے لوگ منشیات کے عادی ہیں۔ یہ بھی ہمیں فٹ پاتھوں اور چوراہوں پر نظر آتے ہیں۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر معاشرے کے ان بے گھر لوگوں کے مسائل حل ہو جائیں تو جرائم میں نمایاں کمی آ جائے گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک تاریخ ساز قدم اٹھایا جس کے تحت پہلے مرحلہ میں پنجاب کے تمام اضلاع میں پولیس تحفظ سنٹر قائم کیے گئے۔ یہ سنٹر خواجہ سراؤں اور بے گھر افراد کے مسائل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں راہنمائی مہیا کر رہے ہیں۔ اگلے مرحلے میں ڈاکٹر عثمان انور نے مختلف اداروں سے ایم او یو سائن کیے جس کے تحت پولیس اور متعلقہ ادارے بے گھر، معذور اور منشیات کے عادی افراد کی بحالی کو یقینی بنا رہے ہیں۔ پنجاب پولیس شاہراہوں پر موجود ایسے افراد کی مدد کر رہی ہے جس میں معذور افراد کو وہیل چیئر لے کر دینے سے مصنوعی اعضا لگوانے تک کا سلسلہ جاری ہے اسی طرح منشیات کے عادی افراد کے علاج اور بحالی کے علاوہ ذہنی معذور افراد کو متعلقہ اداروں میں داخل کرا کر علاج کرایا جا رہا ہے۔ یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کی افادیت کا درست اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اس سے نہ صرف جرائم کا خاتمہ ہو گا بلکہ معاشرے میں عضو معطل بنے یہ افراد مستقبل کا روشن ستارہ ہوں گے۔ ہم اب بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اس لیے اگر آپ کے اردگرد ایسا کوئی بے گھر شخص ہے جو ذہنی معذور، منشیات کا شکار یا پھر کسی عضو سے محروم ہونے کی وجہ سے بھیک مانگنے پر مجبور ہے تو فوراً پولیس کو اطلاع دیں اسی طرح شاہراہوں پر نظرآنے والے بھکاریوں کی اطلاع بھی فوراً پولیس کو دیں۔ پنجاب پولیس بھکاری مافیا کے خلاف بھی کریک ڈاؤن شروع کر چکی ہے اور جہاں پولیس معذور اور مستحق افراد کو متعلقہ اداروں کے حوالے کر کے ان کا علاج کرا رہی ہے وہیں بھکاریوں کے روپ میں چھپے متعدد جرائم پیشہ افراد کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔

Facebook Comments

سيد بدر سعید
سب ایڈیٹر/فیچر رائیٹر: نوائے وقت گروپ ، سکرپٹ رائیٹر ، جوائنٹ سیکرٹری: پنجاب یونین آف جرنلسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply