مقدس ایوانوں نے عوام کو کیا دیا؟۔۔ آصف محمود

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت تمام ہونے کو ہے۔ ان تمام اسمبلیوں کا ریکارڈ اٹھا کر یکھ لیجیے ، ان تمام مقدس ایوانوں کی چھت تلے لمبی لمبی لایعنی گفتگو تو بہت ہو گی، اقوال زریں بھی سنے اور سنائے گئے ہوں گے، ایک دوسرے کو گالیاں بھی بہت دی گئی ہوں گی اور طنز و تحقیر کے ترکش بھی خالی کر دیے گئے ہوں گے۔ ان مقدس ایوانوں میں عوام کے خرچے پر تشریف فرما عالی مرتبت ہستیوں کا استحقاق مجروح نہ ہو جائے تو اس زندہ اور پائندہ قوم کو بتایا جائے کہ اس سارے دورانیے میں ایک عام آدمی اور اس کے دکھوں پر کتنے منٹ بات ہوئی ؟

معلوم انسانی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ اتنی وافر مقدار میں مبینہ طور پر صادق اور امین حضرات ایک چھت تلے جمع ہو کر ملک و قوم کے مسائل کی گتھیاں سلجھاتے رہے اور غریب قوم ان کے جملہ اخراجات اور ناز نخرے برداشت کرتی رہی ۔ کیسے مان لیا جائے کہ ان نادر روزگار ہستیوں نے اس دورانیے میں عوام کے لیے کچھ نہ کیا ہو اور اب وہ محض اس بات پر بغلیں بجاتے اپنے اپنے حلقہ انتخاب کو روانہ ہو جائیں کہ انہوں کے کمال استقامت سے پانچ سال کی اس مدت کو عدت سمجھ کر گزار دیا ۔ اور اب جب کہ یہ عدت ختم ہو چکی ہے تو عوام الناس ان پردہ نشینوں کا پھر سے دیدار کر سکتے ہیں ۔

آئیے ان کا نامہ اعمال دیکھیے۔ تعلیم کی صورت حال یہ ہے کہ پانچ سے چھ سال کی عمر کے بچوں کا 44 فیصد کسی سکول میں نہیں جا رہا ۔ کل 24 ملین بچے سکول نہیں جاتے اور ایک ملین میں دس لاکھ ہوتے ہیں۔ صرف 30 فیصد بچے ایسے ہیں جو پہلی جماعت میں داخلہ لیتے ہیں اور دسویں تک پڑھتے رہتے ہیں ، 70 فیصد طلباء ایسے ہیں جو پہلی کلاس سے دسویں تک کے درمیان سکول چھوڑ جاتے ہیں ۔ بلوچستان میں 70 فیصد بچے سکول نہیں جا رہے۔ فاٹا میں 60 فیصد بچے سکول سے باہر ہیں۔ گویاچند سال بعد نا خواندہ بے روزگاروں کا ایک تازہ لشکر دست دینے والا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا کہ پارلیمان میں اس مسئلے پر بات ہوئی ہو یا کبھی کسی اپوزیشن رہنما نے اس سنگین مسئلے پر کوئی دھرنا تو کیا کوئی احتجاج یا مذمتی بیان بھی دینا گوارا فرمایا ہو؟ کیا کبھی آپ نے کسی حکومت کے کسی روشن دماغ وزرائے کرام کو ، کوئی پریس کانفرنس ک کرتے سنا ہو جو بتا رہا ہو کہ عزیز ہم وطنو یہ مسئلہ بہت سنگین ہو چکا ہے اس لیے اس کو حل کرنے کے لیے ہم نے جناب وزیر اعلی اور جناب وزیر اعظم سے مشاورت اور رہنمائی کے ساتھ یہ ایک پلان بنایا ہے جو ہم آپ سے شیئر کرنے آئے ہیں۔

ملک میں اس وقت 21 فیصد سکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک استاد کام کر رہا ہے۔14فیصد سکول صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں ۔ 40 فیصد سرکاری سکولوں میں بجلی کی سہولت نہیں ہے۔ 30 فیصد سکولوں میں پینے کا پانی تک نہیں ہے۔ 38 فیصد سکول واش روم کی سہولت سے محروم ہیں۔ 43 فیصد سکولوں کی عمارت ناکافی ہے،14 ا فیصد سکول ایک کمرے پر مشتمل ہیں اور 8 فیصد سکول بغیر کسی عمارت کے کام کر رہے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا آپ نے کبھی ان مقدس ایوانوں میں بیٹھے ان کبھی نہ جھکنے والے ، کبھی نہ بکنے والے ، آپ کے ووٹ کے جائز حقداروں ، ان صادق اور امین اکابرین کو اس اہم ترین اور سنگین معاملے پر کبھی پریشان دیکھا؟ کیا کبھی آپ نے سنا کہ فلاں رہنما نے آج اس لیے مقدس ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ کر دیا کہ حکومت تعلیم کے سنگین مسئلے پر توجہ نہیں دے رہی تھی ؟

شیر خوار بچوں کی شرح اموات میں دو سال پہلے ہم تیسرے نمبر پر تھے ، یونیسف کی تازہ رپورٹ بتا رہی ہے کہ اب ہمارا پہلا نمبر ہے۔ افغانستان اور ایتھوپیا کی حالت بھی ہم سے بہتر ہے۔جاپان میں ہر ایک ہزار ایک سو گیارہ بچوں میں سے ایک بچے کو موت کا خطرہ ہوتا ہے جب کہ ہمارے ہاں ہر 22 میں سے ایک بچہ مر رہا ہے۔ صرف نمونیا سے ہر سال 92 ہزار بچے مر جاتے ہیں۔ ہسپتالوں کی حالت آپ کے سامنے ہے۔ ایک ہزار دو سو ستر لوگوں کے لیے اوسطا ایک ڈاکٹر ہے۔ سرکاری ہسپتال عملا بھوت بنگلہ بن چکے ہیں ۔ ہر سال ہمارے ہاں 14ہزار خواتین دوران زچگی مر جاتی ہیں۔ یعنی ہر آدھے گھنٹے میں ایک موت۔ کیا کبھی آپ نے سنا ان مقدس ایوانوں میں کوئی نیک روح کبھی اٹھ کر کھڑی ہوئی ہو اور اس کہا ہو جناب سپیکر جب تک غریب کو پاکستان میں علاج کی بہترین سہولت نہیں مل جاتی تب تک کسی رکن پارلیمان کو بیرون ملک علاج کی سہولت نہیں ہونی چاہیے؟

چیف جسٹس ہسپتالوں میں گئے تو جمہوری اکابرین نے باجماعت سینہ کوبی شروع کر دی کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ لیکن کیا کبھی آپ نے یہ بھی کہ سنا کوئی عالی مرتبت کبھی اس مسئلے پر چیخا ہو اور احتجاج کیا ہو کہ عوام کو طبی سہولیات کیوں نہیں دی جا رہیں؟

دودھ میں ملاوٹ ہے۔ بھینسوں کو ایسے ایسے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں جن سے کینسر پھیل رہا ہے۔ خالص خوراک نہیں مل رہی ۔ ادویات ناقص ہیں۔ کیا کبھی آپ نے سنا کہ خوبصورت پوشاکیں پہن کر ، بد صورت قافلوں میں نجی گارڈز کے ساتھ ہٹو بچو کی صدائیں لگاتے ان مقدس ایوانوں میں آنے والی ان بابرکت ہستیوں نے کبھی ان مسائل پر بھی بات کی ہو؟

پانی کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں ۔ دنیا چیخ رہی ہے کہ پاکستان قحط اور خشک سالی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ پینے کا صاف پانی ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ کیا کبھی یہ اہم ترین مسئلہ ان مقدس ایوانوں میں زیر بحث آیا؟

کیا کبھی کسی نے ان ایوانوں میں تشریف فرما ہو کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ اسلام آباد میں صاف پانی کی جو ندیاں بہتی تھیں ہاوسنگ کالونیوں نے اپنی سیوریج ان میں کیوں ڈالی؟ کیا یہ صرف جہالت ہے یا یہ منرل واٹر کے کاروبار کو دن دگنی ترقی دینے کا ایک منصوبہ بھی ہے کہ صاف پانی کا کوئی ذخیرہ باقی نہ رہنے دیا جائے تا کہ لوگ منرل واٹر پینے پر مجبور ہوں؟کیا کبھی کسی نے پوچھا کہ منرل واٹر کے کاروبار سے کون کون منسلک ہے؟

اسلام آباد جیسے شہر میں واٹر سپلائی اور سیوریج کے پائپ لیک ہو چکے اور پینے کے پانی میں سیوریج کی ملاوٹ ہے۔ ڈپٹی مئیر برادرم ذیشان نقوی سے پوچھا تو کہنے لگے نئے پائپ ڈلوانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اسلام آباد کی مقامی حکومت کا اپنا بجٹ نہیں ہے۔ وہ ایک روپیہ خرچ نہیں کر سکتے۔ سارا دارومدار سی ڈی اے پر ہے اور سی ڈی اے کو روالپنڈی اسلام آباد میٹر و کی سبسڈی میں 60 فیصد حصہ ڈالنا پڑ رہا ہے۔ اکیس ماہ میں ساڑھے 12ارب روپے سبسڈی دینا پڑی ہے۔ پینے کا صاف پانی نہیں اور میٹرو کی سبسڈی اربوں میں۔ ایک طرف پی آئی اے اور سٹیل ملز بیچی جا رہی ہیں کہ مزید سبسڈی دینا ممکن نہیں اور دوسری طرف اربوں کی سبسڈی میٹرو کو دی جا رہی ہے تا کہ نیم خواندہ معاشرے میں ووٹ ہتھیائے جا سکیں۔ کیا کبھی اس جمہورا شاہی پر مقدس ایوانوں میں کوئی ڈھنگ کی آواز بلند ہوئی؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ان مقدس ایوانوں نے مد ت تو عد ت سمجھ کر پورے اہتمام سے گزار دی۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے عوام کو کیا دیا؟امید ہے اس سوال سے جمہوریت کو کالی کھانسی، تپ دق، تشنج، خسرہ اور دیگر مہلک بیماریاں لاحق نہیں ہو جائیں گی۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply