سوشل میڈیا، ٹوٹکے اور ہم/اختر شہاب

سوشل میڈیا پر ٹوٹکوں کی اتنی بھرمار ہےکہ   اللہ کی    پناہ۔۔ ہر شخص اٹھتا ہے اور سوشل میڈیا پر کمائی کی خاطر کوئی نہ کوئی ٹوٹکا ڈال دیتا ہے۔ اس ٹوٹکا کمائی سے “حکیم ٹوٹکا” اور “مولوی ٹوٹکا” دو ایسے خطاب یافتہ افراد ہیں جو خوب کما رہے ہیں ۔ انھیں اس بات سے غرض نہیں کہ ان کے ٹوٹکوں سے کتنے افراد بیمار ہوئے یا ہو سکتا ہے کچھ جان سے بھی گئے ہوں انہیں تو اپنی کمائی سے غرض ہے۔
اس سلسلے میں کچھ ہمارا ذوق بھی ٹوٹیانہ ہے کہ ہم خود اس پر عمل کریں یا نہ کریں دوسروں کو ضرور بتاتے ہیں اور کچھ کم علم عوام بھی قصور وار ہیں کہ کبھی کبھار وقت اور کبھی پیسہ بچانے کی چکر میں ٹوٹکے کا استعمال شروع کر دیتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں۔

اصل میں انھیں کوئی یہ بتانے والا نہیں ہوتا کہ حکیم جب نسخہ لکھتا ہے تو وہ مریض کا مزاج دیکھتا ہے کہ گرم ہے یا سرد ، بادی ہے یا صفراوی۔۔ وقت اور موسم کیسا ہے ۔۔۔ نبض کیا بتا رہی ہے وغیرہ وغیرہ، پھر اسی حساب سے نسخہ لکھتا ہے ۔ حکیم کے ہاں یہ نہیں ہوتا کہ ایک پیناڈول سب کے سردر کو کافی ہے۔ چاہے بعد میں اس کے کتنے ہی مضر اثرات کیوں نہ ہوں۔
جیسے ”ہڑ” کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان اگر ایک سال تک روزانہ کھالے تو انسان کو دوبارہ جوان کر دیتی ہے ۔۔۔ لیکن اس کی بھی اصلاح کرنا پڑتی ہے جسے “بدرقہ” کہتے ہیں اور ہر موسم کا اور ہر ماہ کا بدرقہ الگ الگ ہے۔۔ لیکن سوشل میڈیا پر صرف “ہڑ” سے جوان بنئے کا ٹوٹکا چل رہا ہوتا ہے۔۔

اسی طرح لوگ یہاں اپنی ویڈیو چلانے کیلئے اسلام کا نام بھی بیچتے ہیں۔ زندگی بھر سے ہم کلونجی کھاتے آرہے ہیں۔ ہماری نانیاں ، دادیاں اور مائیں، بہنیں بہت سے کھانوں میں اور خاص طور پر اچار میں کلونجی ڈالا کرتی تھیں۔۔
لیکن نیٹ پر اچانک ایک حدیث کے حوالے سے پتہ چلتا ہے کہ کلونجی ہر مرض کا علاج ہے اور اس طرح پتہ چلتا ہے کہ یا تو کلونجی کھانے والے بیمار نہیں  ہوں گے یا انھیں موت نہیں آئے گی۔ ٹوٹکے باز  لوگ چمچہ چمچہ بھر کلونجی کھلانا شروع کر دیتے ہیں جو بجائے فائدہ کے نقصان کا سبب بنتی ہے۔

ٹوٹکے کس طرح آگے بڑھتے ہیں اور ان کا کیا اثر ہوتا ہے یہ مزیدار قصہ آپ کو بتاتے ہیں۔۔۔

سنا ہے کہ دہلی میں”حکیم نابینا” نامی بہت مشہور حکیم تھے۔ تو ہوا یوں کہ ایک بنیے کا پیشاب بند ہو گیا۔ وہ علاج کے لئے حکیم صاحب کے پاس آیا۔ حکیم صاحب نے کہا کہ پیشاب تو تمہارا کھل جائے گا لیکن میں فیس دو اشرفیاں لوں گا ۔(دو اشرفی کا مطلب آج کے حساب سے دو لاکھ روپے سمجھ لیں۔)
بنیا راضی ہو گیا۔حکیم صاحب نے نوکر کو بھیجا کہ بازار سے خربوزے لاؤ ۔ جب خربوزے اگئےتو حکیم صاحب نے خربوزے کے چھلکے پیس کے بنیے کو پلا دیے۔ بنیےکا پیشاب کھل گیا۔
بنیے بہت غصہ آیا کہ دو پیسے کی چیز کی فیس میں دو اشرفیاں کیوں دوں اور اب تو نسخہ بھی معلوم ہوگیا ہے۔ چنانچہ وہ حکیم صاحب کی فیس دبا کے بھاگ گیا۔
خدا کی قدرت کچھ عرصہ بعد اس کا پیشاب پھر بند ہو گیا۔ نسخہ تو پتہ چل گیا ہی تھا سو اس نے بازار سے خربوزے منگائے اور اس کے چھلکے پیس کے پیے مگر صاحب ! پیشاب کیا کھلنا تھا اس کے بجائے پیٹ   پھول کے کُپا ہو گیا۔

درد اور تکلیف کے عالم میں مجبوراً پھر اسےحکیم صاحب کے پاس آنا پڑا۔ حکیم صاحب نے اسے دیکھا بھالا ،مسکرائے اور بولے “پچھلی دو اشرفیاں اور ابھی کی دو اشرفیاں، کل چار اشرفیاں دو تو علاج کرتا ہوں۔”
مرتا کیا نہ کرتا۔ بنیا راضی ہوگیا۔
جب بنیے سے چار اشرفیاں وصول پالیں تو حکیم صاحب نے نوکرسے کہا کہ خربوزے کے چھلکے لاؤ ۔۔۔
اس پر بنیا چلا اٹھا اور بولا کہ جناب حکیم صاحب ! خربوزے کے چھلکوں سے تو میرا پیٹ اور پھول گیا ہے۔
حکیم صاحب ہنسے اور بولے “میاں!حکیم تم ہو یا میں؟ان دنوں گرمیوں کا موسم تھا اور میں نے خربوزے کے چھلکے _ساتھ دیے تھے ۔ اب سردیوں کا موسم ہے میں چھلکے ___کے ساتھ دوں گا۔”

تو جناب! انٹر نیٹ پر چلنے والے ٹوٹکے خربوزے کے چھلکے ہوتے ہیں اور ان کو کب، کہاں اور کس کے ساتھ دینا ہے یہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔
زیادہ تر ہم صرف خربوزے کے چھلکے فارورڈ کر رہے ہوتے ہیں جو نقصان کا سبب ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: – مجھے تو اب یہ ڈر ہے کہ کوئی ٹوٹکے استعمال کرنے والا کہیں یہ نہ پوچھنے بیٹھ جائے کہ مضمون تو آپ نے بہت اچھا لکھا ہے مگر یہ تو بتا دیں کہ بنیے والے قصے میں __کی جگہ کیا آئے گا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply