بسم اللہ الرحمٰن الرحیم!
ایک پُرسکون معاشرے کے قیام کے لیے ہمیں دو بنیادی معاشرتی آداب سمجھا دیے گئے ہیں۔ ایک دوسرے کی زندگی میں تجسس نہ کرو، اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ معاشرہ اَدب سے بنتا ہے۔ کچھ مشترک اخلاقی اقدار ہوتی ہیں جو ایک معاشرے کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ سکون خاندان کا ہو‘ یا ایک پورے ملک اور معاشرے کا ‘ ہمیں چند بنیادی اخلاقی اصولوں کی بہرطور پاسداری کرنا ہوتی ہے۔ اگر ہر شخص اپنے مزاج کے مطابق شتر بے مہار چلتا رہے تو معاشرہ قائم رہ سکتا ہے‘ نہ خاندان! مغرب سے آنے والے لوگ بتاتے ہیں کہ وہاں لوگ ایک دوسرے کی غیبت نہیں کرتے، اور نہ ایک دوسرے کی باتوں کی ٹوہ میں ہی رہتے۔ ممکن ہے‘ وہاں معاشی اور معاشرتی آزادی کا چلن اُنہیں اِس راہ پر لے آیا ہو‘ لیکن ہم اِن اصولوں کی پاسداری اِس لیے کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے رب کا حکم ہے ، یہ بات ہمارے پیارے رسولؐ کی سکھلائی ہوئی بنیادی اقدار کا حصہ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ہم اِن صحت مند اصولوں کو اپناتے ہیں تو ہماری دنیاوی اور دینی دونوں زندگیاں خوش حال ہو جاتی ہیں۔صد حیف! ہمارا حال یہ ہے کہ دوسروں کو نصیحت‘ خود میاں فضیحت!! شاید ہم پر یہ آیت صادق آرہی ہے ’’کبُر مقتاً عند اللہ اَن تقولو لِم تقولون مالا تفعلون‘‘ ( اللہ کے نزدیک یہ بات بہت بری ہے کہ تم وہ بات کہو‘ جو تم کرتے نہیں)۔ اِسی باب میں ایک اور آیت دل کے کانوں میں گونج رہی ہے’’ اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون‘‘ (کیا تم لوگوں کو بھلے کاموں کا حکم دیتے ہے اور خود اپنے نفسوں کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟) واقعی ہم ذرا بھی عقل سے کام نہیں لیتے۔ عقل سے کام لیں گے تو عقلِ سلیم تک پہنچیں گے۔عقلِ سلیم وہ ہوتی ہے جسے راہِ تسلیم میں کوئی دِقت پیش نہ آئے۔ ہم ہر وقت گروہی تعصب ، فرقہ پرستی ، ضد اور اَنا کے گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں اور بے پر کی اڑاتے ہیں۔ اس کی سزا یہ ملتی ہے کہ ہم اُس بنیادی وظیفۂ عقل کو بھول جاتے ہیں‘ جو بنی نوعِ انسان کی مشترک میراث ہے۔ اگر زمینی سفر کے آداب ہی نہ سیکھ پائے تو آسمانی سفر کے لیے عازم منزل کیسے ہو سکیں گے؟
ہمارا دین ‘ دین ِ فطرت ہے، اگر تعصب مانع نہ ہو تو یہ دین ہر ذی عقل کے لیے قابلِ قبول ہے۔ بنیادی اخلاقی اصول یوں بھی بنی نوعِ آدم کے ضمیر کا ایک غیر تحریری میثاق ہے۔ قرآن کریم میں سورۃ الحجرات میں ایک مہذب معاشرے کی تشکیل کے لیے بہت سے اخلاقی اسباق دیے گئے ہیں۔ اِن میں سر ِ فہرست تکریم رسول کریمؐ ہے،اِسی سورۃ کی تیسری آیت میں تکریم رسولِ کریمؐ کو تقویٰ سے تعبیر کیا گیا ہے— یعنی پیغمبر ِؐ اخلاق کی عزت و تکریم سب سے پہلا اخلاقی فریضہ ہے۔ اصول یہی ہے کہ صاحب ِ کتاب‘ کتاب پر فائق ہوتا ہے۔ سبق دینے والا ٗسبق پر مقدّم رکھا جاتا ہے— اِسی اصول پر چلتے ہوئے‘ انسان درجہ بدرجہ شعور کی منزلیں طبق در طبق طے کرتا ہے۔
اِن اسباقِ معاشرت میں بتایا گیا ہے کہ جب کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو اِس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم جہالت میں کسی قوم پر چڑھ دوڑو، اور بعد میں تمہیں اپنے فعل پر ندامت ہو۔ عارفین ِ حق نے فاسق کی تفسیر میں لکھا ہے کہ فاسق وہ ہوتا ہے جوذاتِ حق کے اَمر میں اپنی ذاتی تجویز شامل کر دیتا ہے اور یوں اپنے نفس کے حکم کو اللہ کا حکم کہہ کر لوگوں کے دین اور دنیا کو خراب کرتا ہے۔ اسی باب میں رسولِ کریمؐ کا فرمانِ عالی شان ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ بغیر تحقیق کیے بات آگے بیان کر دے۔ آج کل سوشل میڈیا پر ہم اس حکم کی واضح خلاف ورزی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کرونا وبا کی بات ہو یا اس کی ویکسین کی بابت کوئی سنی سنائی خبر ‘ ہم ان سب کو ایک انگلی کی جنبش سے ہر طرف ارسال کر دیتے ہیں۔ اصول کی بات یہ ہے کہ سائنس کی بات ٗ سائینس کے لوگوں سے پوچھنی چاہیے، معاشیات کے حوالے سے کوئی بات ہو‘ تو اِس کی تصدیق ماہرین معاشیات سے کرنی چاہیے، دین کی بات ہے‘ تو دین کے عالموں سے دریافت کرنی چاہیے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم دین کی بات بھی کوئی سند اور حوالہ دیکھے بغیر بس آنکھیں بند کر کے’’صدقہ جاریہ‘‘سمجھتے ہوئے پھیلائے چلے جاتے ہیں۔عین ممکن ہے‘ ہم علم کے نام پر بدعلمی پھیلا رہے ہوں۔ ایک ذمہ دار مسلمان ایسا نہیں کرتا۔ ہم نے دین کے مزاج میں ڈھلنا ہے ، دین کو اپنے مزاج میں ڈھالنے کی کوشش ایک فسق ہے۔ اقبالؒ صاحب ِ حال کی زبان میں ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔
ایک اور معاشرتی حکم ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کا تمسخر نہ اڑائے، عین ممکن ہے وہ قوم تم سے بہتر ہو۔ بین الاقوامی امن اور احترام آدمیت کا اِس سے بڑا سبق اِس قدر واضح الفاظ میں شاید ہی کہیں اور دیا گیا ہو۔ ایک قوم کا دوسری قوم کے بارے میں بُرے القابات استعمال کرنا اور طنزیہ جملے کسنا‘ اِسلام کی اخلاقی تعلیمات کے یکسر منافی ہے۔ ہمیں دوسری قوموں کے جھوٹے خداؤں کو برا کہنے سے منع کیا گیا۔ ہم تو واصلِ قلزم ہونے والے وہ دریا ہیں جس نے سب دریاوں کو اپنے اندر سمیٹ کر چلنا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ طاقتور اور صحت مند عقائد دوسرے عقیدوں کو اپنے اندر اس طرح ملاتے ہیں جیسے سمندر دریاؤں کو اپنے اندر سمیٹتا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ دریا ملاپ کرتے ہیں‘ لڑائیاں نہیں کرتے۔
آج “لا تجسسو”‘ پر بات کرنا مقصود تھی لیکن حسب ِ معمول تمہید طولانی ہو گئی۔ مذکورہ آیت کے شروع میں ہدایت دی گئی ہے کہ ایک دوسرے کے بارے میں بہت زیادہ گمان نہ کیا کرو، بہت سے گمان تو گناہ ہوتے ہیں۔ اگر الفاظ کی ترتیب پر غور کیا جائے تو پیغام واضح ہو جاتا ہے۔ پہلے انسان دوسروں پر شک کرتا ہے ، یعنی اُن کی نیت پر شک کرتا ہے، پھر اُن کے عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اِس کے بعدوہ اُن کی زندگی کے پوشیدہ گوشوں اور خفیہ مکالموں کے بارے میں متجسس ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے شک کو یقین کا لباس پہنانے کے لیے دوسروں کی زندگی کے بارے میں ٹوہ لگاتا ہے۔ یہ ایک عام نفسیاتی کلیہ ہے کہ انسان کی آنکھیں وہی کچھ دیکھتی ہیں جو وہ دیکھنے کی جستجو کرتا ہے۔ چنانچہ ہر داڑھی والا ہمیں تخریب کار نظر آنے لگتا ہے ، ہر کوٹ پینٹ ٹائی والا ہمیں دین سے برگشتہ دکھائی دیتا ہے، ہر عقل کی بات کرنے والا ہمیں دشمنِ عشق محسوس ہوتا اور ہر عاشق ہمیں ہوش وخرد سے بے گانہ معلوم ہوتا ہے۔ آج کل یہ ایک عام رواج بن چکا ہے کہ ہم جس پر شک کرتے ہیں‘ اُس کا فون ٹیپ کرواتے ہیں، اُس کے موبائل کی چھان پھٹک کرواتے ہیں، لوگوں سے اُس کے متعلق خوب تفتیش کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُس کی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ برآمد ہو جاتا ہے جو ہمیں ہضم نہیں ہو پاتا۔ ہم جانتے نہیں ٗ کہ ہر شخص کی زندگی کا کوئی حصہ ایسا ہوتا ہے جو ہماری حدِ برداشت سے باہر ہوتا ہے۔ وہ ہمارے احترام میں اپنے تاریک گوشے کو ہماری نظر سے چھپانے میں مصروف ہوتا ہے اور ہم اس احترام کی لاج نہیں رکھ پاتے۔ حاصلِ کار‘ دو افراد اور پھر دو خاندانوں کے مابین ایک نہ ختم ہونے والی رنجش پیدا ہو جاتی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اللہ الکریم کا قول کہ اگر تم پر ایک دوسرے کے باطن عیاں ہو جائیں تو تم لوگ اپنے ساتھیوں کو دفن تک نہ کرو۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری ہے کہ تم اپنے نفس کی پاکی بیان نہ کرو ، اللہ ہی جانتا ہے کہ کون پاک ہے۔ اس لیے عافیت اِسی میں ہے کہ ہم پر ایک دوسرے کی رات ، ذات اور تنہائی آشکار نہ ہو،ہم پر ایک دوسرے کی نیت کی برہنگی نہ کھلے۔ ہم میں سے ہر شخص درویش نہیں ہوتا کہ وہ ستار العیوبی کی صفت سے موصوف ہو۔ کہتے ہیں کہ ستار العیوبی والی صفت کا مظہر کالی کملی ہے۔
روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ رسولِ کریمؐ نے اپنے اصحابِ ذی مقام سے پوچھا کہ اگر تمہیں یہ کالی کملی عطا کردی جائے تو تم کیا کرو گے؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے کہا کہ وہ اِس سے صدق و صفا کو عام کریں گے، حضرت عمر ِ فاروقؓ گویا ہوئے کہ وہ اِس سے عدل و انصاف کا بول بالا کریں گے۔ اسی طرح حضرت عثمانِ غنیؓ کا بیان تھا کہ وہ اِس سے شرم و حیا کی ترویج کا کام کریں گے، سلسلۂ کلام جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم تک پہنچا تو آپؓ نے فرمایا کہ وہ اس کملی سے مخلوق کے عیوب کی ستر پوشی کریں گے۔ حق بحقدار رسید‘ ستار العیوبی والی صفت کالی کملی کی معرفت باب العلم حضرت علی ابن ِ طالب ؑ کے سپرد ہوئی‘ جو وارث پیغمبرؐ بھی ہیں اور سلسلہ ولایت کے مورث بھی!! آج بھی ایک درویش کی بنیادی صفات میں سرِ فہرست مخلوق کی خدمت کے بعد مخلوق کے عیبوں کی پردہ پوشی ہے۔ وہ باطن تک رسائی رکھتا ہے‘ اِس کے باوجود ظاہر کا بھرم رکھتا ہے۔ وہ جھوٹے کو اُس کے منہ پر جھوٹا نہیں کہتا، وہ کسی بے ادب کو سرِ محفل اَدب نہیں سکھاتا، اُس کی چشم پوشی اک تجاہلِ عارفانہ ہے۔ اخلاقیات اپنے اظہار کے لیے کسی درویش کے اسلوبِ بیان کی منت پذیر ہے۔ قرونِ اولیٰ کے ایک درویش کا قول ہے کہ دین سارے کا سارا اَدب ہے۔ یہ فقیر اِس سوچ میں پڑ گیا ہے کہ ہم ایسے بے ادب اُس دین کی تبلیغ اور ترویج کیونکر کر سکیں گے جو سارے کا سارا اَدب ہے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں