“ڈننگ اینڈ کروگر ایفیکٹ”۔۔محمد اشفاق

میں چونکہ پیدائشی احمق واقع ہوا ہوں تو ہمیشہ خود کو یہ سوچ کر تسلی دی کہ دلیروں کو ہمیشہ سے دنیا احمق کہتی آئی ہے۔
تیراکی نہیں آتی تھی/ہے مگر جہاں پانی دیکھا یہ سوچ کر کود پڑا کہ ہاتھ پاؤں مارنے سے خود ہی آ جائے گی۔ شکر ہے کہ ریسکیو کرنے والے ہمیشہ آس پاس موجود رہے۔
بیس بائیس برس قبل جب اپنا پہلا موٹر سائیکل لیا تو سائیکل چلانا بھی نہیں آتی تھی۔ اب بھی نہیں آتی۔ یہی سوچا کہ بائیک ہو گی تو چلانا بھی آ جائے گی۔ آ گئی، مگر اس پراسیس کے دوران اپنے اور درجن بھر راہگیروں کے گوڈے گٹے نیلے کالے ہوئے۔ کچھ گاڑیوں کو ڈینٹ پڑے اور ایک بابا جی کو ریلوے ہاسپٹل داخل کروانا پڑا۔
کرکٹ میں بھی یہی حال تھا۔ بالنگ گزارے لائق تھی جس کے بل پر ٹیم میں جگہ بنی رہتی تھی۔ جب میں فیلڈ سے باہر ہوتا تھا تو مخالف ٹیم کے بالرز کیڑے مکوڑے دکھائی دیتے تھے اور ٹیپ بال، فٹبال۔ گراؤنڈ میں جا کر اندھادھند بیٹ گھمایا کرتا تھا۔ اگر کبھی آٹھ دس رنز بنا لوں تو پوری ٹیم تالیاں بجا کر داد دیا کرتی تھی۔ لیکن اپنی بلے بازی کی صلاحیتوں پر اعتماد کبھی کم نہیں ہوا۔
حالات اب بھی جوں کے توں ہی ہیں۔ لیکن پڑھنے لکھنے اور کچھ عمر گزرنے سے یہ احساس ضرور ہو گیا کہ یہ جو کامل یقین سے ہر پنگا لینے کی عادت ہے، یہ جو فالس کانفیڈنس ہے، یہ خوبی نہیں ہے، کوئی مینوفیکچرنگ فالٹ ہے۔

جب Cognitive Biases یا فکری تعصبات کو پڑھنے سمجھنے کا موقع ملا تو اپنے اور دوسروں کے بہت سے رویوں کو سمجھنے میں مدد ملی۔ یہ پچاس کے لگ بھگ تعصبات ہیں جن میں سے پندرہ بیس ہم میں سے ہر ایک ہی میں پائے جاتے ہیں۔ میں انہیں جب بھی پڑھتا ہوں مورال شدید ڈاؤن ہو جاتا ہے کیونکہ مجھے پچاس کی پچاس biases اپنے اندر دکھائی دیتی ہیں۔
انہیں سمجھنا اور جاننا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ یہ تعصبات ہمیں خود اپنا، درپیش صورتحال کا اور اپنے ماحول کا، درست تجزیہ کرنے سے روکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہماری درست فیصلے کرنے کی صلاحیت پہ منفی طور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

اوپر جو اپنی احمقانہ دلیری کا تذکرہ کیا، اس کی وجہ بھی ایک فکری تعصب ہے جسے “ڈننگ اینڈ کروگر افیکٹ” کہا جاتا ہے۔ یہ سب سے زیادہ عام پائے جانے والے تعصبات میں سے ایک ہے۔

ڈننگ اور کروگر دو بیبے سے بابے ہیں جنہوں نے 1999 میں اپنی تھیوری پیش کی۔ تعصب اس سے پہلے بھی پایا جاتا تھا اس لئے ان دونوں حضرات کو قصوروار نہ سمجھا جائے۔
یہ تھیوری ہمیں بتاتی ہے کہ “جس معاملے یا جس کام سے متعلق ہمارا علم جتنا کم اور ناقص ہوتا ہے، اس معاملے یا اس کام کے بارے میں ہم اتنا ہی زیادہ پُر یقین اور پُر اعتماد ہوتے ہیں۔”

آسان الفاظ میں ہماری جہالت کا پرچم جتنا بلند ہوگا، ہمارا اعتماد بھی اتنی ہی رفعتوں کو چھو رہا ہوگا۔

بظاہر یہ بات عقل سلیم کے سراسر خلاف لگتی ہے۔ بچپن سے ہمیں نصیحت بھی یہی کی جاتی ہے، جو مجھے تو اب تک ہزاروں بار سننے کو ملتی ہے کہ “جس کام کا پتہ نہیں اس سے دور رہو”۔ لیکن ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی موقع پر اس تعصب کا شکار ہوتا ہے۔

مگر کیوں؟

اس لئے کہ ” یہ جاننے کیلئے کہ ہم کچھ نہیں جانتے، کچھ نہ کچھ جاننا ضروری ہوتا ہے۔”

یعنی کسی درپیش مسئلے یا کسی نئی صورتحال کی نزاکتوں کی ہمیں کچھ نہ کچھ خبر ہو اور اسے حل کرنے کیلئے درکار صلاحیتوں کا کچھ نہ کچھ ادراک ہو، تبھی ہم جان سکتے ہیں کہ ہم اس مسئلے کو حل کرنے یا اس صورتحال سے نبٹنے کے قابل ہیں یا نہیں۔ جتنا ہمارا علم کم ہوگا، اتنا ہی ہمیں معاملہ آسان دکھائی دے گا۔
“میں صرف ایک بات جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا” سقراط صاحب کو یہ ایک بات جاننے کیلئے پتہ نہیں کتنے علوم میں مہارت حاصل کرنا پڑی تھی۔

“علم کی انتہا حیرانی ہے اور جہل کی انتہا اعتماد”

اسی لئے کہا جاتا ہے کہ “بیوقوف وہاں بھی پہنچ جاتے جہاں فرشتے بھی قدم رکھنے سے ہچکچاتے ہیں۔”

اس تعصب کی ثانوی اور ضمنی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ کسی ایک کام میں مہارت رکھتے ہوں تو آپ کو لگتا ہے کہ باقی سب کام بھی آپ کیلئے آسان ثابت ہوں گے۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب کسی نہ کسی ایک کام میں تو ماہر ہوتے ہی ہیں۔

اوپر کرکٹ کا تذکرہ ہوا تو چونکہ میں فٹبال میں بہت اچھا ڈیفنڈر تھا۔ اِن فیکٹ اتنا اچھا کہ کھلاڑی کم ہوں تو ہماری ٹیم بغیر گول کیپر کے کھیل لیتی تھی کہ پیچھے اشفاق کھڑا ہے، سنبھال لے گا۔ جو ڈیڑھ دو سال ہاکی کھیلی اس میں بھی گزارا کرتا تھا تو مجھے کرکٹ ‘پیس آف کیک’ لگتی تھی۔

اسی طرح ایک صاحب کرکٹ میں کامیاب کپتان تھے تو انہیں لگا وہ ملک بھی ایسے ہی چلا لیں گے جیسے کرکٹ ٹیم چلا لیتے ہیں۔ یہ ڈننگ اینڈ کروگر ایفیکٹ کی کلاسک مثال ہے۔

امید ہے اب آپ اس تعصب کو اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے۔ اب اگر یاد کریں تو اپنی زندگی میں بہت سے مواقع آپ کو ایسے نظر آئیں گے جہاں یہ فالس کانفیڈنس یا جعلی اعتماد آپ کو بہت مہنگا پڑا تھا۔ یا شاید اب بھی پڑ رہا ہے۔

اس کا خصوصی شکار وہ لوگ بنتے ہیں جو یا تو اپنے کیرئیر یا عملی زندگی کی ابتدا کر رہے ہوتے ہیں یا پھر ان سے بھی زیادہ وہ جنہیں مڈ لائف کرائسس کا سامنا ہوتا ہے۔
کیرئیر کا آغاز کرنے والے نوجوانوں کو تو آپ کم عمری اور ناتجربہ کاری کا مارجن دے سکتے ہیں۔ لیکن جنہیں چالیس پچاس برس کی عمر میں نئے سرے سے کیرئیر کا آغاز کرنا پڑے، یا ازدواجی زندگی کا، یا پھر ہجرت اختیار کرنی پڑ جائے،ان کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کیرئیر، ایک رشتے یا ایک سرزمین کے اتنے عادی ہو چکے ہوتے ہیں اور متعلقہ معاملات میں خود کو اتنا ماہر سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ اسے چھوڑ کر وہ بھی کسی ٹین ایجر کی طرح اندھادھند کنویں میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔
لیکن اس ڈننگ اینڈ کروگر ایفیکٹ کا حل کیا ہے؟

حل یہی ہوتا ہے کہ کسی نئے کنویں میں چھلانگ لگانے سے پہلے اس کی گہرائی ماپ لیں۔ اس کے اندر پانی کی مقدار کا اندازہ کر لیں۔ رسی کی مضبوطی جانچ لیں۔ اردگرد ایک دو سیانے بندے جمع کر لیں۔ ہو سکتا ہے وہ آپ کو سمجھا لیں کہ کنویں میں کودے بغیر بھی کام ہو سکتا ہے یا کم از کم آپ کو غوطے کھاتا دیکھ کر ریسکیو کر سکیں۔
کہنے کا مطلب یہ کہ کوئی نیا معاملہ یا معرکہ درپیش ہو تو ایک بار  رُک کر ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لے لیں۔

اس کا ایک آسان اور قابلِ  عمل طریقہ کار فدوی نے اس تصویر کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ طریقہ میرا ایجاد کردہ نہیں ہے، اس کا کوئی بھلا سا نام بھی ہے جو میں بھول گیا۔
جو لوگ ملازمت سے کاروبار یا پرانے بزنس سے کسی نئے آئیڈیا پر شفٹ ہونا چاہتے ہیں۔ مطلب کیرئیر تبدیل کرنے یا بنانے کے خواہاں ہیں، ان کیلئے یہ سکلز اینالسس بہت مفید ہو سکتا ہے۔
اچھا ڈرائیور، اچھا مکینک، اچھا استاد، اچھا کاروباری کوئی ایک مہارت کا نام نہیں ہے۔ ہر سکل skill درحقیقت چھوٹی چھوٹی سب-سکلز کا مجموعہ ہوتی ہے۔
تو جو آپ کا ہدف ہے اسے پانے کیلئے کون کون سی سب سکلز درکار ہوں گی ان کی ایک فہرست بنا لیں۔
اب کاغذ پر دو لکیریں کھینچیں۔ ناک سے نہیں، قلم سے۔ جیسا کہ اس تصویر میں آپ دیکھ رہے۔
افقی خط آپ کی نالج یا علم کو ظاہر کر رہا ہے اور عمودی خط ایکسپرٹیز یا عملی مہارت کو۔
انہیں آپ ایک سے دس تک نمبر دے دیجئے۔
اب ہر سب سکل کیلئے افقی اور عمودی یعنی علم اور مہارت دونوں میں آپ خود کو ایک سے دس کے سکیل پر جہاں کھڑا دیکھتے ہیں، ان دونوں پوائنٹس کے باہم ملاپ پر وہ سکل درج کر دیں۔
آپ حاصل کردہ نمبروں کے لحاظ سے ان چاروں زاویوں یا زونز میں کہیں نہ کہیں پائے جائیں گے۔
اوپر دائیں جناب گرین زون ہے۔ اگر آپ یہاں پائے جاتے ہیں تو مبارکباد کے مستحق ہیں۔
نیچے بائیں جانب ریڈ زون ہے، آپ کو گلابی اس لئے دکھائی دے رہا کہ مجھے پنک ہائی لائٹر ہی دستیاب تھا۔ اگر آپ یہاں موجود ہیں تو ڈوب مریں۔ مذاق میں کہہ رہا، مطلب آپ متعلقہ مہارت میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔
دونوں  ییلو زونز میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نالج یا ایکسپرٹیز میں سے کسی ایک میں کمی پائی جاتی ہے۔ جسے پورا کرنے میں وقت لگے گا۔
تو جب انفرادی طور پہ ہر sub-skill میں آپ کو اپنے لیول کا اندازہ ہو جائے تو Main Skill میں قدم رکھنے کیلئے آپ کو کہاں کہاں محنت کی ضرورت ہے، یہ جاننا آسان ہو جاتا ہے۔

جن صاحب کا تجزیہ میں نے تصویر میں مستعار لیا ہے، وہ ادارے میں سینئر لیول کی ایک پوزیشن پہ پروموشن کے خواہاں تھے۔ جب تک انہوں نے یہ تجزیہ نہیں کیا تھا وہ خود کو اس عہدے کیلئے سب سے موزوں امیدوار سمجھتے تھے۔ اب ان کا خیال مختلف ہے اور انہوں نے خود کو مزید دو سال دے دیے ہیں، اس عہدے کے قابل بنانے کیلئے۔

ڈننگ اینڈ کروگر ایفیکٹ اتنا ظالم ہے کہ یہ تجزیہ کرتے بھی یہ آپ کو زیادہ نمبر دینے پر اکسائے گا۔ اس لئے مندرجہ ذیل نکات بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔
1- بہت سے معاملات میں آپ کے کوورکرز، دوست اور اہل خانہ آپ کو آپ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ اپنا ایک تجزیہ خود کریں اور ایک اپنے کسی قابل اعتماد دوست، کولیگ یا شریک حیات سے کروائیں۔ لگ پتہ جائے گا۔

2- نالج اور ایکسپرٹیز ندی کے دو کنارے نہیں ہیں، یہ اکثر آپس میں مدغم ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً آپ مڈل فیل ہیں مگر دکان پہ چند سال ابا جی کے ساتھ گزار کر کاروباری اسرارورموز سیکھنے کے بعد اب چند برس سے دکان خود چلا رہے ہیں تو بے دھڑک دونوں شعبوں میں خود کو چھ نمبر دے سکتے ہیں۔ تجربہ ہر صورت کتابی علم پہ حاوی ہوتا ہے۔

3- لیکن اب تک آپ کی گزربسر ابا جی کے کاروباری نسخوں پر ہی ہے تو بیس سال بعد بھی آپ چھ سے اوپر نہیں جا پائیں گے۔ اپنے شعبے میں ہونے والی تبدیلیوں اور نئے تقاضوں کا علم رکھنے والے کئی دہائیوں سے قائم بزنس ایمپائرز کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔

4- نالج کے سکیل پر بلاگز اور ٹیوٹوریلز پہ گزارا کرنے والے خود کو دو سے زیادہ نمبر نہیں دے سکتے۔ اگر متعلقہ علم میں ایک یا چند ایک اچھی کتابیں پڑھ رکھی ہیں تو تین، فری کورسز، سیمینار، ویبینار اٹینڈ کر رکھے تو چار، سرٹیفکیٹ کورسز کر رکھے تو پانچ اور ڈگری رکھتے ہیں تو چھ نمبر۔ چھ سے اوپر خود کو اسی صورت میں مارکس دیں جب ان سب کے ساتھ کچھ نہ کچھ عملی تجربہ بھی ہو۔

5- ایکسپرٹیز صرف اور صرف ریزلٹ اورئنٹڈ ہیں۔ اگر آپ یاروں میں یا گھر والوں میں بیٹھ کر اچھی گپیں ہانک لیتے تو کمیونیکیشن سکلز میں خود کو ماہر مت سمجھیں۔ آپ نے دو خاندانوں میں صلح کروا رکھی یا اپنے سپلائرز سے ایکسٹرا ڈسکاؤنٹ لے رکھا یا بنک آپ کے ادارے کو ڈیفالٹر قرار دینے والا تھا آپ نے گفت و شنید کر کے چھ ماہ یا سال کی مزید مہلت لے لی تو یہ کمیونیکیشن سکلز ہیں۔ مطلب یہ کہ ایکسپرٹ آپ تبھی کہلا سکتے اگر اپنی مہارت کا کوئی عملی ثبوت پیش کریں۔ تو جتنے عملی ثبوت ہوں، عمودی سکیل پر آپ اتنا ہی اوپر جا سکتے ہیں۔

6- تین چار یا پانچ چھ افراد پر مشتمل ٹیمز میں بہتر یہ رہتا ہے کہ ہر ایک کے کام کی سکلز نوٹ کریں پھر باس اور ملازم یا سینئر جونئیر کی تفریق کئے بغیر ہر کوئی اپنا اور باقی ٹیم ممبرز کا سکلز اینالسس کرے۔ اس سے ہر ایک کو اپنی خوبیوں اور خامیوں کا بہتر ادراک ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

7- یہ طریقہ کار معمولی تبدیلیاں کر کے بہت سے معاملات میں استعمال ہو سکتا ہے۔ اپنی امیجینیشن استعمال کریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply