خس کم ، جہاں پاک۔۔۔سید عارف مصطفٰی

 لیجیئے عید کی خوشیاں دو چند ہوگئیں کیونکہ بالآخرآقا کے ہاتھوں غلام مارا گیا ، ایجنٹوں کے ساتھ یہ حسن سلوک کوئی نئی بات نہیں ، پالتو جیسے ہی فالتو ہوجائے مارا جاتا ہے ویسے بھی جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا ہی کرتے ہیں ۔۔۔ لہٰذا غیور طالبان کے ہاتھوں مسلسل پٹنے اور افغانستان کا بڑا رقبہ چھن جانے کے بعد اگر امریکا نے اپنے ناکارہ محافظ 44 سالہ ملا فضل اللہ کو مارڈالا تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ۔۔۔ وہ ایک مدت سے امریکا و دیگر سرپرست ممالک کے لئے ایک اذیت ناک بوجھ بن چکا تھا کیونکہ وہ اپنی تخریبی طاقت کھو بیٹھا تھا جسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ  اسکی گھناؤنی حرکات اور ظالمانہ کارروائیوں کی وجہ سے اسکے ساتھیوں کی تعداد دن بہ دن قلیل سے قلیل تر ہوتی جارہی تھی اور وہ اس قدر کمزور ہوچکا تھا کہ وہ ان حریت پسند اصلی طالبان کے مقابل صف آرا رہنے کے قابل نہیں رہ گیا تھا کہ  جو افغانستان پہ قابض امریکی افواج کے خلاف برسرپیکار ہیں اور نہ ہی وہ سانحہء پشاور کے بعد پاکستان میں مزید کسی بڑی کارروائی کی تاب رکھتا تھا ۔ نہایت کم تعلیم یافتہ لیکن جوش خطابت سے معمور یہ شخص ابتدائے جوانی میں سوات سے کراچی چلا گیا تھا ااور وہاں ون ڈی بس کا کنڈیکٹر ہوا کرتا تھا لیکن چند ہی برس بعد پھر اپنے آبائی علاقے سوات میں واپس جاکے مولانا صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی میں شامل ہوگیا تھا اور پھر انکا داماد بن کے انکا نائب بننے میں کامیاب ہوگیا تھا۔۔۔ چونکہ گفتگو کا ماہر اور بہت طرار تھا چنانچہ اس نے مقامی طور پہ ایف ایم ریڈیو ٹائپ نشریاتی سلسلہ شروع کرکے پشتو میں اپنے آتشیں  و جذباتی خطابت کے جوہر دکھانے شروع کردیئے اور جلد ہی بہت مشہور ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملا ریڈیو کے لقب سے جانا جانے لگا اور اسی مرحلے پہ اسکی منفی صلاحیتوں کو بھانپ کے اسے امریکا و دیگر پاکستان مخالف ملکوں نے گود لے لیا اور اسکے ذریعے پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لٰئے اسکی تخریبی صلاحیتوں کو منظم طور پہ بروئے کار  لایا گیا جس کے لئے اس نےتحریک نفاذ شریعت میں اپنے حامیوں کی کثیر تعداد شامل کرکے دہشتگردی و تخریبی کارروائیوں کا آغاز کیا اور سوات میں انتظامیہ و سیکوریٹی ایجنسیز و پولیس اور مخالفین کے خلاف چھاپہ مار کارروائیوں میں شدید وحشت اور تشدد کے ذریعے خود کو دہشت کی علامت بنالیا- یہ سلسلہ شروع ہونے  کے کچھ عرصے بعد ہی اسکے سسر صوفی محمد نے اسکی پشت پناہی ترک کردی اور پھر تحریک سے بھی فارغ کردیا جس پہ اس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سوات طالبان نامی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی اور پھر تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی نظم کا حصہ بن گیا اورنومبر 2013 میں حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد تحریک طالبان کا سربراہ بننے میں کامیاب ہوگیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پاکستان میں خودکش دھماکے و دیگر تخریبی سرگرمیاں عروج پہ پہنچادیں لیکن جب آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تو وہ اپنے خاص گروہ سمیت بھاگ کر افغانستان چلا گیا اور امریکا و کابل انتظامیہ کی سرپرستی میں وہاں سے بیٹھے بیٹھے پاکستان میں اپنے کارندوں کے ذریعے دہشتگردی کا بازار گرم کردیا اور پاک افواج کی چوکیوں اور عام اجتماع کے مقامات پہ بم دھماکے معمول بنادیئے لیکن پاک فوج کی جانب سے نہایت مؤثر جوابی کارروائیوں نے اسے بری طرح مضمحل کرڈالا اور اسکی قؤت پہ بڑی شدید ضرب لگی ۔۔۔ تاہم اب اس نے ایک اور راہ اپنائی اور ڈالر خوری کی لت میں مبتلاء ہوجانے کی وجہ سے امریکا کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے اور بلیک میلنگ کرنے کا رستہ اختیار کرلیا اور اس ہتھکنڈے کو اپنا شعار بنالیا اور اسکے ساتھیوں نے بھیس بدل کے افغان افواج اور امریکی اہلکاروں کے خلاف گوریلا کارروائیاں کرنے کو اپنا معمول بنالیا۔۔۔ وہ اور اسکے ساتھی زیادہ آسانی سے یہ سب اس لئے بھی کرسکتے تھے کیونکہ انہیں امریکی پٹھو ہونے کی وجہ سے افغانستان کے کئی اندرونی مقامات تک رسائی کی رعایت میسر تھی ۔۔۔

ملا فضل اللہ ہلاکت کی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ امریکا اصلی طالبان کو کسی نہ کسی طرح خوش کرنے کا متمنی تھا کیونکہ اسے بے پناہ نقصانات اٹھانے کے بعداپنے  مدمقابل کھڑے افغان طالبان کی طاقت کا ادراک ہوگیا ہے اور وہ انہیں ہرقیمت پہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پہ بٹھانے اور نتیجہ خیز بات چیت کے لئے بڑا بیقرار ہوچلا ہے ۔۔۔۔ لیکن زیادہ گھمبیر مسئلہ یہ ہے کہ اصل طالبان کابل کی کٹھ پتلی انتظامیہ کو گھاس ڈالنے کو تیار نہیں اور براہ راست امریکا ہی سے مذاکرات چاہتے ہیں اور امریکا ایسا ہرگز نہیں چاہتا کیونکہ اس عمل کا مطلب امریکا کی جانب سے اپنی شکست تسیم کرلینے کے مترادف ہوگا جس  سے اسکی بڑی سبکی ہوگی اور یوں بطور مضبوط ترین عالمی طاقت ہونے کا بھرم خاک میں مل جائے گا اور اسکا براہ راست اثر دنیا بھر میں اسکے استبدادی کردارپہ پڑے گا اور کئی ایسی جگہوں پہ اسکے مقابل مزاحمتی قؤتوں کو یکایک بڑی تقویت مل جائے گی جسکے باعث وہاں بھی اسکی گرفت ڈھیلی پڑ سکتی ہے – ان بیان کردہ وجوہات کی وجہ سے امریکا اپنے خلاف لڑنے والے اس جری گروہ کا اعتماد حاصل کرنے اور انہیں اپنی ضد سے پیچھے لانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا تھا اور قطعی بعید نہ تھا کہ امریکا کوئی بھی بہت غیرمعمولی اقدام کرڈالے جو کہ  اس نے بالآخر اب کرڈالا ہے ۔۔ ملا فضل اللہ سے چونکہ پاکستانی فوج اور حکومت بھی بہت تنگ چلی آرہی تھی چنانچہ اسکو ہلاک کردینے سے امریکا اب پاکستان سے اسکی وہ قیمت وصول کرنا چاہے گا جو کہ پہلے سے معلوم شدہ ہے یعنی وہ اب پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کو ملیا میٹ کرنے کا عمل فول پروف اندازمیں مکمل ہوتا دیکھنا چاہے گا-

Advertisements
julia rana solicitors

ملا فضل اللہ کے اس عبرتناک انجام سے یہ حقیقت مزید واضح ہو گئی ہے کہ مفادات کے کھیل میں سب سے بڑا دوست صرف اور صرف اپنا مفاد ہی ہوتا ہے اور جو اس حقیقت کو نہ سمجھ سکے اسے ملا فضل اللہ جیسے انجام سے دوچار ہونا ہی پڑتا ہے اور یہی وہ خاص بات اور حرف راز ہے کہ جسے ملا فضل اللہ کے جانشین کو اچھی طرح سمجھ لینی ہوگی-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply