شیطان کا مرشد۔۔شاہد محمود

رمضان المبارک میں شیطان قید کر دئیے جاتے ہیں پھر بھی برائیاں و ظلم و ستم اور گھناؤنے بُرے اعمال اس مبارک مہینے میں بھی نظر آتے ہیں۔ ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ میری ناقص رائے میں یہ سب نفس کی کارستانی ہے۔ شیطان نے جب اللہ کریم کے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے حکم کی نافرمانی کی تو اس وقت اسے ورغلانے والا اس کا نفس ہی تھا جس کے بہکاوے میں آ کر شیطان نے اپنے آپ کو آدم سے برتر سمجھا اور اللہ کریم کی حکم عدولی کر کے راندہ درگاہ ہو گیا۔ یاد رکھیں کہ شیطان رمضان میں قید ہوتا ہے نفس نہیں۔ جس نفس نے شیطان (جو اس وقت فرشتوں کا سردار تھا) کو بہکا دیا، انسان کے لئے اس نفس کو آنچ پہ رکھنا اور اپنی ہستی کو معتبر رکھنا اصل کام ہے۔ نفس کی پیدا کردہ خواہشات ‘اولاد، مال و دولت و شہرت و طاقت و جاہ و جلال و نمود و نمائش کی چاہت و نفسانی خواہشات و شہوت کا زور آور دنیا کی حرص و ہوس، نفس کے ایسے منہ زور گھوڑے ہیں جن کو نکیل ڈال کر سدھایا نہ جائے تو یہ بالآخر اپنے سوار کو یی پٹخ کر خوار کرتے اور پھر اپنے سموں سے کچل کر ہلاک کر ڈالتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رمضان میں شیطان کو تو قید کر دیا جاتا ہے باقی روزے تو اس منہ زور نفس کی تربیت اور اسے سدھارنے کے لئے ایک تربیتی پروگرام بھی ہیں۔ ہمارے نفس کیلئے ہم اور ہماری خواہشات گھوڑا یعنی سواری ہوتے ہیں، کبھی ہماری دولت و طاقت کے حصول کی ہوس اسکا گھوڑا بنتی ہے تو کبھی شہرت و نمود و نمائش اور کبھی جوانی کی نفسانی خواہشات و شہوت تو کبھی طاقت و اختیار و اقتدار کے منہ زور گھوڑے پر بے لگام نفس سوار ہو کر سرکشی کرتا اور انسان کو بھی شیطان کی طرح راندہ درگاہ قرار دلوانے کے لئے رب کی نافرمانی میں سرپٹ دوڑتا ہے۔ ایسے میں سرکش نفس کے اس گھوڑے کو اللہ کے خوف اور تقویٰ کی نکیل ڈال کر ہی سدھایا جاتا ہے اور مستقل اس پر کام کیا جاتا ہے۔ سال بھر نماز، اور پھر سال کے ایک مہینے کے روزے نفس کی تربیت و سدھار کے لئے جامع پروگرام ہیں اور نفس کے سرکش گھوڑے کے لئے ایک مظبوط رکاوٹ و نکیل ہیں۔ نماز و روزہ انسان کو اپنے رب کے قریب کرتے اور انسان میں صبر، تقویٰ و عاجزی پیدا کرتے ہیں جو دولت، شہرت، طاقت، اقتدار و اختیار غرض ہر کیفیت میں ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ ہم انسان “عبد اللہ” یعنی اللہ کریم کے بندے اور نائب ہیں اور نفس کے سرکش گھوڑے کے سامنے خشیت ِ الٰہی، تقویٰ اور عاجزی کی ایسی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے کہ انسان، شیطان کی طرح راندہ درگاہ ہونے سے بچ جاتا ہے اور فلاح پا جاتا ہے۔ اسی لئے ہمیں نفس کے شر سے بچنے کے لئے دعا بھی تعلیم کی گئی ہے؛
اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو، فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ، وَأَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ
(سنن ابی داؤد حدیث 5090)
ترجمہ:
اے اللہ میں تیری ہی رحمت کی امید کرتا ہوں، مجھے لمحہ بھر کے لئے بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر، میری مکمل حالت درست فرما دے، تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں۔
(آمین ثم آمین یا رب العالمین)

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply