• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عزاداری امام حسینؑ ضرور منائیں مگر/ڈاکٹر ندیم عباس

عزاداری امام حسینؑ ضرور منائیں مگر/ڈاکٹر ندیم عباس

ماہ محرم خاندان پیغمبرﷺ کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے۔ اس میں خاتم الانبیاءﷺ کے خاندان کو سرزمین کربلا پر بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ خاندان پیغمبرﷺ کا ذکر ظالم سے نفرت اور مظلوم سے ہمدردی پیدا کرتا ہے۔ اسلام پر فداکارانہ جان قربان کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ذکر حسینؑ کی مختلف عناوین کے ساتھ مخالفت کی جائے گی، جیسے ہی کوئی خوبصورت عنوان لگا کر ذکر حسین ؑ کی مخالفت کرے، سمجھ جائیں ناصبیت کے دسترخوان کا پروردہ ہے، ایسے مفلس الفکر لوگ اس قابل ہی نہیں کہ ان کے ساتھ بحث کی جائے۔ کچھ لوگ جدیدیت کے نام پر ہر محرم میں نیا شوشہ چھوڑ کر ذکر امام حسین ؑ کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا جواب یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ذکر امام حسینؑ برپا کیا جائے۔

محرم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کسی بھی صورت میں فرقہ واریت میں نہیں الجھنا۔حسینؑ کا پیغام وحدت کا پیغام ہے، اتحاد کا پیغام ہے، انسانیت کا پیغام ہے۔ آپ زیادہ سے زیادہ ذکر حسینؑ کی محافل برپا کریں، زیادہ سے زیادہ ایسی محافل میں شرکت کریں، خوش قسمتی سے بچوں کو چھٹیاں چل رہی ہیں۔ صبح سے رات تک کا پروگرام سیٹ کریں۔ بچیوں کو خواتین کی مجالس میں ضرور شریک کرائیں۔ ضروری نہیں کوئی بڑی محفل منعقد کی جائے، افراد خانہ مل بیٹھیں اور ایک فرد ذکر حسینؑ کر دے۔ آج کل تو بہت سہولت ہے، موبائل پر مجلس لگا کر سن لیں۔ اپنی نئی نسل میں اسی طرح سے محبت حسینؑ کی شمع روشن کریں، جیسے ہمارے والدین نے ہمارے دلوں میں روشن کی ہے۔

ایک بات کا خاص طور پر خیال رکھیں، آج کل کچھ لوگ یہ سوچ کر امام بارگاہوں اور دیگر مقامات عزائے حسینؑ پر نہیں آتے کہ لائیو کسی بڑے عالم کو سن لیں گے۔ آپ بڑے عالم کو ضرور سنیں، مگر کم از کم اپنے پورے خاندان کے ساتھ دو مجالس میں ضرور شرکت کریں اور پانچ محرم کے بعد اس میں جلوس کو بھی شامل کر لیں۔ یاد رکھیں انسان کا قلبی تعلق اسی وقت زیادہ مضبوط ہوتا ہے، جب وہ عملی طور پر ذکر حسینؑ کی مجالس اور دیگر پروگراموں میں شریک ہوتا ہے۔ کچھ لوگ مجلس میں آجاتے ہیں، مگر جلوس میں شرکت کم کرتے ہیں۔ جلوس میں ضرور شرکت کریں اور یہ شرکت حاضری والی نہیں ہونی چاہیئے۔ بڑے شہروں میں دیکھا گیا ہے کہ اپنی گاڑی میں نیاز بھر کر لاتے ہیں، تقسیم کرتے ہیں اور علم و ذوالجناح کی زیارت کرکے چلے جاتے ہیں۔ نیاز تقسیم کرنا مستحسن عمل ہے اور زیارت بھی ٹھیک ہے، مگر آپ کی صحت جتنی اجازت دیتی ہے، اتنا جلوس عزا میں ضرور شریک ہوں۔

ایک چیز کی بہت کمی محسوس ہو رہی ہے کہ اب انگلش میں مجالس کا سلسلہ ضروری ہوگیا ہے۔ بڑے شہروں میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے، جنہیں انگلش میں زیادہ بہتر انداز میں اسلام سمجھایا جا سکتا ہے۔ چند سال پہلے جامعۃ الکوثر میں آغا قزوینی تشریف لائے تھے، کہا یہ جا رہا تھا کہ یہ انگلش میں مجالس پڑھتے ہیں، کون سنے گا؟ حیران کن طور پر ان کی مجالس میں بہت اچھی شرکت تھی اور سننے والوں کی اکثریت ٹین ایجرز کی تھی۔ اسلام آباد، لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں ایسے عشروں کا ہونا بہت ضروری ہوگیا ہے۔

اکثر دیکھا ہے کہ جھونپڑیوں میں رہنے والے مولائی ہوتے ہیں۔ یہ اپنی جھونپڑی پر بھی نشان حضرت علمدار وفاؑ لگا کر رکھتے ہیں۔ یہ پورے کے پورے خاندان سفر کرتے ہیں تو اکثر ان کا چھوٹا سا محلہ بن جاتا ہے۔ان کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ ویسے تو یہ لوگ اپنے سال کا سفر اس طرح سے طے کرتے ہیں کہ محرم کسی بڑے قصبے یا شہر میں ہو یا ایسے سادات کے ہاں ہو، جہاں محرم ہوتا ہے، مگر پھر بھی ان کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ملی تنظیموں اور بانیاں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اردگرد موجود ان لوگوں کو ذکر امام حسینؑ سے محروم نہ ہونے دیں۔

ہم اکثر اوقات جس چیز کو کم اہمیت سمجھتے ہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں دیتے، وہ انتظامیہ ہے۔ یہ دس دن انتظامیہ کے افسران اور اہلکاروں کے لیے بہت زیادہ مصروفیت کے ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شہر میں کسی سیاسی جماعت کا کوئی جلسہ ہو تو یہ لوگ کتنا پریشان ہو جاتے ہیں۔ امام حسینؑ کے لیے منعقد ہونے والے جلوسوں اور محافل کی تعداد تو ہر ضلع میں سینکڑوں ہوتی ہے۔ انتظامیہ کے ساتھ بھرپور روابط قائم کرکے ان کے ساتھ تعاون کریں۔ ان کے لیے مشکلات پیدا نہ کریں، جتنا ہوسکے ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ امور کو ان کے ساتھ پہلے سے طے کر لیں، انتظامیہ کے ساتھ معاندانہ رویہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کے لوگ شدید گرمی میں ڈیوٹی کر رہے ہوتے ہیں، ان کے لیے حسینیؑ سبیل کا انتظام رکھیں، اکثر پولیس والے پہلے آجاتے ہیں، ان کے لیے لنگر حسینی ؑ کا اہتمام کیا جائے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ ایام عزاء کے بعد علاقے کی انتظامیہ کا تعاون پر شکریہ ادا کیا جائے، ان اچھے روابط کا عزاداری کے فروغ میں اہم کردار ہوتا ہے۔

محرم کے دس دن امام بارگاہوں میں کئی کئی مجالس ہوتی ہیں، اس کے لیے لوگ آتے ہیں، ان کے آنے جانے اور پارکنگ سے اہل محلہ کو پریشانی ہوتی ہے۔ پہلے تو کوشش کریں کہ انہیں کسی طرح کا مسئلہ نہ ہو، پھر بھی جگہ کی کمی کی وجہ سے مسائل ہوسکتے ہیں۔ اس کے لیے اہل محلہ سے بات کرکے رکھیں اور ان کے اس تعاون پر ان کے شکر گزار رہیں۔ سپیکر کے استعمال کو بھی اس انداز میں کریں کہ ذکر امام حسین ؑ بھی ہو جائے اور امام بارگاہ کے پڑوسیوں کو مسائل بھی نہ ہوں۔اسلام آباد کی مسجد و امام بارگاہ الصادقؑ میں محرم، صفر اور ربیع الاول تک روزانہ مجالس ہوتی ہیں، انہوں نے علاقے کے لوگوں کے لیے ایک فری ڈسپنسری بنا دی ہے۔ اس کا بہت اچھا اثر پڑا ہے، اب یقیناً ایسا کرنا ہر جگہ ممکن نہیں ہے، وسائل کے اعتبار سے ان کی مناسب خدمت کی جا سکتی ہے، بے شک وہ ایک حسینیؑ لنگر کھلانے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔

ایک دور تھا کہ مجالس و محافل حسینیؑ میں بڑی تعداد میں غیر مسلم شریک ہوتے تھے، اسی طرح مسلمانوں کے تمام مسالک بھی صف عزاء پر بیٹھتے تھے۔ ہمیں امام بارگاہ اور مجلس کے ماحول کو ایسا کرنا ہے کہ دوبارہ غیر مسلم بھی اور تمام مسالک کے لوگ ذکر حسینؑ سننے کے لیے امام بارگاہوں کا رخ کریں۔ یاد رکھیں حریت، آزادی، قربان ہونے کا جذبہ، فداکاری، رشتوں کا تقدس اور عزم و حوصلہ عاشورا کی آٖفاقی اقدار ہیں، جتنا انہیں اجاگر کریں گے، اتنا لوگ ہمارے قریب آئیں گے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی ہمارے مقدسات کی توہین کرے اور ہم اس کے اجتماع میں شرکت کریں، اگرچہ اس کا عنوان کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محرم کی مجالس اور محافل کو کم رنگ نہ ہونے دیں، امام خمینی ؒ نے فرمایا تھا کہ محرم کو زندہ رکھو، ہمارے پاس جو کچھ ہے، وہ محرم کی برکت سے ہے۔ ایران کا اسلامی انقلاب عاشورا کا پرتو ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی ایران سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی فرماتے ہیں میں تمام لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو مراسم عزاداری کو بھرپور انداز میں منانے کی تاکید کرتا ہوں۔ حکومت و حاکمیت اور کلمہ اسلام کی سربلندی اور دنیا کے مظلوموں کے دلوں میں اسلام کی امید محرم سے پیدا ہوتی ہے۔ کچھ لوگ محرم کے رسم و رواج پر ضرورت سے زیادہ تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ ایک عالم سے سن رہا تھا کہ امام خمینی ؒ کو کہا گیا کہ جلوسوں اور باقی سلسلوں کو منظم کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا اسے عوام کے ہاتھوں میں ہی رہنے دیں اور تاکید کی کہ جس طرح انقلاب سے پہلے بھرپور انداز میں جلوس اور مجالس برپا ہوتی تھیں، اب ان کو اس سے بھی زیادہ بہتر انداز میں منعقد کرایا جائے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply