کچھ مرثیے کے باب میں/ناصر عباس نیّر

داستان گوئی اور مشاعرے ،’زبانی ثقافت ‘ کے اظہار و کارکردگی کے سب سے بڑے میدان تھے۔ مرثیے کی مجلس تیسرا بڑا میدان بنی۔داستان و مشاعرے کی محفلیں اور مرثیے کی مجالس میں کئی باتیں مشترک تھیں مگر ایک بات صرف مجلس ِ مرثیہ ہی سے مخصوص تھی۔

مثلاً یہ تینوں ،’زبانی ثقافت‘ کی تخلیقی روح کو اظہار کا موقع دیتی تھیں۔ ’زبانی ثقافت‘ایک مخصوص تصورِ دنیا کی حامل ہوتی ہے۔ اس تصورِ دنیا میں وقت دریا کی مانند نہیں ہوتا، جو مسلسل چلتا ہے اور ہر لمحہ نئے واقعات کو وجود میں لاتاہے۔ اس میں نئے پن کی صدمہ انگیز حیرت کم ہوتی ہے۔اس تصور ِ دنیا میں دنیا ، چند مخصوص کرداروں، مضامین ، علامتوں کے ذریعے اپنا اظہار کرتی ہے ،انھی کے ذریعے لوگوں کو باہم وابستہ رکھتی ہے اور انھی کو نئے نئے پیرایوں میں بیان کر تے ہوئے،لوگوں کی جمالیاتی تسکین کا سامان کرتی ہے۔

غزل ، مثنوی ، داستان ، مرثیےکے مضامین وکردار مخصوص تھے اور انھی کو نئے انداز میں پیش کیا جاتا تھا؛ نئے مضمون سے زیادہ ،نئے انداز کی جستجو ہوتی تھی۔ گویا ’زبانی ثقافت‘ کی تخلیقی تگ وتاز وہی ہوتی ہے ،جو عام سماجی دنیا کی ہوتی ہے۔ اس کے اجتماعی حافظے اور تخیل میں تصادم نہیں ہوتا۔

’تحریری ثقافت ‘ میں اس تصادم کے خاصے امکانات ہوتے ہیں؛اس کے مصنفین ،اپنے تخیل سے قارئین کے اجتماعی حافظے کو باقاعدہ صدمہ بھی پہنچا سکتے ہیں اور اسے اپنی تخلیقی عظمت کی بنیاد بھی سمجھ سکتے ہیں۔

’زبانی ثقافت‘ کی مندرجہ بالا باتیں ، داستانوں اور مشاعروں کی محفلوں اور مرثیوں کی مجالس میں مشترک تھیں۔ بڑا فرق یہ تھا کہ لکھنؤ کی داستانیں اور مشاعرے ،بشری مادی تخیل کے حامل تھے؛ ریختی ، اس تخیل کو کہاں کہاں پہنچا دیتی تھی، یہ جاننا ہو تو ریختی کے چند اشعار پڑھ لیجیے۔

مرثیہ ، مذہبی تخیل کا حامل بنا۔ مرثیے نے بشری ،مادی تخیل یعنی قصیدے، مثنوی ، غزل کی شاعری کو بے دخل نہیں کیا، اس کا تکملہ کیا ہے،یا اس کی کسی کمی کی تلافی کی ہے۔(یہی وجہ ہے کہ ان تینوں اصناف کے ناظرین عام پر یکساں ہوا کرتے تھے )۔ مرثیے نے،قصیدے سے اپنے ہیئتی اجزا اور مثنوی سے بیانیہ و ڈرامائی عناصر اخذ کیے ہیں۔ داستان ومشاعرہ اگر تفریحی وجمالیاتی مسرت بہم پہنچاتے تھے تو مرثیہ ، رلانے کی مدد سے ، اخلاقی و جمالیاتی تزکیے کا اہتمام کرتا تھا،تاہم خالص شاعرانہ پیرائے میں ۔لکھنؤمیں بڑی تقسیم انیس ودبیر کے چاہنےو الوں کی تھی اور یہ تقسیم شاعرانہ بنیاد پر تھی۔

بعض نقادوں کو اشتباہ ہوا کہ مرثیہ ، المیہ ڈرامے کے قریب ہے۔ المیہ ڈراما، کسی سورما کی بشری کمزوری (جسے ہمارشیا کہا گیاہے ) کی پیدا وار ہواکرتا تھا ۔ وہ جس المناک انجام سے دوچار ہوتا، وہ اس کے جرم یا گناہ کی سز ا نہیں ہوا کرتا تھا، بلکہ ایک معمولی سی خطا کے سبب، انتہائی المناک ،کڑے انجام کو پہنچتا تھا۔

ناظرین،ایسے کردار کو جب اپنی آنکھوں میں خود ہی خنجر بھونکتے دیکھتے تھے تو رحم وترس کے جذبات سے مغلوب ہوکر اشکبار ہوجاتے تھے،اوریوں ان کا تزکیہ ہواکرتا تھا۔ اگرچہ المیے اور مرثیے میں المناک انجام مشتر ک ہے اور رونا رلانا بھی،مگر ایک نہایت اہم فرق ہے۔

یونانی المیہ ،خاص طور پر یونانی اشرافیہ کرداروں کے لیے ،ہمدردی پیدا کیا کرتا تھا اور ان کے ساتھ جرم و گناہ کا تصور ہی وابستہ نہیں ہونے دیتا تھا،انھیں بس معمولی خطاؤں کا سزاوار سمجھتا تھا۔ اگر عوام کے دل میں کہیں، اس اشرافی جماعت کے لیے ، مزاحمت کے جذبات ہوا بھی کرتے تھے تو یہ ڈرامے ، ان کا قلع قمع کردیا کرتے تھے۔ یوں تزکیہ ایک سیاسی مقصد انجام دیا کرتا تھا۔ مرثیے میں اشرافی جماعت(جس کا نمائندہ یزید ہے) کے ظلم کے خلاف، مزاحمت کے جذبات کا پیدا ہونا لازم تھا۔ لہٰذا ، مرثیے کے تزکیے میں بھی ایک سیاسی مقصد تو ہے، مگر یونانی المیے کے بالکل الٹ۔

Advertisements
julia rana solicitors

(ڈاکٹر ہلال نقوی کے مرثیے’’ہاتھ ‘‘ کے نئے ایڈیشن کے پیش لفظ سے اقتباس)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply