انسان اور انسانیت دوست خالد سہیل/ناجیہ احمد                              

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہ اپنی طبیعت، عادات،اور شفقت کی وجہ سے دل پر گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں، اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان سے پہلی دفعہ ملنے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ صدیوں سے ان کو جانتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد  سہیل سے  پہلی ملاقات     2001  میں ہوئی تھی،اس وقت ان کے ساتھ فون پر رابطہ ہوا تھا اور دو نظمیں سننے کے بعد انھوں نے کہا کہ ان کا مسی ساگا آنے کا ارادہ ہے تو اگر میں ان ایڈریس بتا دوں تو وہ دو سے زیادہ نظمیں بھی سن لیں گے۔
اس ملاقات کے امکان نے مجھے اندر ہی اندر تھوڑا پریشان کر دیا۔یہ سنتے آۓ تھے کہ ماہر نفسیات سے بہت احتیاط کے ساتھ ملنا چاہیے کیونکہ  یہ آپ کے اندر تک اترنے کا ہنر جانتے ہیں۔عادت کی وجہ سے آپ کے بخیے بھی ادھیڑ سکتے ہیں۔دل میں خوف کے ساتھ جب ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی تو بجاۓ اس کے کہ میں ان سے گفتگو کرتی، ڈاکٹر صاحب نے میرا انٹرویو شروع کر دیا۔جب میں ان کی کچھ تفہیمات کو سمجھنے سے انکاری ہوئی توانھوں نے کہا کہ کاغذ چاہیے اور پھر کاغذوں پر لکھ کر اور لکیروں سے اپنا مفہوم سمجھایا۔وہ کاغذ ابھی بھی میرے پاس محفوظ ہے گو کہ میں یہ بھول چکی ہوں کہ سوال کیا تھا۔اس کے بعد جب بھی ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا امکان ہوتا میں کاغذ پہلے ہی تیار کر لیتی۔
ڈاکٹر خالد سہیل
“دریا کے اس پار” سے ڈاکٹر سہیل سے شناسائی حاصل ہوئی اور اب وہ سفر “خواب در خواب” تک آ پہنچا،اس طویل سفر میں خالد سہیل نے بہت ساری جہتیں طے کیں،اور بہت کچھ سیکھا۔اپنی طبیعت میں کچھ جمع کیا،کچھ تقسیم کیا، مگر ہم لکھنے والوں کی کبھی نفی نہیں  کی۔ا یک مسکراہٹ کے ساتھ یہی کہا گیا “آپ فیملی آف ہارٹ میں آیا کریں،آپ کو اچھا لگے گا۔ابھی حال ہی میں فیملی آف ہارٹ کے پروگرام میں شرکت کے بعد احساس ہوا کہ اس فیملی کا ہارٹ تو ڈاکٹر خالدسہیل خود ہیں۔
   حال ہی میں جب ملاقات ہوئی تو ڈاکٹر صاحب اپنے ساتھ اپنی سات کتابیں بھی لے آۓ۔میں یہ سا ت کتابیں اپنے سامنے رکھے سوچ رہی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کی ہمت کی داد دینی پڑے گی کہ کالم بھی لکھیں، فیملی   آف ہارٹ کے پروگرام  ، اپنے مریضوں کو  ٹائم دیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی ذہنی نشوونما کا کام بھی کریں۔اس ملاقات میں انھوں نے دوبارہ   “فیملی آف دی ہارٹ”  کےپروگرام کا ذکر کیا اور آنے کی دعوت دی۔اب چونکہ سب بہانے ختم ہو چکے تھے اس لیے میں نے حامی بھر لی اور پروگرام میں سموسے اور جلیبیوں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی شفقت کالطف بھی اٹھایا۔
     ڈاکٹر خالد سہیل کے بارے میں لکھنا ایسا ہی ہے جیسے دریا کو کوزے میں بند کرنا۔میراخود بھی ہیلتھ کیئر سے تعلق ہے،اس لیے اندازہ ہے کہ کوویڈ کے کے کیااثرات مر تب ہوۓ ہیں۔بعض اوقات ذہنی طور پر پریشان افراد کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی بغیر ان سے سوال کیے، پریشان کیے بغیر ان کی بات کو سمجھ لے،کتھارسس کر سکے، کیونکہ ہر انسان کو ہر بات بتانے کی عادت نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر کسی پر بھروسا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے یہ ڈاکٹر خالد سہیل نے ان لوگوں کو واپسی کی راہ دکھائی جو درحقیقت زندگی سے مایوس ہو چکے تھے۔
  ڈاکٹر خالد سہیل کی تصانیف “دریا کے اس پار” اور “خواب در خواب” پڑھیں ۔اس سے ان کے اسلوب، لفظوں  کا استعمال  اور موضوعات سے ہم آہنگی محسوس  ہوئی۔ ایک شاعر ہونے کے ناطے ہم دیکھتے ہیں کہ شعر کے قافیے مستحکم ہیں یا نہیں اور آیا ردیف کی پا بندی کا احترام کیا گیا ہے ، اور تجزیہ کرتے ہیں کہ ردیفوں کا تعلق ایک دوسرے سے کس طرح ہے۔اس کے ساتھیہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ شاعر نے ا زبان کو کس طرح استعمال کیا ہے۔
 شاعری کے موضوعات اور مفہوم کیا ہیں، آیا موضوعات کو تفصیلی طور پر استعمال کیا گیا ہے یا نہیں،اور  کیا  موضوع کا استعمال اصلی ہے یا صرف ظاہری ہے۔ڈاکٹر صاحب نے ہر موضوع پر لکھا، چاہے نظم کی صورت ہو یا غزل کی۔اس طرح لگتا ہے کہ جیسے موضوعات خالد سہیل کو ڈھونڈ رہے ہیں نہ کہ خالد سہیل موضوع کو۔آپ کا اسلوب بہت سادہ ہے۔آپ نے دوسرے شاعروں کی طرح نت ننئ جہتوں کو چھاننے سے گریزکیا۔یہ درست بات ہے کہ موضوع کا تعلق شاعر یا ادیب کی سماجی زندگی سے ہوتا ہے اور اس کی تصویر کشی کے لیے  غزل اور نظم کا سہارا لیا جاتا ہے ۔یہ انتخاب لکھنے والے کی اپنی شخصیت  سے ہوتا ہے۔ موضوع کے بیان کے لیے  مناسب الفاظ کا استعمال ایک شاعر کے لیے بہت ضروری ہے ۔
شاعری کا براہ راست  تعلق انسانی  جذبات  اور احساسات  سے ہے۔جن کا اظہارِ  شاعر کے لفظوں کے چناؤ پر ہوتا ہے۔جیسے “سمندر ا ور جزیرے” کی ا یک نظم “الفاظ اور ہم”میں خالد سہیل  نے شاید اس بات کی ضرورت  محسوس  کی کہ الفاظ کو نئے معنوں کی ضرورت ہے۔خالد سہیل جو بھی محسوس کرتے ہیں، جو تجزیہ کرتے ہیں اس کو فوراً  الفاظ کے سانچوں میں ڈھال لیتے ہیں۔اسی وجہ سے انھوں نے ایسے اور بھی موضوعات  پر لکھا جن پر لکھتے ہوئے  اور لوگوں کے قلم ہچکچاتے  ہیں۔
کینیڈا کے اردو کے منظر نامے میں خالد سہیل کی شخصیت بہت اہمیت کی حامل ہے۔ان کے مو ضوعات، سماجی اور ادبی مصروفیات،بطور مدیر ان کا کام اور پھر فیملی ءآف دی ہارٹ کے لیے انتھک محنت ہم سب کے لیے مشعل راہ  ہے۔خالد سہیل کی ادبی خدمات بہت زیادہ ہیں،چاہے ان کے کالم پڑھیں یا کتابیں، جو تحریر بھی پڑھیں،یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک سچے انسان کو پڑھا ہے جو واقعی  خون دل سے لکھتا ہے اور اس کو اس بات کی پروا بھی نہیں کہ اس کے پیغام کو سمجھا بھی گیا ہے یا نہیں۔اس کو اپنے اندر کے درد اور آواز کو اٹھانے سے غرض ہوتی ہے۔دریا کے اس پار سے لے کر اور خواب در خواب  تک خالد سہیل نے بہت سارے تجربات کیے،اوربہت سارے تجربات سے گزرے۔تبدیلیوں کو محسوس کیا اور تبدیلیاں  خود بھی کیں۔مگر اندر کی سچائی اوراظہار کو متاثر نہ ہونے دیا۔ان کی تحریروں میں شکست، یاس، تنہائی،اور بے بسی کا احساس نہیں ہے بلکہ اظہار کی قوت ہے،پہاڑ کو سر کرنے کی طاقت ہے۔ یہ سب تحریریں کسی ایک نظریے یا سوچ کی پابند نہیں بلکہ یہ تحریریں خالد سہیل کی پابند ہیں،اور ان کی سوچ کی عکاس ہیں۔ ان کا نظام وہ نظام ہے جو زماں و مکاں کے تابع نہیں بلکہ اس زمانے کی عکاسی کر رہا ہے جس میں خالد سہیل سانس لے رہے ہیں۔چنانچہ ان کی نظروں میں پڑھنے والے کو سب کچھ ملے گا،ماحول، رہن سہن، طرز معیشت، سماجی دشواریاں، مذہب، غیر مذہبیت، انسان دوستی، انصاف، یکسانیت اور مزاحمت۔ان کے نظریات سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سوچ یاتحریر کھوکھلی اور نظریے سے خالی ہے۔
اگر کوئی خالد سہیل کی شاعری کو اس لیے پڑھنا چاہتا ہے کہ اس کو عشقیہ شاعری کی تلاش ہے تو اس کو خالد سہیل کو بالکل  نہیں پڑھنا چاہیے۔ عشقیہ شاعری میں محض محبوب،اس کا سراپا، اور اس کے نخروں کا ذکر ہوتا ہے۔خالد سہیل کی شاعری اس دور کے فکری احساس کی ترجمان ہے ۔ان کی غزلوں اور نظموں کا سلسلہ ایک فکری اور حساسی نظام سے منسلک ہے۔مثال کے طور پر:
تالاب کے دل میں کوئی کنکر نہیں اترا
صدیوں سے یہاں کوئی پیمبر نہیں اترا
یا پھر:
ہم نے خود ہی دیوار اٹھائی ہر رشتے میں نفرت کی
اور پھر ہم نے خود ہی اس سے اپنا سر ٹکرایا ہے
ایک شاعر اپنے ماحول سے الگ ہو کر نہیں لکھ سکتا،چاہے اس کی پرواز کتنی ہی بلند ہو، اس کو رہنا اپنے ماحول اور معاشرے میں ہی ہے، اور وہ اپنے ماحول سے آنکھیں نہیں بند کر سکتا۔خالد سہیل کا مسکن بھی زمیں ہے لیکن  ان کی اڑان بادلوں سے بھی اوپر ہے، اور زمیں کی وسعتوں سے باہر نکلنے کی خواہش رکھتی ہے۔ خالد سہیل واہ واہ اور مکرر کی خواہش نہیں رکھتے بلکہ وہ اس آواز پر کان دھرتے ہیں جو تخلیق کار کے اندر سے نکلتی ہے۔انھوں نے اپنی تخلیقات کو مطلب اور سودوزیاں کے پیمانے سے نہیں پرکھااور نہ ابن الوقت قسم کے لوگوں کے چنگل میں پھنسے۔خالدسہیل انسانیت کو مقدم رکھتے ہیں اور اس لیے ایک درد مند انسان دوست کہلانے کے حق دار ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply