پانی کی کہانی

پانی بے رنگ بے بو اور بے ذائقہ سیال ہے۔ اس کے بہت فائدے ہیں۔ جس شے میں ڈالو اسی کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ دودھ میں ڈالو تو دودھ، دوا دارو میں ملاؤ تو بالترتیب دوا اور دارو، اور گوشت میں بھرو تو گوشت ۔ مختلف چیزیں بجھانے میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں ۔جیسے پیاس، آگ اور بلب وغیرہ۔ بلب کے متعلق اگر کسی کو شک ہو تو جلتے ہوئے بلب پر تھوڑا پانی ڈال کر دیکھ لے، ہلکی سی پٹخ کی آواز کے ساتھ انشاءاللہ ہمیشہ کے لئے بجھ جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ امیدوں اور کئے کرائے پر پھیرنے کے کام بھی آتا ہے ۔ گلاس میں کسی کو پانی پلانا ثواب کا کام ہے اور بوتل میں نفع کا ۔
پانی پہلے پہل صرف پیاس بجھانے اور نہانے دھونے کے کام آتا تھا ۔ مگر علم و آگہی کی ارتقا سے اس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ بھرا گلاس تو آج بھی پیاس بجھانے کے کام ہی آتا ہے ، آدھا بھرا مگر مثبت اور منفی سوچ کا تعین بھی کرتا ہے،یعنی قنوطیوں اور رجاعیت پسندوں کی تفریق بھی کرتا ہے۔ پانی کے بڑے مصنوعی ذخیرہ کو ڈیم کہتے ہیں ۔ ڈیم سے بجلی بنانے کا کام لیا جاتا ہے ۔لیکن کچھ ڈیم عوام کو “ڈیم فول” بنانے کے کے لئے ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ کالاباغ ڈیم ۔ عقلمند لوگ پانی کو پانے کے بعد اسے سوچ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں پر جاہلوں کو ہم نے پانی کو پانی کی طرح بہاتے دیکھا ہے ،ایسے لوگوں کا حقہ پانی بند ہونا چاہئے ۔
سائنسدانوں نے پانی کی دو قسمیں بتائی ہیں۔ میٹھا پانی اور کڑوا پانی۔ میٹھے کے ہم ٹھہرے بچپن سے شوقین، جب سنا کہ کوئی پانی میٹھا بھی ہوتا ہے، تو ہمارے منہ میں فوراً پانی بھر آیا۔ اور ہم نے اس کی تلاش شروع کردی ۔ سوچا کہ کتنے مزے ہونگے، صرف لیموں نچوڑو اور شکنجبین تیار۔ چائے، سویاں یا جلیبیاں گویا مٹھی میں۔ رس گلے تو ہر وقت پانی میں ڈوبے رہیں گے ۔ جب چاہو، جہاں چاہوگلاس بھرو اور ایک چٹکی سرخ رنگ ملاؤ اور روح افزا کے مزے اڑاؤ۔ بس اسی سپنے کو لے کر آدھی دنیا گھوم لی اور آدھا جیون تج دیا ،جب جاکہ عقدہ کھلا کہ سائنسدان نے میٹھے پانی والی جھک شاید کڑوے پانی کے زیرِ اثر ماری تھی۔ وہ دراصل نلکے کے سادے پانی کو میٹھا پانی کہہ رہا تھا۔ مجھے اس پر بہت غصہ ہے، کبھی ملے تو دیکھوں کتنے پانی میں ہے۔ لطف کی بات یہ ہے اس غلط فہمی کا شکار میں اکیلا نہیں ۔وہ شاعر بھی یقیناً میرے ساتھ ہی خوار ہورہا ہوگا جس نے یہ کہا تھا
میں رنگ شربتوں کا تو میٹھے گھاٹ کا پانی
مجھے خود میں گھول دے تو روح افزا بن جانی
لیکن بات خدا لگتی ہے کہ میٹھا یعنی سادہ پانی بہت کام کی چیز ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ” مفت ملنے والی سب سے قیمتی شے پانی ہے۔”اس کا استعمال بہت احتیاط سے کرنا چاہئے کیونکہ اس کے ذخائر ختم ہورہے ہیں۔صرف لاہور میں نصف صدی قبل ساٹھ فٹ سے پانی نکل آتا تھا اب دوسو ساٹھ فٹ سے نکلتا ہے ۔ کڑوے پانی کے بنیادی طور پر دو قدرتی ذرائع ہیں۔ سمندر اور آنکھیں ، اور آنکھیں اگر کسی پری وش کی ہوں تو میٹھا اور کڑوا ایک ساتھ ،کہ جھیلیں تو بہر حال میٹھے پانیوں کا ذخیرہ ہواکرتی ہیں۔
بچپن میں ہم سمجھتے تھے کہ پانی صرف اس لیے ہوتا ہے کہ ہمیں جگانے کے لئے چھینٹے مارے جاسکیں اور آلؤؤں اور گوشت میں لمبا شوربہ ممکن ہو ۔بڑے ہوئے ہیں تو اندازہ ہوا ہے کہ لمبے شوربے کی وجہ چوڑا کنبہ تھا نہ کہ صرف پانی ۔ کائنات میں ساری حیات اس کے دم سے ہے اور تھوڑی سی موت بھی۔ موت والی بات کو کما حقہ سمجھنے کیلئے کسی ڈھیٹ یا کاہل شخص سے ایک گلاس پانی مانگ کے دیکھ لیں۔ اگر پہلے گلاس پر نہ پڑی تو دوسرے پر تو ضرور پڑ جائیگی ۔انشاءاللہ ۔
برصغیر اور مشرقِ وسطیٰ میں پانی ٹھنڈا پیا جاتا ہے اور مشرقی ایشیاء اور چین میں گرم۔ اب یہ پتہ نہیں محض اتفاق ہے کہ ٹھنڈا پانی پینے والے ہر وقت گرم رہتے ہیں اور گرم پینے والے ہروقت ٹھنڈے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی پر ہوگی ۔اب یہ انہوں نے نہیں بتایا کہ وہ ٹھنڈے پانی پر ہوگی یا گرم پانی پر۔ ویسے پانی کو محض ذرا زیادہ ٹھنڈا کریں تویہ جم جاتا ہے ۔ جمے ہوئے پانی کو برف کہتے ہیں۔ برف چیزوں کو ٹھنڈا کرنے کے علاوہ کثیرالعیال ہمسایوں اور کام والی ماسیوں کو راضی رکھنے کے کام آتی ہے۔ پانی دنیا کی واحد شے ہے جو جمنے پر پھیلتی ہے ،اور اس واحد خوبی کی بنا پر سرد علاقوں کی ساری آبی حیات کی بقا کا انحصار ہے۔ پانی کے اس پھیلاؤ میں قدرت نے اتنی حکمت رکھی ہے کہ اگر ٹماٹروں، بینگنوں اور بادلوں میں اللہ تلاش کرنے والے معصوم لوگوں کو بتایا جائے تو کوئی دیر سجدوں میں پڑے رہیں۔
لیکن نہیں ابھی انہیں پہلی صدی ہجری کے اسلام کے پھیلاؤ پر خوش ہونے دیتے ہیں۔ یا فرقہ واریت اور فحاشی کے پھیلاؤ پر پشیمان ۔ پانی اپنے مزاج میں آوارگی لیے ہوئے ہے۔ کبھی یہ سمندروں میں “موجیں” مارتا ہے۔ کبھی بخارات بن کر ہوائی سفر پہ نکل جاتا ہے ۔ کبھی بادلوں کی شکل میں ورلڈ ٹور کے مزے اڑاتا ہے ۔اور کبھی سرما بھر پہاڑوں پر برف بن کر سکون کرتا ہے ۔ پھر بہاروں کی روپیلی دھوپ کے ساتھ جھرنوں اور آبشاروں کی صورت اچھلتا کودتا، گنگناتا ہے، کبھی پہاڑی نالوں کی صورت دھرتی ماں کے سینے پر اٹھکیلیاں کرتا ہے۔ تو کبھی میدانوں میں دریا بن کر “موج مستی “کرتے ہوئے قلب و نظر کو “سیراب”کرتا ہے۔
پانی قدرتی ذرائع کے علاوہ بھی کئی طریقوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔اور یہ جاننا آپ سب کے لئے ضروری ہے ، کہ کہیں خدانخواستہ دور افتادہ صحرا میں پھنس جائیں تو مسئلہ نہ ہو۔
1: سب سے پہلا اور قابل اعتماد ذریعہ ہے نیسٹلے ۔ فوراً صحرا میں ارد گرد کوئی نیسٹلے کا سٹال یا ڈسٹریبیوٹر تلاش کریں اور اس سے ٹھنڈے پانی کی وافر مقدار میں بوتلیں خرید لیں۔
2:بصورتِ دیگر صحرا میں پہلی فرصت میں کسی بدو کا خیمہ تلاش کریں ۔آجکل ایسے سارے خیمے ائیر کنڈیشنڈ ہوتے ہیں ۔ بھاگم بھاگ ائیر کنڈیشنر کی طرف جائیں۔ اور اس کے ڈرین پائپ کے نیچے پانی کی بوتل رکھ دیں ۔ انشاءاللہ کچھ دیر میں بھر جائیگی ۔
3: اگر دونوں میں سے کسی کام میں بھی کامیابی نہیں ہوئی تو گبھرانے کی ضرورت نہیں ۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن کو ملا کر باآسانی پانی بنایا جا سکتا ہے ۔ اب اگر آپ اتنے ہی نالائق ہیں کہ آپکو لق ودق صحرا میں ہائیڈروجن اور آکسیجن بھی نہیں مل رہیں تو پھر بھلا میں کیا کرسکتا ہوں ۔
4: یہ تو سب سے آسان اور تیر بہدف نسخہ ہے ۔ اس کیلیے بس آپکو ایک شریف آدمی چاہیے ۔ آہستگی سے اس کے کان میں قلندر کی “وہ” والی بات کہیں ۔وہ پانی پانی ہو جائے گا ۔ جی بھر کے پئیں اوروں کو بھی پلائیں ۔ دیکھیں اگر اب آپکے پاس کوئی شریف آدمی بھی نہیں ہے تو پھر آپ کا کچھ نہیں ہو سکتا ۔ بہتر ہے کہ صحرا سے فوراً واپس گھر آجائیں ۔

Facebook Comments

ابن فاضل
معاشرتی رویوں میں جاری انحطاط پر بند باندھنے کا خواہش مندایک انجینئر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply