• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیلاب اور اندھوں کے ہاتھوں میں ریوڑیاں۔۔نذر حافی

سیلاب اور اندھوں کے ہاتھوں میں ریوڑیاں۔۔نذر حافی

مجھے چند ایک ای میل موصول ہوئیں، دو تین مرتبہ کالز بھی آئیں، بات ایک ہی تھی لیکن افراد مختلف تھے، وہ سیلاب کی بات کر رہے تھے۔ ہمارے ہاں آج کل سیلاب کے ویسے بھی بہت چرچے ہیں۔ زلزلے یا سیلاب سے تو ہماراچھٹکارا ممکن ہی نہیں، اس لئے ہم مس منیجمنٹ کے بجائے ہمیشہ طوفانوں کے ساتھ لڑتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک ای میل مجھے آسمانی حوادث کے حوالے سے ملی۔ ای میل میں لکھا تھا کہ اِن آفات اور مشکلات کی صرف ایک ہی تصویر نہ دیکھیئے، ان آفات سے جہاں بہت ساروں کا نقصان ہوتا ہے وہیں کئی لوگوں کی تجوریاں بھی اسی دوران بھرتی ہیں۔ خیر ہم ایسی ای میلز کو زیادہ دل پر نہیں لیا کرتے۔ البتہ ایک اور ای میل بھیجنے والے صاحب نے تو ہمارے رونگٹے ہی کھڑے کردیئے۔ انہوں نے یہ بھی لکھ دیا کہ ہر دفعہ جب کوئی دھماکہ ہوجائے، زلزلہ آئے، سیلاب کا ریلا گزرے تو کچھ سمجھدار لوگ آپ کو اُس کے بعد جگہ جگہ امداد سمیٹتے نظر آئیں گے۔ اُن کے بقول اس وقت بھی پندرہ پندرہ، بیس بیس افراد کی ان گنت ٹولیاں ہر جگہ اندرونِ مُلک سے یا بیرونی ممالک سے امداد جمع کرنے میں مصروف ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ سیلاب سے بڑھ کر اہم مسئلہ یہ ہے کہ جیسے امداد کو جمع کرنے کیلئے خاص فنون، مہارت، ٹیکنیکس اور ہاتھ پاؤں مارنے کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی امداد کو حق دار تک پہنچانے اور کرپشن سے محفوظ رکھنے کیلئے بھی ایک خاص مدیریت اور صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ ہمارا مخیّر اللہ کے نام پر اور انسانی ہمدردی کے ارادے سے عطیات دے تو دیتا ہے لیکن اُسے یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ اُس کے کتنے فی صد عطیات مستحقین تک پہنچے ہیں۔ اُنہوں نے ایک بڑی دلچسب بات تو یہ لکھی ہے کہ امداد، عطیات، صدقات، خمس اور زکوٰۃ جمع کرنے میں تو سب سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں لیکن مستحق کون ہے؟ اس حوالے سے سب نے مستحقین کی تعریف انسانیت کے بجائے اپنے اپنے اقرباء کو دیکھ کر کی ہوئی ہے۔ پھر جو بھی بانٹا جاتا ہے وہ اپنے اپنے اقرباء میں ہی بانٹا جاتا ہے۔ ساتھ ان کا یہ شکوہ بھی قابلِ تامل ہے کہ اپنوں میں ریوڑیاں بانٹنے اور اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے عام لوگوں کیلئے شرائط اتنی سخت رکھی جاتی ہیں کہ سوائے منظورِ نظر افراد کے کوئی میرٹ پر آتا ہی نہیں۔

اس کی ایک چھوٹی سی مثال انہوں نے یہ بیان کی کہ امداد کیلئے درخواست لکھ کر لائیں، شناختی کارڈ ہمراہ لائیں وغیرہ وغیرہ۔ اب پسماندگی اور حالات کے مارے ہوئے یہ لوگ درخواست لکھوانے کس کے پاس جائیں اور اس طوفان میں شناختی کارڈ کہاں سے لائیں، تاہم جسے نوازنا مقصود ہوتا ہے اُس کیلئے یہ اعلان کر دیا جاتا ہے کہ اسے درخواست یا شناختی کارڈ کی کیا ضرورت ہے اِسے تو ہم جانتے ہیں۔ جاننے والوں کی بھی انواع و اقسام ہوتی ہیں، کچھ ایسے بھی بھولے بھالے ہوتے ہیں کہ اُن کی بستی میں پانی کا ایک ہینڈ پمپ لگا کر دنیا بھر سے فنڈ اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے اِس طرف بھی توجہ دلائی کہ تعلیمی وظائف یا اسکالر شپ کیلئے بھی بڑی بڑی سفارشیں ڈھونڈنی پڑتی ہیں۔ اب رفاہی و فلاحی اداروں کے اسکالر شپ فارم ہی اتنے پیچیدہ اور شرائط اتنی سخت ہوتی ہیں کہ صرف ایک خاص طبقہ ہی اس سہولت سے مستفید ہوپاتا ہے، عام گھرانوں کے سادہ لوگ اپنے بچوں کے وہ فارم ہی پُر نہیں کر پاتے۔

اُنہوں نے فلاحی اداروں کی روزگار اسکیموں کے بارے میں بھی سوال اٹھایا۔ اُن کا کہنا ہے کہ اب اکثر فلاحی اداروں کے صرف بروشر ہی عوام کیلئے دلکش رہ گئے ہیں ورنہ ان سے مدد حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ مخیّر حضرات بے روزگار لوگوں کی مدد کیلئے جو عطیات دیتے ہیں، یہ ادارے اُنہی عطیات کو اپنی تصاویر اور رپورٹس میں دکھانے کیلئے کچھ افراد کو بطورِ قرض تھوڑی بہت رقم دیتے ہیں تاہم یہ بھی بڑی مشکلات کے بعد۔ اب ظاہر ہے جو ادارے شفاف طریقے سے اپنی خدمت انجام دے رہے ہیں وہ تو مذکورہ مسائل کی زد میں نہیں آتے، تاہم سارے مخیّرین اور عطیات دینے والے اس ای میل کی زد میں آتے ہیں۔ ہر مخیّر کو آنکھیں بند کرکے پیسے پھینکنے کے بجائے مستحقین تک اپنی رقم پہنچنے کا یقین حاصل کرنا چاہیئے۔ یہ یقین بھی بڑی نعمت ہے۔ ساری عبادات کی قبولیت کا تعلق یقین اور ایمان سے ہے۔ چند دن پہلے کسی صاحب نے بڑے یقین سے مجھے کال کی۔ کہنے لگے میں صاحبِ فن ہوں، ہنر مند ہوں، اپنا رِزق خود کما سکتا ہوں، اور سیّد بھی ہوں، صرف خُمس میں سے کوئی مجھے اتنے پیسے دیدے کہ میں اپنے اوزار خرید لوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے عرض کیا کہ ہمارے ہاں تو خمس جمع کرنے والے ہر گلی کوچے میں موجود ہیں، آپ کسی سے رابطہ کیجئے۔ وہ بولے میں نے خُمس جمع کرنے والی چند نیک اور مقدّس ہستیوں سے رابطہ کیا تھا، پھر اُس رابطے کے بعد کچھ نے تو مجھے بلاک کردیا اور کچھ نے میری کال ہی نہیں اٹھائی۔ یہ ایک ای میل اور ایک فون کال کی بات نہیں بلکہ نیک دل مخیّرین سے بھرے ہوئے سماج کی اندرونی حالت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں مالدار اور مخیّر حضرات دل کھول کر این جی اوز نیز دینی و رفاہی و فلاحی اداروں کو عطیات، صدقات، خمس اور زکوٰۃ دیتے ہیں، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں عام عوام کی زندگیوں پر ان صدقات، عطیات، خمس اور زکوٰۃ کا کوئی خاطر خواہ اثر دکھائی نہیں دیتا۔ میرا کام تو آپ تک بات پہنچانا، آپ کو ہلانا اور جگانا تھا، باقی آپ جب کہیں زکوٰۃ و خُمس یا عطیات و ڈونیشن جمع کرانے لگیں تو یہ جانچ لیا کریں کہ کہیں اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں میں والی بات تو نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply