حقیقت ِ اشیاء۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کل سہ پہر ملک شفقت محمود اعوان کے ہاں عصرانے پر مدعو تھے، عصرانہ کیا تھا‘ قریب قریب عشائیہ ہی تھا، گرم گرم سوپ، بون لیس فش، اور پھر ہوم میڈ پیزا کے ساتھ گلاب جامن اور چائےـــــ آپ خود خوش سوچیں ٗاِسے عصرانہ کہنا کہاں تک جائز ہے، فتویٰ لے لیں‘ میرا دعویٰ ہے ٗکوئی خوش خوراک مفتی اِسے عصرانے کا نام نہیں دے گا۔ دعوت کے باب میں جہاں آدابِ میزبانی معین ہیں‘ وہاں آدابِ مہمانان بھی متعین ہیں۔ مہمانوں پر جن آداب کا احترام لازم ہے‘ ان میں کھانے کی تعریف سے لے کر کھانا پکانے والوں کی تعریف بھی شامل ہے، اور ہاں‘ یہ بھی آداب کا حصہ ہے کہ میزبان دسترخوان سے کوئی خوان آپ کی طرف بڑھائے تو اسے انکار نہ کریں۔ خدا گواہ ہے! ہم نے اِن آداب کا بھرپور اظہار کیا۔ یہ دعوتِ خور ونوش کیا تھی‘ دعوتِ خیال ہی تھی کہ اہلِ خیال جمع تھے۔ وہاں مدعو ایک مہمان کہ جن کے ساتھ تعلق واصفی فکر کے حوالے سے ہے، یعنی تعلق کا سبب یہ کہ ــــ دوستوں کے درمیاں وجہ دوستی ہے تُوــــ انہوں نے ایک دیرینہ وعدہ یاد دلایا۔ ہوا یوں کہ انہوں نے چند ہفتے قبل ایک حدیث ِ پاک کی تشریح پوچھی تھی، اور میں نے جواب میں لکھا تھا کہ تفصیل سے بتائیں گے۔ اچھا شاگرد وہی ہوتا ہے ٗجسے اپنا سوال نہ بھولے۔ تفصیل سے بتانے کا مطلب یہ تھا کہ اس پر لکھ کر بتانے کی کوشش کریں گے، ان شااللہ! چنانچہ حسب ِ وعدہ اس حدیث ِ پاک کی تشریح حسب ِ ظرف بتانے کا وقت آن پہنچا، ایک وعدہ بچانے کے لیے ایک اور وعدہ کرنا پڑا کہ کل ہی اِس پرلکھیں گےــــ یعنی جس طرح یہ بات خود سمجھ میں آئی‘ اسی طرح سمجھانے کی کوشش کریں گے۔ سورج تو سورج ہے ــــ اصل سورج ‘دیکھنے والے کے سورج سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ با ایں ہمہ ‘ سورج کی چاروں اور پھیلی ہوئی کرنوں سے لطف اندوز ضرور ہونا چاہیے۔ حدیث ِپاک میں ایک معروف دعا ہے ٗجو اُمت کو تعلیم دی گئی ہے، اِس دعا کے الفاظ ہیں: اللھم ارنا الاشیاء کما ھیی ــــ “اے اللہ !ہمیں اشیا ءکو دکھا جیسی کہ وہ حقیقت میں ہیں”۔

شہرِعلمؐ میں ہر تفصیل کا اجمال موجود ہے۔ صرف تسلیم کی راہ سے داخل ہونا شرط ہے اور مقررشدہ دروازے سے!! اشیاء درحقیقت یشاء سے ہیں۔ ہر شئے موجود اپنے خالق کی یشاء کا اظہار ہے۔ مخلوق اپنے خالق کی مشیت کا ظہور ہے… یعنی اشیا ءکی اصل حقیقت ‘یشاء ہے۔ یشاء کا تعلق ذات سے ہے۔ تخلیق اور تقدیر ــــ سراسر خالق کی ذاتی منشا ہے۔ یہ ذات کی ذاتی منشا ہے ــــ کس کو، کیا بنانا ہے، کب ، کہاں اور پھرکتنی دیر کے لیےٗ عالم ِ شہود میں مشہود کرنا ہےــــ یہ وقت اور وجود بنانے والے کی ازلی حکمت ہے ــــ اُس نے جس کو جہاں رکھا ‘ خوب رکھا، اور جب تک رکھا ‘ وقت ختم ہونے پر معلوم ہوا کہ اُس وقت تک ہی رکھنا خوب تھا۔ اُس کی بنائی ہوئی کائنات میں کوئی چیز عبث ہے ‘نہ بے ربط اور بے ترتیب! بنانے والے کا دعویٰ ہے‘ تم ذرا افلاک کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھو ، تمہیں کسی چیز میں تفاوت نظر نہیں آئے گا، تمہاری نظر تھک کر واپس لوٹ آئے گی۔ اُس نے اِس کائنات میں سوائے حسن کے کوئی اور چیز پیدا ہی نہیں کی۔ یہ قصور سراسر ہماری نظر کا ہے کہ ہمیں کہیں کہیں اگر اِس کائناتی تصویرِحسن میں کمی یا کجی نظر آتی ہے۔ یہ قصور سرسری دیکھنے کا ہےٗ وگرنہ ہر جا اِک جہانِ دگر ہے۔ ہماری کج فہمی ہمیں تحقیق کے نام پر تنقید اور پھر تنقیص پر مجبور کرتی ہے۔ ہماری کم نظری یہاں جو کجی دیکھتی ہے‘ وہ کسی اور جہان کی خوبی ہوسکتی ہے۔ ہماری نظر میں کھٹکنے والا کانٹا کسی اور نظر میں گلاب ہو سکتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا شعر ہے:
وہ بھی ہو گا کسی کا نورِ نظر
جو کھٹکتا ہے خار آنکھوں میں

ذات کی یشاء کی خبر مخلوق تک بذریہ رسالتؐ پہنچتی ہے، رسالت کا سلسلہ ختم ہو چکا، خاتم النبیبن رسول آخریںﷺ تک رسالت کا عظیم الشان دَور اور دائرہ مکمل ہو گیا۔ ولایت نیابت ہے۔ ولایت کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ درِ علم ؑ پر دستک دینے والے ولی آج بھی علیؑ کی وساطت سے شہرِ علمؐ میں آسودہ حال و خیال خراماں خراماں پھرتے ہیں اور علم و حکمت کے گلزاروں سے خوشہ چینی کرتے ہیں۔ علم و حکمت ٗ کتاب میں منجمد ہو کر نہیں رہ گیا بلکہ اِن کی وساطت سے رواں پانیوں کے طرح جاری و ساری ہے۔ وحی کا باب بند ہو گیا ــــ رویائے صادقہ، کشف ، القا والہام کی خیرات درِ اقدسؐ سے جاری ہے۔ قلندر لاہوری اقبالؒ صاحب ِ حال اپنے خطبات میں مذہب کو تجربہ بنانے کی بات کرتا ہے۔ فی الواقع ایمان ایک ذائقہ ہے ‘جو چکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
ع کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد

آمدم برسر مطلب ‘ اشیاء کی حقیقت واضح نہ ہو تو عین ممکن ہے‘ انسان اپنے لیے وہ چیز پسند کرلے جو اُس کے لیے شر ہو، اور اُس چیز سے اعراض کرے‘ جس کا وجود اُس کے لیے خیر ہو۔ خیر اور شر کی حقیقت صرف نفع و نقصان نہیں بلکہ اُس سے کہیں بلند تر ہے۔ انسان صرف جسم نہیں کہ اِس کا خیر اور شر صرف فائدے اور نقصان تک محدود کر دیا جائے۔ اِنسان نے جسم کے بعد بھی عین عقل و شعور کی حالت میں کئی زمانے بسر کرنے ہیںـــــیہاں کی خوشیوں کا اثاثہ کہیں دکھ کی صورت میں ہمیشہ کے لیے اس کے گلے کا طوق نہ بن جائے ، یہاں کا فرض کسی واجب الادا قرض کی طرح اس کے سر نہ چڑھ جائے، یعنی آج کا حاصل کل کی محرومی میں نہ بدل جائے ــــ اِس کے لیے اُسے ایسے شعور کی راہنمائی درکار ہے‘ جو غیب میں غوطہ زن ہو سکے۔

شئے کی حقیقت سمجھنے کیلئے ہمیں اُس شئے کو خلق کرنے والی ذات سے رابطہ درکار ہے۔ جس طرح بچے کا حُسن اُس کی ماں کی آنکھ سے ہی دیکھا جا سکتا ہے ‘ اِس طرح مخلوق کا حُسن دیکھنے کے لیے قربِ الہٰی کا وہ درجہ درکار ہے‘ جس کا اعلان خود خالق کرتا ہے ــــ ایک معروفِ حدیثِ قدسی کے الفاظ میں ــــ میرا بندہ فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل ادا کرتا ہوا ( یعنی وہ کام بھی کرتا ہے ٗجو اُس کے فرائض میں شامل نہیں ) قرب کے اُس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ میں اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں‘ جس سے وہ دیکھتا ہے‘ اورمیں اُس کا کان بن جاتا ہوں ‘جس سے وہ سنتا ہے…

Advertisements
julia rana solicitors

کسی شئے کی اصل حقیقت کو سمجھے بغیر ہم اپنی زندگی سے انصاف نہیں کر سکتے ــــ ہم اَشیاء کے متعلق رویوں سے انصاف کرسکتے ‘ نہ اشیاء کی نسبت انسانوں کے ساتھ انصاف کرسکتے ہیں۔ انصاف نہ کرنے والا ظلم کا مرتکب ہوتا ہے۔ اشیاء کی حقیقت جان لینے کے بعد ہی ہم اُن میں پنہاں حسن کے شاہد ہوتے ہیں، اِس کے بعد ہی اُن میں پوشیدہ خیرو شر سے آگاہ ہوتے ــــ اور اِس کے بعد ہی اِس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں کہ انسان محض شئے نہیں۔ انسان کا ظاہر گرچہ شئے ہے لیکن اِس کا باطن لاشئے ہے ــــ یہ اِسی باطن کی معرفت لاشئے کی معرفت کا طالب ہوتا ہے۔ باب العلم حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کے ایک معروف قول کا مفہوم یوں ہے کہ اَشیاء انسانوں کے لیے ہوتی ہے‘ اِنسان اشیاء کے لیے نہیں ، اشیا ءکو خرچ کیا جاتا ہے اور انسانوں کو بچایا جاتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اشیا ءکو بچانے میں مصروف ہو جائیں اور انسان ضائع کر بیٹھیں! درحقیقت اشیاء کی حقیقت جاننے والا ہی خلیفۃ اللہ کے منصب کا اہل ہوتا ہے!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply