اٹلی ہے دیکھنے کی چیز(قسط1)۔۔سلمیٰ اعوان

اجنبی ملکوں میں کسی کی راہنمائی، کسی کا حُسن، کسی کے میٹھے بول اور محبت آپ کے لئے بیش قیمت اثاثے کی مانند ہوتی ہے۔ انہی جذبات واحساسات کو لفظوں کا پیرہن پہنایا ہے۔

صد آفرین اُن پر ہے

اجنبیت کے ریلے میں بھیڑ کے جھمیلے میں
بیگانگی کے میلے میں اُداسیوں کے بیلے میں
وہ پیار ے پیارے لوگ جو پردیسیوں، سیاحوں کو
محبتوں کی بارش میں پور پور بھگوتے ہیں
پیاری میٹھی دھوپ میں دیر تک بٹھاتے ہیں
شیریں شیریں لفظوں کے گلاب سے کھِلاتے ہیں
دھرتی کے حُسن کا یہی روشن چہرہ ہیں
شرفِ آدمیت کا یہی عَلم اٹھاتے ہیں
صد آفرین اُن پر ہے
صد آفرین اُن پر ہے

کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں

کچھ سفر شوق کے تھے۔ دعاؤں کے عوض ملے تھے۔ سالوں اُن کے عشق میں ڈوبی رہی۔ انہیں دیکھا بھی محبتوں سے اور اُن پر لکھا بھی چاہتوں سے۔ اُن کا خمار ایسا تھا کہ ”میں نے دنیا بھلا دی تھی تیری چاہت میں“ جیسی صورت کے حقیقی ترجمان تھے۔ کچھ دانا پانی کا طفیل تھے۔ کچھ کے معاملے میں نیت بڑی کھوٹی تھی۔ یہ کچھ ایسا ہی تھا کہ ”ما ن نہ مان میں تیرا مہمان“ کی طرح ساتھ لپٹ گئے تھے۔
اٹلی کا سفر کہہ لیجیئے سوغات تھی،عنایت تھی۔ یہ بھی کہہ سکتی ہوں کہ دانا پانی نصیب کیا گیا تھا۔ قدموں نے اُس دھرتی پرپاؤں دھرنے تھے۔گو روم اور وینس اوائل عمری کے عشق تھے۔ وہاں جانے کے لئے شوق کی بھی بے حد فراوانی تھی۔ میلان، وینس، روم، پیسا، لوکا، جھیل کومو اور پومپیئی کو کس محبت سے دیکھا بتا ہی نہیں سکتی۔یوں جگہیں تو چھوٹی موٹی اور بھی دیکھیں اور اطمینان وسکون سے دیکھیں۔
ہاں مگر جب لکھنے کے لئے بیٹھی۔ ڈائری کھولی۔ اپنے جذبات واحساسات کا تجزیہ کیا تو محسوس ہوا کہ میرے رنڈی رونے اٹلی کی ہر جگہ جاتے ہوئے ایک سے تھے۔ سب سے بڑا میرا مسئلہ اکیلے ہونے کا تھا۔پھر عمر بھی بڑھاپے میں داخل شدہ جہاں دل کی ذرا سی بات پر ہنگامہ کھڑا ہونے کا اندیشہ سر پر لٹکی تلوار کی طرح دِکھنے لگتا تھا۔
لکھتے ہوئے اُن کا بار بار سیاپا کرنا مجھے اچھا نہیں لگا کہ میں اپنے قاری کو بورکروں۔ اُس خوف کو دہراؤں۔ پس چندشہروں تک ہی میں نے اپنے قلبی احساسات اور اپنے مشاہدات کو تفصیلاً لکھا۔ میرا ٹرینوں میں دھکے کھانا اور ہر روز نئی جگہ جانے کے تجربات کے ساتھ جو لازمے تھے وہ تھے تو اگرچہ مختلف مگر میرے احساسات ایک جیسے ہی تھے۔ اب قاری کو کسی امتحان میں ڈالنا مقصود نہ تھا۔ ہاں اگر کسی مقام پر اِن جذبات کا اعادہ محسوس ہو تومعافی کی خواستگار رہوں گی۔
دعاؤں کے ساتھ
سلمیٰ اعوان

 

لاہور سے میلان کے لیے(باب 1)

o جانا تو پی آئی اے سے ہی تھا کہ عشق و عاشقی والا معاملہ ہے۔گو باکمال لوگ لاجواب پرواز جیسے سلوگن کی مٹی پلید ہوگئی ہے۔
o پاکستانیوں کی ایک اکثریت نے خود کو یورو کمانے پر ضرور فوکس کیا مگر تعلیمی اور فنّی علوم سے مستفیذ ہونے کو ترجیح نہیں دی۔
o مسز ریٹا سمتھ سے ملنا گویا ملاقاتِ مسیحا و خضر سے کہیں بڑھ کر تھا۔

اب اگر اوپر والے نے یورپی تہذیب کے گہوارے، رومن بادشاہوں کی عظمت وشان کے مظہر اور رومن کیتھولک چرچ کی قدیم تاریخ اوفر اُس کے شاندار مذہبی ورثے کے حامل ملک اٹلی کا پانی اور اُس کے کھیتوں کھلیانوں میں اُگے دانہ دُنکا چگنے کے لئے میرا وہاں جانا لازمی ٹھہر ا دیا ہے تو بھلا اکیلے جانے اور دنیا بھر کے سیاحوں کے بھرئیے میلے میں بونگوں کی طرح پھر نے میں میرے ڈر اور خوف کے جذبات کی اوقات ہی کیا تھی؟
فرح میری بیٹی کی دوست کے شوہر یاسر کے سامنے جب اِن جذبات کا اظہار ہوا تو اُس نے ہنستے ہوئے کہا۔
”آنٹی جانا تو آپ کو ہے۔ میں نے بینک گارنٹی دی ہے آپ کی۔ اور گھبرانے وبھرانے کی ضرورت نہیں۔ آپ ابھی اتنی بوڑھی بھی نہیں۔ اِ س عمر میں تو اکثر عورتیں وہاں تیسری چوتھی شادی کرتی ہیں۔“
میری تو پوری بتیسی نکل کر باہرآگئی تھی۔
”لو میاں بولو اب بیچ اس مسئلے کے۔ یہاں تو ایک بیاہ کو ٹھکانے لگاتے لگاتے ادھ موئے ہو گئے ہیں۔ یہ تین چار کے جھولے پر چڑھنا اور جوٹھے لینا تو بھئی اُنہی کو مبارک ہو۔جن کیلئے بیاہ تو گویا گڈے گڑیوں جیسا کھیل تماشا ہے۔ ہم تو ایسے ہی بھلے۔“
اب یاسر نے مجھے مال پینساMalpensa ائیر پورٹ کی تفصیل، وہاں سے لوکل ٹرینوں کے اہم اسٹیشنوں میلانوکو دورناMilano Codorna، سرونوSarono، چیزاتے Cesate،نوویتےNovate،بولیتےBollate اور اِسی جیسے اور ثقیل سے ناموں کی ایک لسٹ گنوانی شروع کی تو مجھے کہنا پڑا۔
”ارے بیبے سے بچے میرے پلّے کچھ نہیں پڑ رہاہے اور نہ پڑے گا۔ چھوڑو سب کچھ۔جب دریا میں اتروں گی تو خود ہی ہاتھ پاؤں مارتے مارتے یا ڈوبوں گی یا تیرنے لگوں گی۔“
ایک لمبی یاس میں لپٹی آہ سی سینے سے نکلی جس نے میرا لہجہ جیسے افسردگی میں بھگو سا دیا تھا۔
ایسے ہی الٹے سیدھے مرحلوں کا سامنا کرتے کرتے اِک عمر گزار بیٹھی ہوں۔ بس بات اتنی سی ہے کہ اب بڑھاپا ہے جب قویٰ کمزور اوردل ذرا ذرا سی بات پر گبھرانے لگ پڑتا ہے۔انٹر نیٹ سے بھی کچھ گہری شناسائی نہیں ہے کہ بندہ اٹھتے بیٹھتے شغل شغل میں ہی تھوڑا بہت سبق پڑھ لے۔“
سفر تو ہمیں پی آئی اے سے ہی کرنا تھا۔ چاہے وہ سیدھی جاتی یا پڑاؤ کرتی کہ ہم اس کے عاشق ہیں۔اُس وقت سے جب یہ لا جواب پرواز تھی اور اِس میں باکمال لوگ سفر کرتے تھے۔ یہ سبز اور سفید جھنڈے کے ساتھ ایک تیزی سے ترقی پذیر ملک کی نمائندگی کتنے خوبصورت انداز میں کرتی تھی۔ اب تو خیر” حال نہ پوچھو کچھ” والا معاملہ ہے۔ پر ہم بھی کیا کریں۔ سچی بات ہے “دل ہے پاکستانی تو جان ہے پاکستان والا “معاملہ ہے ہمارا تو۔
تو میلان اور پیرس جانے والی اِ س پرواز میں سارے پاکستانی ہی تھے۔ عورتیں، بچے، مرد اور بوڑھے۔پاکستان کا محنت کش طبقہ جو میلان اور پیرس میں تقریباً ڈیڑھ دودہائیوں سے مقیم ہے۔ کچھ تونو جوانوں کی نئی نویلی دلہنیں تھیں جو شوہروں کے پاس پہلی بار جا رہی تھیں۔ آنکھوں میں خواب بسائے،ہاتھوں پر مہندی رچائے،تن پر جھلملاتے کپڑے سجائے،کلائیاں کہیں طلائی،کہیں کانچ کی چوڑیوں اور انگلیاں نقلی اور اصلی سونے کی انگوٹھیوں سے بھری ہوئیں۔کچھ عید گزار کر جارہی تھیں۔بازو انکے بھی کہنیوں تک حنائی رنگوں اور ڈیزائنوں میں لُتھڑے پڑے تھے۔
منظر کیا دلچسپ تھے۔ پھول پٹیوں والے ریشمی جوڑوں کے ساتھ کُٹ کُٹ کرتی مرغیوں کی طرح اِدھر اُدھر بھاگی پھرتی تھیں۔کچھ اتنی پڑھی لکھی بھی نہ تھیں۔گجرات،فیصل آباد اور خوشاب سے بیشتر کا تعلق تھا۔کہیں سیٹوں کے تبادلے تھے۔اور کہیں ایر ہوسٹس سے پنگے چل رہے تھے۔
ٍٍ یہ بھی مقام شکر تھا کہ جہاز نے دیر تک دم سادھنے کے بعد زبردست انگڑائی لے کر اڑان بھری تھی۔
ثمینہ میری ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔سمجھدار سی، ستائیس اٹھائیس سال کی لڑکی دو سال پہلے شادی ہوئی تھی۔پندرہ دن کی وصل کہانی کے ساتھ سات سو تیس دن کے ہجر کی زخم خوردہ داستان جو ساس نندوں کے ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی۔
مجھ سے بار بار تقاضا کرتی تھی کہ آپ نے میرے پاس ضرور آنا ہے۔نیز اختر(شوہر) سے ایرپورٹ پر آپ کی ملاقات کرواؤں گی۔“
اس کی باتوں نے جیسے اونگھنے جیسی کیفیت طاری کردی تھی۔معلوم ہی نہیں ہوا کہ آنکھیں کب بند ہوئیں۔شور سے جب کُھلیں تو عادت اور مزاج کے خلاف کوئی گھنٹہ بھر کی نیند لی ہوگی۔تازگی محسوس ہوئی تھی۔
رات کیا بہت دنوں سے ایک اضطراب کی سی کیفیت میں غوطے کھاتی تھی۔اکیلے جانے کا احساس۔کچھ گٹے گوڈوں کا حال پتلا۔شوق کے عالم کی تو خیر بات ہی کیا کہ جی چاہے اڑن کھٹولے پر بیٹھ کر ساری دنیا گھوم جاؤں پر بات تو شاعر نے کردی کہ
گو ہاتھو ں میں جُنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
تو بس اپنا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔بلڈ پریشر کی بیماری ہر دم سولی پر ٹانگے رکھے۔اب ایسے میں اِس نظر عنایت کا کیا کہتی کہ جو اوپر والے نے نازل کی۔
مہینہ تو شاید اپریل کا ہی تھا۔جب آفس میں میرے کمپوزر نے ایک میل لاکر رکھی۔میلان سے کسی یاسر کی تھی کہ جسنے اٹلی کیلئے مجھے اور بیٹی کو Sponser کیا تھا۔حیرت سے کاغذ پر نظریں دوڑائیں اور خود سے پوچھا۔
”بھئی یہ کون ہے؟میں تو شاعرہ بھی نہیں کہ سمجھوں کِسی میرے پرستار کی محبت و چاہت کا تحفہ ہے یہ۔“
باایں ہمہ خوشی و مسرت سے بھری پُری کلکاری اندر سے نکلی اور ہونٹوں پر ناچنے لگی تھی۔
تھوڑا سا غور و غوض کرنے پر معلوم ہوا کہ میری بیٹی سعدیہ کی دوست فرح کا شوہر اور ساتھ ہی اُسکا سُسرالی عزیز تھا۔ فرح کوئی چار سال قبل اپنے شوہر کے پاس اٹلی جارہی تھی جب میں نے کہیں ہنستے ہوئے کہا تھا۔
”ہائے فرح مجھے بھی ساتھ لے چلتیں۔اُف اٹلی توتاریخ و تہذیب اور آرٹ کا گڑھ ہے۔“
فرح مسکرا دی تھی۔بے چاری سیدھی سادی ایم اے پاس لڑکی جسے تاریخ و ادب سے کچھ شغف نہیں۔جی چاہا اُسے بتاؤں کہ وہ ہنری جیمز کے ناول اورگوئٹےGoethe کا سفر نامہ اٹالیئن جرنی Italian Journey کہیں پڑھ لیتی یا پھر اوپن سٹی اور رومن ہولیڈے جیسی فلمیں دیکھ لیتی تو ممکن ہے کہ شوہر کے پاس جانے کی مسرت کے ساتھ اُسے ایک تاریخی و ثقافتی اہمیت کے حامل ملک کو دیکھنے کے شوق کا بھی احساس ہوتا۔
بیچاری کے کہیں دل میں بات رہ گئی ہوگی میں کیا جانوں؟نہ کبھی بعد میں کوئی ذکر ہوا نہ تذکرہ۔اب ایکا ایکی یہ نظرکرم۔دل تو سربازار می رقصم والی کیفیت میں تھامگر سامنے اُدھورے کاموں کے پلندے تھے جن میں گوڈے گوڈے دھنسی بیٹھی تھی۔اوپر سے بڑھتی عمر کے مسائل۔اب خیرخواہ لاکھ کہیں۔
”ارے مت سمجھو خود کو بوڑھا۔یہ سوچیں ہی ہیں جو بندے کا بیٹرہ غرق کرتی ہیں۔“
”لو یہ بھی اچھی رہی۔ اب لمبی چوڑی باتوں کے چکر میں کیا پڑنا۔ایک سے ہی اندازہ لگالو کہ جب سارا دن کمر چارپائی پر نہ ٹکانے والی عورت تھوڑی سی دیر بعد لیٹ جانے اور آرام کی ٹیکی چاہے گی تو بڑھاپے کا رنڈی رونا نہ روئے گی۔تو اور کیا کرے گی۔ بھئی مان لو۔روئے گی۔
تو پھر اِس نوازش سے منہ موڑ کر اِس نئی کہانی کو جیسے دفع دور کردیا کہ چھوڑو کیا جانا۔میرا تو شناختی کارڈ بھی جانے کہاں گم ہوگیا ہے؟ اس کے بغیر تو بات ہی نہیں بننی۔نیا بنوانے کی خجل خواری کیلئے ابھی وقت نہیں۔“
کچھ ہی دنوں بعد ایک اور میل آگئی تھی کہ کاغذات کی خانہ پُری کردیں۔وہ بھی کہیں کوڑے کی نذر ہوئی۔یونہی ایک دن کتابوں کی پھولا پھرولی میں ایک کتاب کھولی۔کیا دیکھتی ہوں شناختی کارڈ صفحات میں لیٹا مسکرا رہا تھا۔حیرت سے میں نے اُسے ہاتھ میں پکڑا اور خود سے کہا۔
”اف میرے خدایا میں نے اِسے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا اور دیکھو اب یہ کیسے بیٹھے بیٹھائے ہاتھ آگیا ہے۔“
اور جیسے میرے وجدان نے کہا تھا”سلمیٰ اعوان تمہیں اٹلی جانا ہے۔“
یہ شاید جون کا آخری ہفتہ تھاجب یاسر میرے دفتر میں خود موجود تھا۔وہ چھٹیاں گزارنے پاکستان آیا تھا۔میرے ٹوٹے پھوٹے بہانے سُن کر اُسنے دو ٹوک الفاظ میں اُس بات کو دہرایا۔جسکا ذکر آغاز میں ہوا ہے۔بیٹی کا نام ڈراپ ہوگیا کہ اُسے حج پر جانا تھا۔
”آپ جائیے میں سارا انتظام کرکے آیا ہوں۔“
دو دنوں میں کاغذات تیار ہوئے۔اور پورے بیس دن بعد Fedex والوں نے ویزا میرے ہاتھ میں پکڑا دیا تھا۔
اٹلی بابت اور جدید موبائل کے سبق یاسر نے پڑھانے کی بہت کوشش کی جو ایک تو میری آپ پھدری طبیعت اور دوسرے کاموں کے اژدہام نے پڑھنے ہی نہ دئیے۔
”ٹھیک ہے بھئی۔یہ بٹن دباؤں گی تو تمہارے اِس دوست کا نمبر آجائے گا اور یہ دبے گا تو یہ ہوجائے گا۔بس بس ٹھیک ہے۔باقی اللہ مالک ہے۔“
بڑا بیٹا کچھ زیادہ ہی مضطرب تھا کہ ماں اکیلی ہے۔ چاہتا تھا کہ اس کی سالی جسکے پاس امریکن ویزا ہے۔اور وہ اٹلی گھومے ہوئے ہے میری دوسراہت کیلئے ساتھ ہولے۔اس کے دونوں بچے وہ دونوں میاں بیوی (یعنی بیٹا اور بہو) سنبھال لیں گے۔ میں نے سُنا تو ڈپٹا۔
”ارے باؤلے ہوگئے ہو۔چھوٹے چھوٹے دو بچوں کی ماں جسکا دل اپنے بچوں میں ہی اٹکا رہے گا۔گالیاں نکالے گی مجھے۔چل ہٹ۔بہنوئی ہونے کا اتنا رعب نہیں جماتے۔“
اب میں لاکھ دعوے کروں کہ میں توہمات کی قائل نہیں۔بالکل غلط۔منگل کے دن کی فلائٹ مجھے تذبذب میں ڈال رہی تھی۔
”یہ بُدھ کو نہیں ہوسکتی۔بدھ کم سدھ۔
”نہیں ممکن نہیں۔ہفتہ میں ایک دن پی آئی ائے کی میلان اور پیرس کیلئے فلائٹ۔اتوار کو اسلام آباد سے۔“
بخاری ٹریولز میں ٹکٹ ایجنٹ فرحان بتا رہا تھا۔
اب خود سے کہتی ہوں۔عجیب عورت ہوں میں بھی۔دن سب اللہ کے مگر وہ جو کہتے ہیں آپ کا وہم آپ کو لے ڈوبتا ہے تو وہی بات ہوئی۔ نئی نکور گاڑی اور میرا تجربہ کار ڈرائیور انور۔شاہ عبدالطیف بھٹائی پل کے نیچے گاڑی آگے جانے والی سے ٹکرائی اور میرا دل دہلا گئی۔
”یااللہ خیر۔“
لبوں سے نکلا۔تاہم میاں نے ضبط اور حوصلے سے کہا۔
”گاڑی نکال لو۔“
شکر ہے کِسی رپھڑ میں نہیں پڑنا پڑا۔بدشگونی کا وہم سامنے آگیا۔سر جھٹکا۔خود کو لعن طعن کیا۔بار بار کہا۔دن سب اللہ کے۔ایمان کو پکّا کرنے کی ضرورت ہے۔“
چیکنگ کا عملہ بہت سُست تھا۔کیمروں پر صورتیں چیک ہورہی ہیں اور ساتھ ساتھ زبانیں تیز گام کی سی رفتار سے سیاست پر تبصرے کررہی ہیں۔
”عمران کیا بونگیاں ماررہا ہے؟جنرل راحیل اٹلی پہنچا ہوا ہے۔وزیر خارجہ سے ملاقاتیں ہورہی ہیں۔دونوں ملکوں میں دفاعی تعاون بڑھانے کی پیشکش۔پاک فوج کیلئے اٹلی کی حکومت کی زبردست ستائش وغیرہ وغیرہ۔“
تو اب دانہ پانی اجنبی سر زمینوں کی طرف اڑائے لئیے جارہا تھا اور میں تھوڑی سی جھپکی کے بعد جہاز میں کھانے کی اڑتی خوشبوؤں کو اپنے نتھنوں میں گھسیڑتے منتظر تھی کہ کب ٹرالی میرے پاس آئے گی۔
کھانا تو بس گزارہ اور گوارہ تھا۔ہم جیسے چاولوں کے رسیا لوگوں کو چاول مل جائیں تو گریس مارکس دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔بس تو کچھ ایسا ہی حال پی آئی اے کے اِس کھانے کے ساتھ تھا۔
”ٹھیک ہے بھئی ٹھیک ہے۔“کھاتے کھاتے نگاہ سامنے اٹھی۔سکرین پر جہاز کا روٹ دکھایا جارہا تھا۔واہ کیا سین تھا۔بلیک سی پر جیسے رسہ تنا ہواہو۔آدھا پیلا اور آدھا فیروزی مائل سبز۔ درمیان میں جہاز جیسے اڑتا ہوا پرندہ۔اب مجھے دلچسپی ہوئی۔کھانے والا پٹارہ سمیٹا اور سکرین پر نظریں جمادیں۔
سپین کنارے پر نمایاں ہورہا تھا۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہی منظر سکرین پر نمودار ہوتا۔اسی تنے ہوئے رسے کے اوپر نیچے مشرقی یورپ کے شہروں کو دیکھنا بڑا دلچسپ لگا تھا۔لاہور سے MXP تک کا راستہ جیسے ہندوستان کے نقشے جیسی صورت والا خشکی کا کوئی قطعہ ہو۔
نشست کھڑکی کے ساتھ والی تھی۔اور سفر اپنے اختتام کی طرف گامزن تھا۔بلندی سے اُترائی کے سفر میں بادلوں کے پُروں کا پھیلے ہوئے ہونا ایساہی تھا جیسے میں اپنے بچپن میں اپنی دادی کودیسی کپاس صحن کے کچے پکے فرش پر بکھیرے دیکھتی تھی۔میلان اور اس کے گردونواح کے مناظر میں وہ حسن کہیں نہیں تھا جو آپ کو استنبول اُترتے ہوئے نظرآتا ہے۔
جہاز میں چونکہ سبھی پاکستانی تھے۔شاید اسی لئیے ایرپورٹ انتظامیہ نے میڑو اسٹیشن کے قریب ترین Exit والے ہال میں چیکنگ کے مراحل سے مسافروں کو گزار دیا۔یہ اور بات ہے کہ اِس ٹرمینل تک پہنچنے کی پریڈ چلنے کی مشقت سے لبالب بھری ہوئی تھی۔
ثمینہ اور میں دونوں ساتھ ساتھ باہر نکلیں۔وہاں بھی سارے پاکستانی ہی نظر آئے تھے۔ثمینہ کی بے چین نظریں اپنے شوہر کی تلاش میں تھیں جو وہاں نہیں تھا۔
یاسر کا دوست اقبال ائیر پورٹ پر موجود تھا جو میری ایک زور دار آواز پر ہی بھاگ کر سامنے آگیا تھا۔ جس نے میرا سامان پکڑا۔ثمینہ کو دعا اور تسلی دیتے ہوئے مجھے اس کے شوہر پر شدید غصہ آیا۔کیسا عجیب اور لاپرواہ شخص ہے اُسے اپنی نئی نویلی دلہن کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ پھر خود ہی تاویل دی کہ عین ممکن ہے لیٹ ہوگیا ہو۔
بہرحال اقبال مجھے سٹیل کلر کی ایلیویڑوں سے گزارتا ٹرین تک لے آیا۔ کیسی شاندار ٹرین تھی؟اتنی نئی نکور جیسے ابھی ابھی افتتاح کے بعد پلیٹ فارم پر آکر کھڑی ہوئی ہو۔ سرنگوں سے گزرتی کشادگی میں آئی تو سبزے اور خوبصورت مضافاتی بستیوں سے آنکھوں کو چمکانے اور ٹھنڈا کرنے لگی۔
یہ مضافاتی آبادیاں اپنے دامنوں میں زندگی کی سب سہولتوں سے مزین ان سب لوگوں سے آباد تھیں جو فطرت کے قریب رہنا چاہتے تھے۔سبزے اور خاموشی سے محبت کرتے تھے۔ یہاں وہ لوگ بھی تھے یعنی جنوبی مشرقی ایشیا کے محنت کش لوگ جنہیں سستی رہائش گاہیں چاہیے تھیں۔
دراصل میلان اٹلی کا دوسرا بڑا شہر جو صنعتوں کی وجہ سے،اپنی محنت،کاروباری مراکز کے اعتبار، اپنی تاریخ و تہذیب کے حوالے سے، سیاحوں کیلئے اور اٹلی کے سب سے بڑے میٹرو پولٹین شہر کی و جہ سے خاصا گنجان اور مہنگا ہوگیا ہے۔اب ڈھیروں ڈھیر لوگ مضافات میں آبسے ہیں۔
سرونوSaronno پر اترنا پڑا کہ یہاں سے گاڑی بدلنی تھی۔یہ جنکشن تھا۔پٹٹریوں کا جال بچھا ہوا نظر آیا۔دائیں بائیں آر پار پلیٹ فارم آباد۔پل پل کے وقفوں سے گاڑیوں کی آمدورفت۔ زندگی گویا سیکنڈوں اور منٹوں سے چلتی تھی۔
چیزاتے بھی ایسی ہی ایک بستی تھی۔آ ہنی جنگلوں اور زیر زمین راستوں میں گھری یہ سب سلسلے تحفظ اور سلامتی کے ضامن ہیں کہ بستیاں اِن کے ذریعے ریلوے ٹرینوں سے جڑی ہوئی ہیں۔
میرے سامنے خاموش سناٹے میں ڈوبا،ہواؤں میں جھولتا اور سنہری کرنوں میں نہاتا ایک خوبصورت قصبہ تھا۔جسے میں کئی بار شوق و محبت سے دیکھا تھا۔
اب جوچلنا شروع کیا تو راستہ ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔آج تو صبح سے اب تک چل چل کر ملیدہ ہونے والی بات ہوگئی تھی۔اوپر سے ستم بالائے ستم چوتھی منزل پر گھر۔لفٹ بھی نہیں۔
پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی میں نے شاہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک رہنے والے سے گلہ کیا۔
”تیرا انتہائے کرم ہے۔عنایت ہے تیری کہ اٹلی جیسے خوبصورت ملک کی سیاحت کا دودھ تو تو نے مجھے پینے کو دیا مگر پر کیسے ہائے؟ آگے میری زبان میں جو کہاوت ہے وہ تو میں دہرا نہیں سکتی خود ہی سمجھ لو نا۔مگر نہیں دہرائے دیتی ہوں۔کہیں تم بھی بُھولے نہ پڑے ہو۔آخر اتنی بڑی دُنیا کے وختے تھوڑے ہیں۔
میں رُک گئی۔رُخ پھیر کر سیڑھیوں کے شیشوں سے جھانک کر نیلے آسمان کو دیکھا اور شکستہ سے لہجے میں کہا۔
”ہاں تو مینگینیں ڈال کر نا۔“
سرگودھا شہر کے ایک گاؤں کی سادہ سی چوبیس پچیس سالہ لڑکی رضیہ جس نے اہتمام سے سر ڈھانپا ہوا تھااپنی چار سالہ پیاری سی بیٹی مسکان کے ساتھ دروازے پر کھڑی مجھے خوش آمدید کہتی تھی۔میں نے پیار کیا اور کمرے میں دھرے صوفے پر دھم سے ڈھے سی گئی۔
پر اندر جیسے بلبلانے لگا تھا۔
تویہ کشٹ روز کیسے کٹے گا؟میلان میں کوئی ہوٹل ہوجائے۔ سوچ در آئی۔”ہائے” ایک کراہ سی نکلی۔ اکیلے رہنے کا بھوت سامنے آکر ڈرانے لگاتھا۔اب اقبال سے کیا” کِیا جائے” پر بات ہونے لگی۔کسی ٹیکسی وغیرہ کا بندوبست ہوجائے۔“

Advertisements
julia rana solicitors london

”یہ تو ممکن ہی نہیں۔اُس کا حتمی جواب تھا۔
باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ اس کے پاس سکوٹر ہے۔چلو فی الحال یہ کرو کہ اسٹیشن پر ڈراپ کردیا کرنا۔واپسی پر فون کردیا کروں گی۔“
”مگر ہیلمٹ پہننا پڑے گا۔“
”تو بھئی پہن لیں گے۔یہ کونسا مشکل کام ہے۔ بغداد میں تو ریڑھیوں پر بھی بیٹھی تھی۔کم از کم اِس فالتوفٹیک سے تو فی الحال جان چھوٹے گی۔“
”چلئیے تھوڑا سااطمینان ہوا۔اب کمرے کے کھلے دروازے اور کھڑکیوں سے تانکا جھانکی کا سلسلہ شروع ہوا۔کہیں کہیں منظروں کی دلرباعی سی ضرور دیکھی مگر فوراً گرفت میں جکڑنے والی نہ تھی۔
آمنے سامنے کے گھروں میں اطالوی بوڑھے رہتے تھے کہ صوفے پر بیٹھے بیٹھے میں نے فربہی بدن کی کم و بیش میری ہی عمر کی عورت کو ٹیرس پر رکھے گملوں میں اُگے بوٹوں کو پانی دیتے دیکھا تھااور اِن کے بارے معلوم ہوا تھا کہ خاتون اُستاد ہے۔اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہی ہے۔دو بیٹے ایک باہر اور ایک اس کے ساتھ رہتا ہے۔لڑکا شراب کا انتہائی رسیا اور قدرے نکھٹو ٹائپ کا تھا۔
قوموں کے مزاج اور ان کے اطوار کا اندازہ تو چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہو جاتا ہے۔ایک ہی سائز اورجسامت کے ٹیرس۔ایک گل و گلزار ہوا پڑا تھا اور دوسرا جس کے سامنے میں بیٹھی تھی کے کونے کاٹھ کباڑ سے بھرے نظر پر گراں گزرتے تھے۔
اس پورے بلاک میں بمشکل کوئی دس خاندان ہوں گے۔
جانا تو اور بھی بہت کچھ تھا کہ بے روزگار میرا میزبان اِن دنوں بے روزگاری الاؤنس لے رہا تھا۔دو مالکوں کی کیمیکل فیکٹری پولینڈ شفٹ ہوگئی تھی کہ وہاں لیبر سستی تھی۔بے کار ہونے والے نئی ملازمتوں کی تلاش میں تھے پر فکر مند ہرگز نہ تھے کہ بے روزگاری آلاؤنس عزت سے گھر کی دال روٹی چلنے کا اہتمام کردیتا ہے۔ ایک رفاعی ریاست کا حقیقی نفاذ۔علاج معالجہ،سکول سب ریاست کی ذمہ داری۔
پندرہ سال قبل اٹھارہ سالہ نوجوان جب دھکے کھاتا یہاں پہنچا تھا تو زندگی بڑی کٹھن تھی مگر اس کی جدوجہد یورو کمانے پر تو رہی مگر خود کو تعلیمی اور پیشہ ورانہ اعتبار سے آگے بڑھانے کو اس نے فوکس ہی نہیں کیا۔اس کا اندازہ مجھے اِس مختصر سے وقت میں ہی ہوگیا تھا کہ میلان میں ہوٹلوں کودیکھنے اور انکے بارے میں جاننے کیلئے جب میں نے بات کی اُس نے اپنا لیپ ٹاپ میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا۔
”آپ اِس سے کھوج کرلیں۔“
میں نے بے بسی سے اُسے دیکھا اور کہا۔
”ارے میاں میں تو خود اسمیں ابھی کوری ہوں۔“
آنے والے دنوں میں یہ تکلیف دہ بات زیادہ کھل کر سامنے آئی تھی کہ ایسا ہی حال اس جگہ اور اِن سے ملحقہ دیگر کمیونزComunes (یعنی قصبات)میں مقیم پاکستانیوں کا تھاجنہیں یہ لوگ (یعنی پاکستانی) پنڈ (گاؤں) کہتے ہیں۔
شام کی چائے پر اِس چھوٹے سے خاندان کا اہتمام اُن کی بساط سے کچھ زیادہ تھا۔میں نے ممتا بھری ڈانٹ دی۔اور جب میں رضیہ کا ہوم میڈ پیزا کھاتی اور چائے پیتی تھی مجھے پتہ چلا تھا کہ نچلے فلور پر ایک پجھتّر۵۷ سالہ خاتون رہتی ہے جو ہمہ وقت کتابیں ہی پڑھتی رہتی ہے۔جس کے گھر میں کتابوں کے انبار ہیں۔یوں وہ ایک مہربان اور شفیق سی عورت ہے۔جس کی ایک بار بیماری کے دوران دونوں میاں بیوی نے اس کا بہت خیال کیا۔شوہر بھی ایسے ہی مزاج کا تھا۔دو سال ہوئے دنیا سے چلا گیا ہے۔
بھولی بھالی سی رضیہ ہنسی اور بولی۔
”امّاں جی میں نے جب پہلی بار روغن زیتون سے ان کی ٹانگوں کی مالش کی تو انہیں اتنا سکون ملا کہ میں خوشی سے نہال ہوگئی۔پھر تو ہر روز ان کی پورے بدن کی مالش معمول بنا۔وہ غسل کرکے تازہ دم ہوتیں اور مجھے پیار کرتیں۔وہ میری ماں جیسی ہیں۔اُن کا ایک ہی بیٹا ہے جو بس سال چھ ماہ میں ایک بارآتا ہے۔آپ کو بھی لے کر چلوں گی۔“
اقبال کے لہجے میں خوشی و سرشاری نے اس کی باچھیں گویا آخری داڑھوں تک نمایاں کردی تھیں۔”ہم تو آپ کے منتظر تھے ہی۔وہ بھی
آپ کے بارے میں پوچھتی رہتی تھی۔“
تو گویا ایک ادبی ذوق کی حامل،کتابوں کی رسیا،کیا پتہ لکھنے لکھانے سے بھی تعلق ہو۔ایسی خاتون سے ملنا تو ملاقاتِ مسیحا و خضر سے بھی افضل ہے۔سچی بات ہے یہ ایسا خوش آئند خیال تھا کہ یونہی محسوس ہوا کہ میلان کے کِسی قدر گرم سے موسم میں پھولوں کی خوشبو سے لدی پھندی ہواؤں نے جیسے میرے رخساروں پر بوسے دیتے ہوئے مجھے نہال کردیا ہے۔
اقبال انہیں بتا کر آیا تھا کہ میں ان سے ملاقات کی خواہش مند ہوں۔اذن
ملاقات کوئی گھنٹہ بھر بعد کا عطا ہوا تھا۔
رضیہ اور اس کی بیٹی ہمراہ ہوئیں۔ایک منزل نیچے کا گھر۔دروازہ مسز ریٹا سمتھ نے خود کھولا۔سامنے نیلی کانچ جیسی آنکھوں اور گرے بالوں والی عورت نے مسکراہٹ لبوں پر بکھیرتے ہوئے خوش آمدید کہا۔
گھر تو ایک جیسا ہی تھا۔تین کمروں اور چھوٹی سی راہداری والا۔مگر کیسا تھا۔روح تک میں لطافت اُتر گئی۔راہداری کی پوری بلائنڈ دیوار پھولوں اور بیلوں سے سجی ہوئی تھی۔پہلا کمرہ چھوٹا تھا مگر اس درجہ باذوق طریقے سے سجا ہوا کہ رشک آیا۔
بڑے کمرے میں الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی تھیں۔باتیں ہوئیں تو پتہ چلا کہ لکھتی وکھتی تو نہیں تاہم کتابوں سے عشق ہے۔
نشست گاہ کی سادگی اور پُرکاری کی سجاوٹ بڑی منفرد سی تھی یا ایسا مجھے محسوس ہوا تھا۔دیوار میں نصب چوبی ڈیزائن کاری کی حامل لمبی سی الماری کے شیلف مختلف مجسموں سے سجے تھے۔بڑے منفرد سے۔
چند ایک کے بارے پوچھنے پر پتہ چلا کہ بالائی خانے میں دا ہنی طرف کا وکٹر ایمونیل دوم اٹلی کے شہنشاہ جس نے اٹلی کو ایک کیاکا مجسمہ ہے۔اس کے ساتھ اُسی خانے میں تین اور تھے جو قدرے چھوٹے اور وکٹر ایمونیل کے دائیں بائیں دھرے تھے۔تو پتہ چلا تھا کہ یہ تو بڑے تاریخی کردار ہیں۔اطالویوں کے محسن،Risorgrimentoتنظیم کے بانی اور رکن۔
پسِ منظر نے بتایا تھا کہ اُنسیویں صدی کے ابتدائی سالوں میں جب اٹلی پر نپولین بونا پارٹ کی حکومت تھی۔کہہ لیجئیے بیج تو اس تحریک کا نپولین نے ہی بویا تھا کہ اُس نے اطالویوں کواُکسایا اور یقین دلایا تھا کہ وہ یورپ کے لوگوں کی طرح اکٹھے ہوکراپنے ملک پرخود حکومت کرنے کے اہل ہیں۔تو اسے Risorgrimentoیعنی دوبارہ اٹھنے سے جوڑا گیا۔یعنی اٹلی کی عظمتوں کا احیاء تو اگلے پچاس سالوں میں یہ ایک انقلابی تحریک بن گئی۔جس میں حصّہ لینے کی سزا موت تھی۔بنیادی طور پر چار مرکزی کردار تھے۔گیری بالڈیGaribaldi(جو جرنیل تھا۔)،میزانیMazzini(بے حد دلیر اور جی دار لکھاری)،کیورCavour(سیاست دان و ڈپلومیٹ) اور وکٹر ایمونیل دوم۔
مسز ریٹا نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
یہ میرے ہی گھر میں موجود نہیں ہیں۔جب آپ اٹلی کے شہروں کی سیر کریں گی تو اس کے کوچہ و بازاروں کی پیشانیوں پر یہ جگمگاتے نظرآئیں گے۔تب محبت و عقیدت میں ڈوبے دو بول آپ نے ضرور اِن کے لئیے کہنے ہیں۔“
”کیوں نہیں۔“محبت بھرا میرا جواب تھا۔
یہ وہ خفیہ تنظیم تھی جن کے لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئیے۔خود ختم ہوئے مگر تحریک کو مرنے نہیں دیا۔حتیٰ کہ وہ وقت آگیا جب سپین،آسٹریا اور فرانس جو ملک پر قابض تھے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
تو میں اٹھی اور فوجیوں کے سے انداز میں انہیں سلوٹ مارا اور کہا۔
”مسز ریٹا جب اٹلی کے شہروں میں انہیں دیکھوں گی تو رُک کر خاموش کھڑے ہوکر اظہار عقیدت کا گہرا اظہار کروں گی۔آپ کا شکریہ۔آپ نے آج ہی اِن سے میری ملاقات کروا دی۔“
مسز ریٹا کی آنکھیں چمکیں۔انہیں میری یہ ادا بہت بھائی تھی۔
پینتیس 35سال کی عمرمیں ڈیوائن کومیڈی جیسا شاہکار لکھنے والا دانتے ایلیگریDante Alighieriجس نے اطالوی ادب کیا دنیا کے ادب کو مالا مال کیاکو پہنچاننے میں ذرا دشواری نہیں ہوئی کہ ڈیوائن کومیڈی کو پڑھنے کی کوشش میں اُس کی صورت اور سٹائل کی انفرادیت نے تصویری نقش ذہن میں بیٹھا دیا تھا۔مجسمہ ساز بھی کمال کا تھاکہ طوطے جیسی ناک اور پندرھویں صدی میں رائج سر پر پہننے والا مخصوص ہڈ اپنے رنگوں کے ساتھ نمایاں کیا ہوا تھا۔شیکسپئر بھی نمایاں تھا۔
ریٹا خود اگر اطالوی تھی تو شوہر انگریز تھا۔دونوں اپنی اپنی زبانوں کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ فرنچ اور جرمن میں بھی طاق تھے۔مسٹر سمتھ کا کوئی دو سال ہوئے انتقال ہوگیا تھا۔
سچی بات ہے جب وہ کافی بنانے کے لئیے اٹھیں۔میرا جی چاہا تھا میں کتابوں کی
الماری کے پاس جاکھڑی ہوں۔اُسے کھولوں اور اُس خزانے میں جھانکوں تو سہی کہ میرے مطلب کا بھی کوئی لال یاقوت وہاں دھرا ہے۔مگر میں نے خود کو لگام ڈالی۔ہوچھوں کی طرح ٹپوسیاں مارنے کو خود ہی ردّ کیا۔اور رجّی پُجی خاندانی عورت کی طرح باوقار طریقے سے بیٹھی رہی۔کہ رضیہ سے پتہ چلا تھا کہ وہ بڑے رکھ رکھاؤ والی ہیں۔
کافی میں پینا نہیں چاہتی تھی۔مگر انکار کرنا بھی مناسب نہ لگا۔
کسیلا گھونٹ بھرا اور ان کی خدمت میں عرض کیا۔
”آپ اجازت دیں تو شام کا ایک گھنٹہ آپ کے پاس گزار لیا کروں۔آپ سے بہت کچھ جان سکتی ہوں۔اٹلی کا ماضی اور اُس کا حال۔“
نرمی کی پھوار میں جیسے بھیگے چہرے پر بڑی شریں سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
”ارے ماضی کی تاریخ تو بڑی ہی دلچسپ ہے۔شاید تاریخ ہمیشہ دلچسپ ہوتی ہے۔اور ڈراؤنی بھی۔“
اب یقین کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ بالکل ذاتی ہے کہ بھیڑ مادہ نے دوانسانی بچوں رومیولسRomulusاور ریمسRemusکو اپنا دودھ پلا کر پالا۔جنہوں نے جوان ہوکر روم شہر کی بنیاد رکھی۔“
ہم ہنس پڑے تھے۔بہرحال شام سات بجے کا ٹائم سیٹ کرکے میں اُن سے رُخصت ہوئی۔
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے رب سے شکوے شکائتوں کے جو پٹارے میں نے تین گھنٹے قبل کھولے تھے۔اُسے جو طعنوں کی سان پر چڑھایا تھا۔فی الفور اُس سے معافی کی طلب گار ہوئی کہ اوپر والے نے تو میرے لئیے اس کشٹ کے عوض جو انعام مسز ریٹا سمتھ کی صورت رکھا تھا اس کا ہی شکریہ ادا کرنے کے لئیے ڈھیر سارے لفظوں کی ضرورت تھی۔اب نفل پڑھنے کی تو ہمت نہیں تھی۔ اس لئیے ہرپوڈا چڑھتے ہوئے میں نے شکریہ اے پیار تیرا شکریہ ضرور کہا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply