پیغمبرِ اَمن ﷺ۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

پیغمبرِ رحمت ﷺ جس دین کا پیغام لائے‘ وہ سراسر اَمن اور سلامتی سے متصف ہے۔ لفظ اسلام کے لغوی معنی ہی سلامتی کے ہیں۔ لفظ سے معانی کا سفر ‘عمل کا سفر ہے۔ سفر راست سمت میں ہو تو راست معانی تک پہنچاتا ہے۔ سفر ‘ سفر ِ معکوس بن جائے تو علم کی جگہ بدعلمی اور عمل ِ راست کی جگہ عمل ِ زشت پرورش پاتا ہے۔
اسلام میں سلام” greeting السلامُ علیکم” ہے، یعنی” تم پر سلامتی ہو” حکم ہے کہ سلام کرو ‘ہر شخص کو سلام کہو ‘ خواہ تم اسے جانتے ہو ‘یا نہیں جانتے۔ گویا اپنا ہو‘ یا غیر ٗ سب کے لیے یکساں امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانا مقصود ہے۔ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے۔ دین کے معنی راستہ ہیں، یعنی اسلام کے راستے پر چلنے والا امن اور سلامتی کے راستے پر چلتا ہے۔ مرشدی واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ اسلام کا مطلب ہے Peace within and peace without ،گویا ایک مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ وہ ظاہر و باطن میں سلامتی کاپیکر ہوتا ہے۔جب تک باطن سلامت نہ ہو‘ ظاہر میں سلامتی محال ہے۔ باطن بے ترتیب ہو جائے تو ظاہر بھی بے ربط ہو جاتا ہے۔ زندگی ہو یا کائنات‘ اس کا حسن ‘ حسنِ ترتیب میں ہے۔ زندگی کا قیام ہی عناصر میں ظہورِ ترتیب پر موقوف ہے۔ شریعت کی شاہراہ پر چلنے سے ظاہر اور باطن دونوں میں ربط بیک وقت استوار ہوتا ہے۔ اگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ ظاہر میں عبادت گاہوں کا رخ کر رہے ہیں لیکن ان کی زندگی کے ظاہر و باطن بے ترتیب نظر آ رہے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے عبادت کو ظاہری رسم و رواج تک محدود سمجھ لیا ہے۔ عبادت کی روح اخلاص ہے۔ اخلاص سے عاری عبادت عادت ہے۔ عادت اور سعادت میں فرق ہوتا ہے۔
انسانیت امن اور سلامتی کی تلاش میں ہے۔ ہر سلیم الفطرت انسان ایک ایسے کلیے، ایک ایسے راہنما اصول کی تلاش میں ہے‘ جو تمام نوعِ انسانی کو ایک وحدت کی لڑی میں پرو دے، فساد فی الارض ختم ہو جائے، ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہو جائے اور ہر انسانوں کے لیے یکساں مواقع میسر آ جائیں۔ انسانیت حصول ِ انصاف کے لیے کوشاں ہے۔ دین ِ اسلام نے ایک قدم آگے بڑھ کر عدل کا سبق دیا اور پھر اس سے بھی دو قدم آگے احسان کا نصاب مرتب کر دیا۔ فرمایا کہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرو ‘ جو خود اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ ایثار کو پسند کیا گیا۔انصاف صرف ظلم کا مداوا ہے۔ عین ممکن ہے انصاف کے بعد بھی شکوہ وشکایت باقی رہے، جب مساوات کی آڑ میں غیر حقیقی تقسیم اور چھینا چھپٹی شروع ہو جاتی ہے۔ سب کو ایک روٹی مہیا کر دینا مجھ ایسے منحنی شخص کے لیے تو شایدخوش آئند ہو لیکن ایک لحیم شحیم شخص کے لیے سراسر شکایت کا موقع ہے کہ اس کے شکم کی آگ چار روٹیوں سے بجھتی ہے۔ اسلام عدل کا پیغام لے کر آتا ہے۔ عدل سے مراد ٗ ہر چیز کو اس کے درست مقام پر رکھنا ہے۔ انسانی عقل انصاف سے بڑھ کر کوئی تصفیہ نہیں کر سکتی۔ کس شئے کا درست مقام کیا ہے؟ اس کا بے عیب نصاب اشیا ء کا خالق ہی مرتب کر سکتا ہے۔ اس لیے الہامی دین عدل اور پھر احسان کا پیغام دے رہا ہے۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ۔ “بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کر دو، اور لوگوں کے درمیا ن عدل سے فیصلہ کرو” سب اختیارات و مناصب بمنزلہ امانت ہیں، انہیں اُن کے اہل تک پہنچانا ہی عدل کا تقاضا ہے۔ اسلام دین ِ فطرت ہے اور دینِ فطرت میں ’’ہر مال دو آنے‘‘ نہیں بکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت اپنی تمام تر پسندیدگی کے باوجود روحِ اسلام سے دُور ہے۔ ہر چند کہ جمہوریت شخصی آمریت کا تریاق ہے لیکن شخصی علم و ہنر اور دانش کی قاتل بھی یہی جمہوریت ہے۔ اسلام جس شورائی نظام کا تقاضا کرتا ہے‘ وہ جمہوریت اور ٹیکنو کریسی کا امتزاج ہو سکتا ہے۔ نااہل کے سپرد گاڑی کا اسٹیرنگ دینا تمام مسافروں کی جان خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے ، خواہ اس ڈرائیور کاانتخاب ‘ مسافروں کی اکثریتی رائے کے مطابق ہی کیوں نہ طے پایا ہو۔ اکثریت دانائی منتخب نہیں کر سکتی۔ جمہوریت اکثر اوقات اکثریت کی آمریت بن جاتی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل ہر ملک کے سیاستدان اپنی انتخابی مہم میں رنگ ، نسل اور مسلک کے تعصب کو ہوا دے کر ووٹ حاصل کر لیتے ہیں اور برسرِ اقتدار آکر عالمی امن کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ جذبات کو مشتعل کر کے عوام الناس کے کندھوں پر سوار ہو کر منصب تک پہنچنے والے اپنے راستے میں آنے والے کتنے ہی اہل اور منصف مزاج کرداروں کا خون کرتے ہیں۔
اسلام کا اصل پیغام سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔ سیاست نے اسلام کو توانا کرنے کی بجائے اسلام کو استعمال کیا اور کمزور کیا، لوگوں کی عقیدتوں کا استحصال کیا، مسجدوں ، مدرسوں اور خانقاہوں کو وقتی فایدے کے لیے سیاسی نعروں سے آلودہ کیا۔ جو کچھ آج ہو رہا ہے‘ کم و بیش یہی کچھ ہم تاریخ میں بھی دیکھتے ہیں۔ بادشاہوں نے اپنی کشور کشائی کو اسلام کی خدمت کا عنوان دیا، ملوکیت نے اپنی مُہمّات میں سرکاری مفتیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری مؤرخین کی فوج ظفر موج بھی اپنے ہمراہ رکھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم مسلمان بادشاہوں کی تاریخ کو اسلام کی تاریخ سمجھ کر پڑھتے رہے۔
بے لاگ تاریخ کھنگال کر دیکھ لیں ، دَورِ نبویؐ میں ساری جنگیں سراسر دفاعی نوعیت کی جنگیں تھیں۔ کفار پانچ سو کلومیڑ کا فاصلہ طے کرکے مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوتے رہے، مدینے سے مکہ کی جانب کوئی لشکرکشی نہیں کی گئی۔ جارحیت جب بھی ہوئی کفار کی طرف سے ہوئی۔ مکہ کی جانب مسلمانوں کا ایک سفر حدیبیہ تک محدود رہا اور یوں یہ’’مہم‘‘ صلح پر منتج ہوئی، دوسری’’مہم‘‘ بغیر شمشیر زنی کے‘فتح مکہ کی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔ تاریخ ِ عالم میں یہ فتح اپنی نوعیت کی عجیب فتح تھی، فاتح ِ اعظمؐ نے علاقہ فتح کرنے سے پہلے قلوب فتح کر لیے تھے۔ کسی سپاہی نے شمشیر کا کوئی ہنر نہ دکھایا، فاتح فوج مفتوحہ علاقے میں کسی ایک مکان پر قبضہ کیے بغیر واپس ہو گئی۔ ان میں بہت سے اصحاب ایسے تھے جن کے مکانوں پر کفار قبضہ کر چکے تھے، وہ اپنے گھروں کو واپس اپنے قبضے میں لے سکتے تھے ، لیکن ہادئ عالمؐ کی ہدایت تھی کہ جب تم نے ہجرت اللہ کی رضا کے لیے کی اور اپنے مال و اسباب کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیا تو مناسب نہیں کہ انہیں واپس اپنے قبضے میں لو۔ اسلامی فوج کے کسی کمانڈر کو اجازت نہ تھی کہ مکہ میں داخل ہوتے ہوئے رزمیہ ، رجزیہ اور فخریہ اشعار پڑھے (جنگ کے دوران میں رزمیہ اشعار پڑھنا اُس دور کی روایت بھی تھی اور مظلوم مہاجرین کے دل کی آواز بھی)۔ ایک صحابی کہ جن کے ہاتھ میں ایک دستے کا علم تھا ‘ انہوں نے جوشِ جذبات میں آکر ایسے اشعار پڑھے تو پیغمبر ِ امنؐ نے اس کماندار کے ہاتھ سے علم لے لیا۔ کسی خاندان اور قبیلے کے ہاتھ سے علم واپس لے لینا ایک معزولی تصور ہوتی تھی… سلام ہے‘ پیغمبر ِ حسن و جمال کی بے مثل و بے مثال بلندئ کردار پر!! روح وجان فدا ٗاُس دِل جوڑنے والے پیغمبر ِ امنؐ کے حسن ِ معاملت پر!!! ۔۔۔ تادیبی کاروائی کے لیے عَلم لے لیا جاتا ہے، لیکن تالیف ِ قلب کا فوری بندوبست کرتے ہوئے‘ وہی عَلم اُس صحابی کے بیٹے کے سپرد کر دیا جاتا ہے کہ گھر کی عزت گھر میں رہے۔ سبحان اللہ!! فتوحات کی دنیا میں ٗدنیا کہاں سے مثال لائے گی ایسے سالارِ اعظمؐ کے حُسن و کمال کی!! پیغمبر ِ حکمتؐ کے دریائے رحمت و حکمت سے دانائی کے شیدا قیامت تک اپنی چھاگلیں بھرتے رہیں گے۔سبحان اللہ!! ما اجملک ما احسنک!!
سلامتی کے دین میں‘ ماننے والوں کے لیے حکم ہے کہ دشمن کے ساتھ جنگ کی تمنا نہ کرو اور جنگ میں کبھی پہل نہ کرو‘ لیکن اگر جنگ مسلط کر دی جائے تو خوب بہادری سے لڑو۔ جنگ اور امن دونوں ممکنات میں ہیں۔ دین ِ فطرت میں جنگ کے امکان کو ردّ نہیں کیا جاتا بلکہ جنگ کی ترتیب، اصول اور آداب بتلائے جاتے ہیں۔ ’محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے‘ کا تصور اسلام میں نہیں، بلکہ یہاں جو حالت ِ امن میں غلط ہے‘ عین حالت ِ جنگ میں بھی غلط قرار دیا جاتا ہے۔ اسلام میں درست منزل تک پہنچنے کے لیے غلط راستے کے انتخاب کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اصولِ جنگ ہے کہ دشمنوں کے لیے اپنے گھوڑے تیار رکھو۔ امن کے لیے طاقت ایک رکاوٹ deterrence کی حیثیت رکھتی ہے۔ امن پسند اگر طاقت میں مضبوط ہو گا تو امن کا قیام ممکن بنا سکے گا۔ جنگ کے دوران میں مجاہدوں کے لیے راہنما اصول مقرر کر دیے جاتے ہیں کہ… درخت نہیں کاٹے جائیں گے، کھیتوں اور کھلیانوں کو آگ نہیں لگائی جائے گی، بچوں بوڑھوں اور عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا، مقابل قوم کی عبادت گاہوں کو مسمار نہیں کیا جائے گا، بلکہ جو شخص اپنی عبادت گاہوں میں پناہ لے گا‘ اسے پناہ دے دی گی جائے، راہبوں سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا ، یہاں تک کہ جو شخص اپنے گھر میں گھس کر دروازہ بند کر لے ‘ اسے بھی امان دی جائے گی۔ سبحان اللہ! یہ اصول عین حالت ِ دراصل قیامِ امن کے اصول ہیں۔ مظلوموں کو ظالم قوتوں کی جارحیت سے بچانا ‘ اہلِ اسلام کا منصب ہے۔ اور اس منصب کے قیام کے لیے طاقت کا ہونا اشدضروری ہے، یعنی اہل ِ اسلام کی طاقت مظلوموں کے تحفظ کے لیے ہے ‘ ظلم وجارحیت کے لیے!! اصول ہے۔۔۔ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪ ” بھلائی کے کاموںمیں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو”
آج نوعِ انسانی عدل و انصاف کے لیے لیگ آف نیشن کو توڑ کر جس پلیٹ فارم تک پہنچی ہے ‘ وہ اقوامِ متحدہ ہے ، لیکن افسوس یہاں بھی عدل تو دُور کی بات‘ انصاف کی بات کرنا بھی ممکن نہیں، کیونکہ یہاں کچھ طاقتور قوموں کو ویٹو پاور کا حق دے کے انصاف کی روح کو پامال کیا گیا ہے۔ طاقتور بازپرس کے لیے خود کو کٹہرے میں کھڑا کرنا قبول نہیں کرتا۔ قانون میں طاقتور کے لیے استثنیٰ مہیا کرنا انصاف کا خون کرنا ہے۔ آج بنی نوعِ آدم جس مشترکہ منشور کی تلاش میں ہے ‘وہ اسے خطبہ حجتہ الوداع میں مل سکتا ہے۔ آج سے ساڑھے چودہ سَو برس قبل جب اس بات کا تصور بھی نہ تھا کہ گورا اور کالا برابر ہو سکتا ہے، غلام اور آقا ایک دسترخوان پر کھانا کھا سکتے ہیں، طاقتور بھی خود کو قانون میں کٹہرے میں کھڑا کر سکتا ہے وہاں عملی طور پر واضح کر دیا گیا کہ رنگ، نسل اور زبان کسی کو استثنیٰ مہیا نہیں کرسکتے ، طاقتور سرداروں کے ہجوم میں کمزوروں کے حقوق مقرر کر دیے گئے اور سرمایہ داروں کی موجودگی میں غریبوں کے معاشی استحصال کے تمام راستے بشمول سود ٗ بند کر دیے گئے۔ خطبہ ٔحجتہ الوداع عالمی امن کے قیام کے لیے عالمِ انسانیت کی ایک مشترکہ دستاویز ہے‘ جسے سمجھنے کے لیے پیغمبر ِ امنؐ کی سیرت کی اشاعت و اطاعت ازحد ضروری ہے!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔