رویت ہلال اور وزیر محترم

رویت ہلال ایک سنجیدہ عمل ہے اسے فواد چودھری صاحب پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ اصلاح احوال درکار ہے مگر اس کے لیے لازم ہے حکومت کی صف میں کوئی معاملہ فہم ، متحمل مزاج اور معقول آدمی ہو تو سامنے آئے۔ سماج تو پکار رہا ہے: الیس منکم رجل رشید؟سائنس کو جوتے کی نوک پر نہیں رکھا جا سکتا، ایسی بات کہہ کر آپ صرف زخمی انا کی تسکین کر سکتے ہیںلیکن رویت کے معاملے میں سائنس کو اس غیر حکیمانہ انداز سے مسلط بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اعتدال ہی اصل راستہ ہے اور اعتدال یہ ہے کہ سائنس سے مدد لی جائے ، اسے نہ جوتے کی نوک پر رکھا جائے اور نہ ہی حرف آخر قرار دیا جائے۔ رویت کے باب میں سائنس کی افادیت اور اس کی محدودیت کو سمجھے بغیر رائے قائم کرنا ایک مناسب کام نہیں۔کل اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ڈاکٹر سید محمد انور اور سینیٹر نگہت مرزا تشریف لائے تو اسی موضوع پر بات چل نکلی۔ڈاکٹر محمد انور کا کہنا تھا پانچ سال کا قمری کیلنڈر بنا کر اس پر فیصلہ کرنے کی ضد کرنا ایک ایسا رویہ ہے علم کی دنیا میں جس کا کوئی اعتبار نہیں۔شمسی کیلنڈر میں بھی معاملہ یہ ہے ہر سال کچھ منٹ انسانی تقسیم کے فارمولے سے تجاوز کر جاتے ہیں اور ہر چار سال بعد ایک یا دو نہیں پورے چوبیس گھنٹے ایک سوالیہ نشان پر بن کھڑے ہو جاتے ہیں چنانچہ ہر سال کے بعد ایک لیپ کا سال بنا کر ان چوبیس گھنٹوں کو ایڈ جسٹ کیا جاتا ہے اور لیپ کے سال میں 365 کی بجائے 366 دن رکھے جاتے ہیں ۔ شمسی کیلنڈر میں اگر ہر چار سال بعد چوبیس گھنٹے اضافی نکل کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو کیا قمری کیلنڈر میں ایسا نہیں ہو گا؟ شمسی کیلنڈر کو تو آپ لیپ کے سال کے اضافی دن کی شکل میں ایڈ جسٹ کر لیتے ہیں قمری کیلنڈر کا معاملہ تو بہت پیچیدہ ہے ، یہاں تو چاند کی عمر میں چند منٹ کا فرق پڑ جائے تو پورے مہینے کی ترتیب آگے پیچھے ہو جاتی ہے۔ سینیٹر نگہت مرزا کو یاد آیا کہ جب وہ ستر کی دہائی میں سعودیہ میں قیام پزیر تھیں تو وہا ں قمری کیلنڈر ہی کی بنیاد پر عید کی جاتی تھی اور لوگوں کو پہلے سے معلوم ہوتا تھا کب عید ہو گی۔ وہ بتانے لگیں ایک شام ہم افطار کے تراویح پڑھ کے سو گئے کہ صبح آخری روزہ رکھنے کے لیے سحری میں بروقت جاگ سکیں۔ کیلنڈر کے مطابق اگلے دن تیسواں روزہ ہونا تھا ۔ لیکن اطلاعات آنے لگیں چاند نظر آ گیا ہے۔ اس وقت کنگ خالد کا دور حکومت تھا۔ انہوں نے رات گئے ٹی وی پر آکر قوم کو بتایا کیلنڈر میں غلطی تھی ، چاند نظر آ گیا ہے اس لیے صبح عید ہو گی۔سینیٹر نگہت مرزا کو آج بھی یاد ہے کنگ خالد نے اپنی قوم سے معذرت بھی کی تھی۔ چنانچہ اس عید کے بعد سے سعودی عرب میں قمری کیلنڈر سے استفادہ ضرور کیا جاتا ہے لیکن اب وہاں رویت کا باقاعدہ نظام موجود ہے۔ موزوں رویہ یہی ہے کہ سائنس سے استفادہ ضرور کیا جائے لیکن وہ رویت ہلال کے باب میں حرف آخر نہیں۔فواد چودھری صاحب کا رویہ ایسا ہے جیسے چاند کی حرکیات کو سمجھنے کا فارمولا تاریخ انسانی میں پہلی بار ان کی بصیرت کی بدولت سامنے آیا ہے اور اب وہ اس ایجاد سے دنیا کو حیران کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ وہی رویہ ہے جب ایک بچہ زندگی میں پہلی بار ہاتھی دیکھ لے تو وہ اپنی حیرانی میں سارے اہل خانہ کو شامل کرنا چاہتا ہے۔یہ پہلی بار کا آزار حکومت کو گرفت میں لے چکا اس سے نکلنے کی ضرورت ہے۔پہلی بار ہم نے یہ کر دیا ، پہلی بار ملکی تاریخ میں وہ ہو گیا۔ یوں لگتا ہے وطن عزیز میں اس حکومت سے پہلے کوئی کام ہی نہیں ہوا۔اب جو بھی ہو گا پہلی بار ہو گا۔ رویت ہلال کمیٹی اور اس کے طریق کار پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ چیئر مین رویت ہلال کمیٹی کا منصب آخر کتنے سالوں کے لیے ہے۔ ہر شعبہ زندگی میں سربراہان آتے ہیں اور ریٹائر ہو جاتے ہیں یا اپنی مدت پوری کر کے منصب سے الگ ہو جاتے ہیں۔رویت ہلال کمیٹی کی چیئر مینی کیا تاحیات منصب ہے؟اس کے اراکین کے انتخاب کا معیار ،پیمانہ اور طریق کار کیا ہے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ چاند کی رویت کا تو حکم ہے ، کیا یہ حکم بھی ہے کہ چاند کو صرف اہل مذہب میں سے کچھ بزرگ لوگ دیکھا کریں گے ؟ اس کمیٹی کے ممبران اور اس کا چیئر مین روایتی مذہبی حلقے سے لینا کیوں ضروری ہے؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن حکمت ، شائستگی اور احترام کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر۔آپ اختلاف رائے کر سکتے ہیں لیکن آپ کو کسی کی تضحیک یا تذلیل کا کوئی حق نہیں۔ ہمارے مسائل ایسے نہیں کہ حل نہ ہوں، مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں جووزراء ملے ہیں ان کی افتاد طبع میں تعمیر کا جذبہ کچھ کم ہے۔ جو کام شائستگی کے ساتھ بہت آرام سے نبٹائے جا سکتے ہیں ، اپنی شعلہ بیانی اور غیر ذمہ دارانہ رویے سے ہمارے وزرائے کرام وہی کام الجھا دیتے ہیں۔ بے بصیرتی کی یہ انتہاء ہوتی ہے کہ آپ جس کام میں ہاتھ ڈالیں اپنے رویے کی وجہ سے تنازعہ پیدا کر دیں۔ قوم کو اتفاق کی ضرورت ہے ، یہ وزراء پولرائزیشن اور نفرت کو فروغ دیے جا رہے ہیں۔ معلوم نہیں ان کی ترجیحات کیا ہیں؟ اس وقت رویت ہلال کمیٹی موجود ہے اور قانونی طور اس کے ہوتے ہوئے کوئی اور ادارہ عید کا اعلان نہیں کر سکتا۔محکمہ موسمیات کی طرح فواد چودھری یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو چاند نظر آنے کا امکان ہے لیکن وہ عید کا اعلان نہیں کر سکتے۔یہ ریاست کی مر کزیت کی نفی ہے اور غیر ذمہ داری کی انتہاء ہے۔معزز وزیر کے کیلنڈر نے اپنے تئیں یہ تو بتا دیا اگلے پانچ سال میں چاند کہاں ہو گا ، کیا اس تحقیقی کی روشنی میں قوم یہ بھی جان سکتی ہے کہ اگلے پانچ سال میں وزیر محترم خود کہاں ہو گے؟ تحریک انصاف کی مدار میں ہوں گے یا کسی نئی کہکشاں کو منور کر رہے ہوں گے؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply