عمران خان کی جیت۔۔حسان عالمگیر عباسی

فی الحقیقت پی ٹی آئی بیانیہ کامیابی سے ہم کنار ہوا، ہوتا آرہا ہے اور ہوتے رہنا ہے۔ پی ٹی آئی میں ایک اکیلا عمران خان ہی سب کچھ ہے اور سب پہ بھاری ہے۔ اسے مائینس کر دیا جائے تو پیچھے پی ڈی ایم کے سابقین ہی نظر آنے ہیں۔ اس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ ہمارے ہاں شخصیت پرستی کا عروج ہے اور فہم و فراست کا زوال ہے لہذا شخصیت پرستی یعنی شر سے فہم و فراست یعنی خیر برآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ اول خان صاحب کو مبارکباد دینی چاہیے کہ وہ اتنے مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔ اس کی سب سے بڑی قوت نوجوانان ہیں۔ اگر نوجوانان سے آپ کا واسطہ تعلق ہے تو خود تحقیق کر لیں تیس نوجوانوں میں انتیس تحریک انصاف جبکہ صرف ایک کسی اور پارٹی کا نظر آئے گا۔ بڑے بڑوں کو سنا ہے کہ نوجوانان کسی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اب لڑائی بیانیوں کی ہے۔ کس نے ملک کو کتنا دیا یہ سرے سے آج کا سوال ہی نہیں ہے۔ دھاندلی ہو گئی ہے کہنا آسان ہے لیکن وہ حوصلہ، اور استقامت اور استقلال جس سے خان صاحب لیس ہیں سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان سازشی نظریات سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ جو ہونا ہے وہ ہو گا اور وہی ہو گا جو منظور خدا ہو گا۔ رویے بہت عجیب ہیں۔ چھوٹا منہ بڑی باتیں ہیں۔ خوامخواہ کی بدمعاشی ہے۔ شکست نہ تسلیم کرنے کا رواج ہے۔ خول میں بند ہو گئے ہیں سب۔ ٹانگیں کھینچنے کی ریت ہے۔ خان صاحب پہ غصہ اپنی جگہ لیکن اس سے سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب وہ کرکٹ کی مثال دیتا ہے تو دانشمندان کہتے ہیں یہ کھلاڑی کاہے کا سیاست دان ہے۔ مان لیا آپ کے معیار کا نہیں لیکن پھر بھی آپ کو اسے دیکھنے کے لیے گردن آسمان کو موڑنا ہوتی ہے۔ اسے خدا پہ کامل یقین ہے۔ اس کے ماضی تک کو نہیں چھوڑا لیکن وہ ‘ڈٹ کے کھڑا ہے اب کپتان’ کا روشن چمکتا دمکتا ستارہ بن چکا ہے۔ اس کا اعتماد، زبان کی تیزی، سکلز، اور باڈی لینگویج ہی سب کچھ ہے۔ جو وہ کرتا ہے فیشن بن جاتا ہے۔ مختصراً آپ پہنچی ہوئی سرکار ہیں اور آپ کے مقابل چھوٹے اذہان ہیں۔ شاید اس تحریر میں مبالغے کے صیغے لگائے گئے ہیں لیکن یاد رہے کہ مزید مبالغے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا مقابلہ کرنے والے اس سے سیکھ پائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply