دُعا کا دھندہ/طاہر چوہدری

میرا دعاؤں وغیرہ پر کوئی یقین نہیں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ کسی بھی کام کے نتائج آپ کی محنت اور کوشش پر منحصر ہوتے ہیں۔ میں بطور وکیل جس کیس پر زیادہ توجہ اور محنت سے کام کروں گا میری کامیابی کے امکانات بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ میں کیس پر کام نہیں کرتا اور صرف نماز کے بعد دعا کرنے کے بعد فائل پکڑ کر جج کے سامنے جا کھڑا ہوں اس ایمان کے ساتھ کہ خدا ساتھ دے گا تو ایسا نہیں ہو گا۔ کرکٹ کے میدان کو ہی لیں۔ یہاں کھیل میں مہارت اور پریکٹس کی جیت ہوتی ہے۔ خدا، بھگوان یا جیسس میں مقابلہ نہیں۔ دعاؤں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو شاید ہر میچ پاکستان، بنگلہ دیش یا افغانستان ہی جیتے کہ ہم ایک سچے خدا کے ماننے والے اور اس سے دعائیں کرتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں زیادہ تر بھگوان اور جیسس جیت رہا ہوتا ہے۔ دعائیں کچھ نہیں کر سکتیں۔ اگر کچھ کرسکتی ہوتیں تو امریکہ  کب کا تباہ ہو چکا ہوتا۔ عالم کفر نیست و نابود ہو چکا ہوتا۔ فلسطین فلسطینیوں کو مل چکا ہوتا اور کشمیر آزاد ہو چکا ہوتا۔ کہ اپنے بچپن سے لے کر آج تک تقریباً  ہر جمعہ اور مجلس و محفل کے اختتام پر خواہشات پر مبنی یہ دعائیں میں اتنی بار سن چکا ہوں کہ فقرے من و عن ازبر ہو چکے ہیں۔ بلکہ مجھے لگتا ہے آج تک ان دعاؤں کا الٹ ہی اثر ہوا۔ دعا مانگنے والے پہلے سے زیادہ برے حالات اور جن کیخلاف کبھی رو کر اور کبھی گڑگڑا کر دعائیں مانگی گئیں وہ پہلے سے زیادہ بہتر حالت میں چلے گئے۔ میرے پیدا ہونے سے پہلے دعاوں میں اثر ہوا کرتا تھا یا دعاؤں سے کرشمے ہوئے، میں نے صرف کہانیاں سنی ہیں۔ اپنی ہوش اور عملی زندگی میں میں نے آج تک ایسی کوئی قبولیت یا دعا کا کرشمہ نہیں دیکھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے یہاں پاکستان میں “دعا” ایک باقاعدہ انڈسٹری اور بزنس ہے۔ پیر صاحبان وغیرہ کا دھندہ اسی کی بنیاد پر چلتا ہے۔ اس بزنس سے وابستہ لوگ آپ کو بہت خوشحال نظر آئیں گے۔ کم ہی ہوتے ہیں جن کا کام نہیں چلتا ورنہ یہ پاکستان کا اس وقت سب سے منافع بخش اور عزت بخش کاروبار ہے۔ اس بزنس سے وابستہ ہونے کیلئے کسی قسم کی انویسٹمنٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی بچہ کسی پیر کے گھر پیدا ہوا ہے تو اسے پہلے سے ہی اسٹیبلشڈ کاروبار ملے گا۔ برانڈ نیم۔ اس برانڈ کی چھتری تلے اس کی دعا اور تھپکی بھی اچھے داموں بکے گی۔ کوئی پیر کے گھر پیدا نہیں ہوا تو اسے بہروپ بھرنے اور پہنچے ہوئے ہونے کی کچھ محنت اور اداکاری کرنا پڑے گی۔ میں نے اس بزنس میں آنے والے لوگوں کو زیادہ تر کامیاب ہوتے ہی دیکھا ہے۔ کم ہی ایسے ہوتے ہیں جو نہ چل سکیں۔ “نگاہ مرد مومن بدل دیتی ہے تقدیریں” اور اس جیسے اشعار و اقوال ایک ڈھکوسلہ اور دعا کے اس کاروبار کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
نوابزادہ نصر اللہ خان کا ایک بڑا بہترین شعر ہے۔
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں!
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply