کتابوں کے ہمزاد۔۔مرزا یاسین بیگ

قمر جمیل واقعی ادب کا قمر تھے۔ ان کی شاعری، تنقید اور فلسفے کو سمجھنے میں کچھ اور دیر لگے گی۔ وہ اپنے عہد میں رہ کر اگلے کسی عہد کی نمائندگی کررہے تھے۔ وہ اردو ادب میں جینے والے ایک خاالص شاعر و نقاد کی مکمل تصویر تھے۔ دنیاداری سے انھیں کوئی مطلب نہ تھا۔ وہ انسانوں سے زیادہ کتابوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ جو کتاب رات کو پڑھتے دن بھر وہی کتاب ان کی ہمزاد بنی رہتی۔

کتابیں ان کیلئے افضل حیثیت رکھتی تھیں اور دنیاوی کام و انسان ثانوی۔ قمر جمیل دنیا والوں کیلئے ایک کھوئے ہوئے آدمی تھے۔ وہ ریڈیو کے سینئر پروڈیوسر تھے اور ریڈیو کے کام کو جلد از جلد نمٹاکر مفکر و شاعر بن جاتے۔ ان کا کمرہ روزانہ اس عہد کے نمایاں شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں سے بھرا رہتا۔ یہ تمام خواتین و حضرات ان کے سامنے بیٹھے حیرت سے ان کی پرمغز ادبی گفتگو سنتے رہتے۔

قمر جمیل گفتگو بھی مقررانہ انداز اور اونچی آواز میں کرتے۔ کلاسیکل انگریزی ادب کے ادیب و شعرا یا شاعری و فلسفے پر وہ پورے جذبات کے ساتھ بولتے اور ان کے زبان و بیان کی گرج پورے کمرے میں ایک میلو ڈرامہ پیدا کردیتی۔ وہ علمیت کا خزانہ تھے۔ اپنی غزلوں اور نثری نظموں کی ایسی پرورش کرتے کہ جیسے باپ اپنی اولاد کی کرتا ہے۔ میں 1983 سے 1985 تک اپنی زمانہ طالب علمی میں ریڈیو۔

پاکستان کراچی کا اسسٹنٹ کنٹریکٹ پروڈیوسر تھا اور ان کے پروگرام “بزم طلبہ” کا مددگار۔ مجھے ادیب و براڈکاسٹر بنانے میں ان کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ وہ مجھے بیٹوں کی طرح چاہتے تھے۔ ریڈیو سے لےکر ان کے گھر تک کئ سالوں تک میرا ان کا ساتھ رہا۔ ان کے گھر کے جس کمرے میں ہم بیٹھتے تھے وہاں کتابیں شیلف کے ساتھ زمین پر دور تک یوں پڑی رہتی تھیں، جیسے کتابوں کا ریلا بہہ رہا ہو۔

قمر جمیل علمیت کا سمندر تھے۔ اُس دور میں، میں نے ان جیسا علمی، ادب دیدہ شاعر و دانشور نہیں دیکھا۔ ایک زمانہ ان سے فیض اٹھاتا، شام سے رات گئے تک ان کے ساتھ چائے اور سگریٹ کے کش لگاتا اور ریڈیو کے احاطے سے باہر نکل کر بےثبات دنیا کے مناظر میں گم ہو جاتا۔ قمر جمیل کو دنیاوی چمک دمک سے کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ معصوم پرندے جیسے ایک باذوق درویش تھے۔

ان کے بےشمار معصومانہ واقعات گواہی تھے کہ ان کی پیدائش کا مقصد محض ایک کتابی شخصیت کا ظہور تھا۔ وہ ہم نوجوانوں کو ایسی نصیحتیں کرتے جس پر انھوں نے خود کبھی عمل نہیں کیا تھا۔ گویا وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ وہ پریکٹیکل شخصیت نہیں تھے۔ وہ دنیاداری کا ہر سودا خود اپنے ہاتھوں نقصان کے بھائو فروخت کردیا کرتے تھے۔

ان کی تین کتابیں شائع ہوئیں، دو شعری مجموعے خواب نما اور چہار خواب اور ایک تنقید جدید ادب کی سرحدیں، قمر جمیل کے بارے میں یہ کہے بنا رہا نہیں جاسکتا کہ وہ کراچی سے نثری نظم کی تحریک کے بانی تھے۔ انھوں نے ادیبوں اور شاعروں کی ایک پوری نسل کو تخلیق کا نیا رجحان دیا۔ اردو ادب کے علاوہ عالمی ادب پر گہری نظر رکھتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ قمر جمیل کو اردو ادب میں جو مقام ملنا چاہیئے تھا، وہ اب تک نہیں ملا۔

ایک پتھر کہ دست یار میں ہے

پھول بننے کے انتظار میں ہے

اپنی ناکامیوں پہ آخر کار

Advertisements
julia rana solicitors

مسکرانا تو اختیار میں ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply