ناقص العقل کا معمہ حل/محمود اصغر چوہدری

ابھی ابھی بنوں کے علاقے کے ان علما کی ویڈیو دیکھی ہے جس میں وہ فخریہ بتا رہے ہیں کہ انہوں نے بیالوجی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر صاحب سے اشٹام پیپر پر تحریری معافی منگوائی ہے تو جان کی خوشی ہوئی کہ پاکستان اب اس دور میں داخل ہوچکا ہے جہاں یورپ نو سو سال پہلے موجود تھا۔ اس سے امید کی ایک کرن نظر آئی ہے کہ اگلے نو سو سال بعد ہم بھی ترقی کے اس مقام تک پہنچ جائیں گے جہاں آج یورپ ہے ورنہ تو امید دم توڑ رہی تھی ۔اندازہ ہی نہیں ہو رہا تھا کہ ہمارے اور یورپ کے درمیان کتنے سال کا فرق ہے ۔ آج کم از کم یہ تو پتہ چلا کہ صرف آٹھ نوسو سال کا ہی فرق ہے کچھ زیادہ تو نہیں ہے ۔ علمائے کرام نے اسسٹنٹ پروفیسر سے تسلیم کروا یا ہے کہ عورتوں کی عقل مردوں سے کم ہوتی ہے اور اس میں یہ بھی درج کروایا ہے کہ ڈارون کا نظریہ ارتقا ء وغیرہ بھی باطل نظریات ہیں

یورپ میں نو سو سال پہلے  ایسی ہی صورت حال تھی ۔ وہاں بھی عورت کو ہر برائی کی جڑ سمجھا جاتا تھا ۔ کسی بھی افتاد کےآنے کے بعد عورت کو چڑیل سمجھ کرآگ لگا دی جاتی تھی وہاں بھی آٹھ نو سو سال پہلے سائنسی و دیگر علوم کو قابل نفرت سمجھا جاتا تھا ۔ وہاں بھی مذہبی راہنماؤں کی بالکل اسی طرح اپنی انکوئزیشن عدالتیں لگتی تھیں۔ جو ریاست سے بھی زیادہ مضبوط ہوتی تھیں ۔ ان مذہبی عدالتوں میں یہ مقدمات قائم کئے جاتے تھے کہ کس اہل دانش کے افکار یا سائنسی نظریات ان کے مذہبی نظریات سے متصادم ہیں اور پھر ان نظریات کی بناپر انہیں یا تو عمربھر کے لئے پابند سلاسل کیا جاتا، یا مار دیا جاتا یہ شہر بدر کردینے کا حکم سنایا جاتا ۔

اب امید کی کرن جاگی ہے کہ آج پاکستان بھی ڈارک ایج کے مقام پر توپہنچ گیا ہے کہ ہمارے ہاں بھی مذہبی راہنماؤں کی عدالتیں ریاست سے زیادہ طاقتور ہیں اور وہ بھی نوسوسال پرانے سسٹم کے تحت کمشنر کے دفتر میں گھس کر اپنی عدالت لگا سکتے ہیں ایک پروفیسر کو اس کے علمی و سائنسی نظریات رکھنے کی بنیاد پر نہ صرف اس پر فرد جرم عائد کرتے ہیں بلکہ اس سے تحریری معافی بھی لکھوا تے ہیں ۔اس معافی نامے میں لکھوا یا گیا ہے کہ ہماری سوچ کی شریعت کے خلاف جتنی بھی سائنسی و عقلی افکار ہیں پروفیسر صاحب لکھیں کہ وہ ان تمام کو باطل سمجھتے ہیں ۔ بشمول ڈارون کا نظریہ ارتقا ء ۔۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو باطل قرار دلوانے والوں نے وہی تاریخ دھرائی ہے جو گلیلیوسے رومن کیتھولک عدالتوں نے لکھوایا تھا ۔کہ اس کے نظریات ان کے مذہب کے خلاف ہیں ۔۔

بنوں کی تحصیل ڈومیل میں علمائے کرام نے دو ماہ قبل ڈومیل کی خواتین کو بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والی امداد کے حصول کے لئے متعلقہ دفتر جانے پر پابندی لگادی تھی اسی اثنائ میں بنوں کے ایک بائیولوجی کےاس اسسٹنٹ پروفیسر شیر علی صاحب کو ایک سمینار میں بلایا گیا تھا جس کا موضوع تھا خواتین کے اسلام اور آئین میں حقوق۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کچھ ایسی باتیں کر دی تھیں جو علمائے کرام کے نزدیک متنازع ہیں ۔مثلا ً پروفیسر صاحب نے کہہ دیا تھا کہ برقعہ یا عبایا پختون روایت سے منسلک ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ کیونکہ ترکیہ اور ملائیشیا میں خواتین اور قسم کا لباس پہنتی ہیں ۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہہ دیا کہ آئین پاکستان اور اسلام خواتین اپنی جاب یا خریداری کے لئے اکیلے باہر جا نے کی اجازت دیتا ہے ۔ مثلا ً انہوں نے بتا دیا کہ سائنسی اعتبار سے عورت بارہ سال کی عمر میں بالغ ہوجاتی ہے جبکہ مرد چودہ سال میں بالغ ہوتا ہے ۔تو سائنس یہ ظاہر کرتی ہے کہ عورت کی عقل مرد سے بھی پہلے پختہ ہوتی ہے ۔پھر انہوں نے آئین پاکستان کا حوالہ دیا کہ آرٹیکل 25 اور 26 برابری اور مساوی تحفظ کو یقینی بناتا ہے ۔ اب یہ سارے نظریات مقامی مذہبی علمائے کرام کے لئے ناقابل برداشت تھے کیونکہ ان کے خیال کے مطابق عورت ناقص العقل ہے تو انہوں نے پروفیسر شیر علی کے خلاف فتوی دینے شروع کر دئیے کہ یہ نوجوانوں کو بہکا رہا ہے ۔ پروفیسر صاحب جو پہلے ہی ایک بم دھماکے میں اپنی ٹانگ گنوا کر بال بال بچے تھے ۔انہوں نے اس میں عافیت جانی کی اپنی سائنس و شعور کا علم ایک سائیڈ پر رکھیں او ر گلیلیلو کے طرح فیصلہ وقت پر چھوڑ دیں جس سے چرچ نے کئی صدیاں بعد آکر معافی مانگی تھی ۔

علمائے کرام نے اسسٹنٹ پروفیسرشیر علی کو بنوں پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی موجودگی میں تو ریاست کے نمائندہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے اب ریاست کو ایک قدم آگے بڑھ کر ڈارون کے نظریات کو نصاب میں سے بھی نکلوانا چاہیے بلکہ ایسے تمام سائنسی و فکری تھیوریاں جو ان علمائے کرام کو مشکوک لگیں وہ بھی نکلوانے چاہئے ۔ مثلاً علمائے کرام اس بات پر شدو مد سے زور دیتے ہیں کہ زمین ساکن ہے تو سائنس میں بھی ایسی افکار جو زمین کو متحرک مانتے ہیں وہ نصاب میں سے حذف کرانے چاہیئے ۔ اسی طرح ہر بار یہ مطالبہ زور پکڑتا ہے کہ بیالوجی سے ایسی تمام تصاویر نکلوائی جائیں جو علمائے کرام کے نزدیک برہنہ ہے تاکہ ملک میں فحاشی و عریانی کا دور ختم ہواور تاکہ ترقی کا سفر زیرو سے شروع ہوسکے ۔ اور آئین میں بھی بنیادی تبدیلیاں کروانی چاہئے تاکہ ایسی تمام شقیں جن میں عورتوں اور مردوں کو مساوی رکھا گیا ہے ایسے باطل نظریات سے جان چھڑائی جائے ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ویسے میں بنوں کے ان علمائے کرام سے متفق ہوں کہ کچھ عورتوں کی عقل مردوں سے کم ہوتی ہے ۔ کیونکہ جن عورتوں نے ایسے نمونے مرد پیدا کئے ہیں جوہمیں نو سو سال پیچھے لے گئے ہیں ان کی عقل پر سوالیہ نشان تو بنتا ہے ۔ ۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply