سلیم مرزا/تحریر-پروفیسر محمد سلیم ہاشمی

سلیم مرزا کے بارے میں مَیں نے کبھی لکھا تھا یہ میرے لئے ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ لگتا ہے میری بات کچھ وائرل سی ہو گئی ہے اور اب سلیم مرزا اَن گنت لوگوں کا مسئلہ بن چکا ہے ۔ اس بات کا پتا اس کی تحریروں پر کئے گئے تبصروں سے چلتا ہے۔

ہم پاکستان قومی زبان تحریک گوجرانوالہ کے ایک اجلاس میں شرکت کرنے گئے۔ مقصد پاکستان قومی زبان تحریک کے پیغام کو گوجرانوالہ کے دانش وروں، ادیبوں، شاعروں اور اہل قلب و نظر کے سامنے پیش کرنا اور ان کو پاکستان میں قومی زبان کے نفاذ کے لئے متحرک کرنا تھا۔ یہ بنیادی مقصد تھا اور اس سے جڑا (میرے لئے) ایک اور مقصد سلیم مرزا کا دیدار کرنا، اس سے ملنا تھا۔

تقریب تو ہو گئی اور اپنے معیار کے اعتبار سے ایک یادگار تقریب تھی اور اس کے انعقاد کے لئے  انتظامیہ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

اس تقریب کے حسن انتظام کا سہرا اغا سہیل صاحب کے سر جاتا ہے جنہوں نے اس تقریب کے حسن انتظام میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ذکی مرزا صاحب کہ ایک دلنواز شخصیت ہیں ان سے ملاقات بھی ایک خوبصورت احساس کی طرح تھی۔ جناب جان کاشمیری سے پہلے بھی مل چکا ہوں، کیا غضب کے شاعر ہیں کیا خوب صورت انسان ہیں۔

اس تقریب میں جب میرے بولنے کی باری آئی تو میں نے سلیم مرزا کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک وہ دور تھا جس کے بارے میں کہا گیا کہ ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔ اب وہ وقت ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ “نہ صرف موجودہ دور بلکہ مزاح کا ہر آنے والا دور سلیم مرزا کا دور ہوگا”۔ یہ بات سن کر ہال میں موجود کچھ لوگوں نے تالیاں بجائیں تو کچھ کے ماتھے شکن آلود ہو گئے۔

ماتھوں کے شکن آلود ہونے کا مجھے اس بات سے پتا چلا کہ جب میں نے اس تقریب کی ویڈیو رپورٹ دیکھی تو مجھے اس میں سے ایسے کاٹا گیا تھا جیسے میں اس تقریب میں موجود ہی نہیں تھا۔ بہرحال میں اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ اگر میرے نام یا تصویر کی میرے نزدیک کوئی اہمیت ہوتی تو بڑا ہی آسان ہے اپنی تصویر کی ڈی پی لگا دوں۔ ہر دوسرے تیسرے دن اس کو بدلوں لوگوں کو میرے نام یا کام سے زیادہ میری شکل یاد ہو جائے گی۔

واپسی پر محترم جمیل بھٹی صاحب نے جو بذات خود ایک بہت بڑے دانش ور، ادیب، شاعر اور مزاح نگار ہیں۔ اردو ادب میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ مجھ سے پوچھا کہ ہاشمی صاحب اپ نے سلیم مرزا کے بارے میں اتنی بڑی بات اتنے آرام سے کیسے کہہ دی۔ میں نے ان سے پوچھا کیا آپ نے سلیم مرزا کو پڑھا ہے، انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ میں نے بتایا میں نے پڑھا ہے اور میں نے نہ صرف سلیم مرزا کو پڑھا ہے بلکہ غالب، اکبر الہ آبادی، اقبال، مرزا فرحت اللہ بیگ، شوکت تھانوی، چراغ حسن حسرت، سعید لخت، ابن صفی، پطرس بخاری، شفیق الرحمٰن، عطاء الحق قاسمی، ڈاکٹر یونس بٹ، کرنل محمد خان، سید محمد جعفری، سید ضمیر جعفری، صوفی تبسم، انور مسعود، سرفراز شاہد، انعام الحق جاوید، زاہد فخری، نذیر احمد شیخ، ابن انشا، مشتاق احمد یوسفی، اشفاق حسین، گل نو خیز اختر، فخرالدین کیفی، سید عارف مصطفیٰ، رضیہ فصیح احمد، عزیز نے سن، مارک ٹوین، سٹیفن لی کاک، آرٹ بکوالڈ ان سب کو اور کئی دیگر کو پڑھا ہے، کئی بار پڑھا ہے۔ طنز و ظرافت کا جو معیار سلیم مرزا کے ہاں نظر آتا ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتا۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب اردو مزاح کا سب سے بڑا نام ہیں مگر ان کے مزاح سے حظ اٹھانے کے لئے آدمی کی ایک خاص علمی قابلیت، زبان پر عبور اور اس ماحول سے شناسائی ضروری ہے جس کی ان کی تحریروں میں عکاسی کی گئی ہوتی ہے۔ میں نے کئی بظاہر لکھے پڑھے لوگوں کو ان کی تحریر سے بیزار اور اکتایا ہوا دیکھا ہے۔

گوجرانوالہ کے ہی ایک اور مزاح نگار ہیں۔ انہوں نے لگ بھگ 35 برس پہلے ایک مزاحیہ تحریر لکھی تھی، آج تک اس کی فوٹو کاپیاں کچھ فقرے آگے پیچھے کر کے، کچھ منظر اوپر نیچے کر کے چلا رہے ہیں، بڑے مزاح نگار جانے جاتے ہیں۔ کسی کسی کے دامن سے پھکڑ پن اور ابتذال نکال دیا جائے تو کچھ نہیں بچتا۔ بہر حال میرا مقصد کسی کا کسی سے موازنہ نہیں ہے صرف اپنے خیالات کو آپ تک پہنچانا ہے۔

سلیم مرزا کے ہاں سطر سطر میں بلکہ اکثر اوقات ایک ایک لفظ میں ذہانت اور ظرافت یکجا نظر آتی ہے، بہاؤ ایسا کہ دنیا کی بہترین شاعری جیسا۔ تحریر کے دوران آدمی اس میں ایسا کھو جاتا ہے کہ تحریر جتنی بھی طویل ہو اس کے اختصار کا شکوہ خود بخود لبوں پر  آجاتا ہے۔ ہر سطر میں انسان ایک نئی دنیا میں چلا جاتا ہے، کسی نے کہا سلیم مرزا کی تحریر کی آخری سطر ہٹا دی جائے کہ آدمی اس میں کھو جاتا ہے، باقی تحریر پر نظر نہیں رہتی۔ جواب ملا پھر اس کے بعد والی سطر آخری ہوگی، وہ مٹاؤ گے تو اس سے پہلی سطر آخری ہوگی۔ آدمی کیا ساری تحریر ہی مٹا ڈالے۔
ایک بہت بڑی بات یہ کہ ابتذال اور پھکڑ پن سے بچے ہوئے ہیں۔ شاید ہی کبھی کوئی ایسی بات لکھی ہو جو معاشرتی یا اخلاقی معیار سے معیوب سمجھی جائے۔

بھابھی صاحبہ نے لکھا سلیم مرزا پیاز کی طرح ہے تہہ در تہہ۔ ان کا تو جو بھی مقصد ہو یہ میاں بیوی کی بات ہے میں جانتا ہوں سلیم مرزا تہہ در تہہ ہے۔ ہر تہہ پہلے سے زیادہ دل نشین، دل گداز، خوب صورت، جاں گزیں، سراپا حسن۔

سلیم مرزا تحریر کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ یہ اس عہد کی تصویر کشی کرتی ہے، مہنگائی، بد امنی، بے چینی، بد انتظامی، بد عنوانی سڑکیں، راستے، دوستیاں، چنگچیاں، ان میں بیٹھے لوگ، ماضی، حال، مستقبل۔ جب آنے والے دور میں کوئی موجودہ دور کی سچی تصویر دیکھنا چاہے گا تو اس کے لئے سلیم مرزا کی تحریریں ایک رہنما کا کام کریں گی۔ اگر فیس بک پر کوئی سلیم مرزا کو نہیں جانتا تو اس کی دیوار پر جائے، ایک بار جائے واپسی نہیں ہوگی۔ آج تک میں نے سلیم مرزا کے سحر سے کسی کو آزاد ہوتے نہیں دیکھا، وہاں جانے کا راستہ تو ہے واپسی کا راستہ کوئی نہیں۔
جان لو اور میرا لکھا یاد رکھو، تم اس پر فخر کرو گے۔
“سلیم مرزا موجودہ دور کا اور ہر آنے والے دور کا سب سے بڑا مزاح نگار ہے”۔

سلیم مرزا آج پھر نعرہ لگانے کو دل کر رہا ہے،

Advertisements
julia rana solicitors london

“سلیم مرزا مجھے تم سے محبت ہے”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply