ہالووین/ناصر خان ناصر

موسم سرما کی آمد کے ساتھ ساتھ امریکہ و یورپ کے بازاروں میں طرح بہ طرح کے کاسٹیومز، کینڈیاں، مٹھائیاں اور پمپکنز یعنی پیٹھے بھاری تعداد میں بکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کئی  اسٹور تو اپنا سارا گیٹ اپ ہی خزاں کے رنگوں رنگا ماحول بنا کر مکمل طور تبدیل کر دیتے ہیں۔ ہر طرف رنگ برنگے پتے اور عجیب و غریب رنگت، شیپ، جسامت اور سائز لیے پیٹھے پڑے نظر آتے ہیں۔ یہاں کے چرچ اپنے سبز گھاس سے بھرے لان میں جگہ بہ جگہ پیٹھے سجا کر ان کی نیلامی سے فنڈ ریزنگ بھی کرتے ہیں۔ چھوٹے  بچوں کو ماں باپ پیار سے پمپکن کہہ کر پکارتے ہیں اور پمپکن پسند کرنے اور ان کی خریداری کے لیے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ پرائمری اسکولوں میں پمپکن کی تصویریں بنا کر انھیں رنگ کرنا سکھایا جاتا ہے۔ ہالوین کی شام تو ہر طرف بچوں کا میلہ لگ جاتا ہے۔ وہ ٹولیاں بنا کر گھر گھر جاتے ہیں۔ گھروں کے دروازوں پر لوگ مٹھائیوں، کینڈیوں اور دیگر تحائف کی ٹوکریاں بھر کر بیٹھ جاتے ہیں اور ” ٹرک یا ٹریٹ” کے لیے آنے والے بچوں کو مسکرا مسکرا کر یہ چیزیں دیتے رہے ہیں۔ جو گھرانہ کینڈیاں بانٹ رہا ہو، اس کے گھر کی ساری لائٹیں بچوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے جلا دی جاتی ہیں۔ لوگ گھروں میں یا دوسری جگہوں پر “ہاؤنٹڈ ہاؤس ” یعنی “آسیب زدہ گھر” بناتے ہیں جہاں لوگوں سے ٹکٹ بیج کر انھیں ڈرایا جاتا ہے۔ لوگ ڈرانے والے روپ میں نقلی ہتھوڑے، چاقو چھریاں یا چلتے ہوئے نقلی آرے لے کر ان کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اندھیرے کی بھول بھلیوں میں خوب زور زور کی آوازیں نکال کر لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اور خوب پیسے بٹورے جاتے ہیں۔

ویت نام، کمبوڈیا، تھائی  لینڈ اور مشرق کے دیگر کئی  علاقوں میں بے حد مزے دار پمپکن سوپ بنایا جاتا ہے۔ اس سوپ کو ان ممالک کی تقریبا ً قومی ڈش ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ گھر گھر بنائے اور پیے  جاتے ہیں۔

کیونکہ پیٹھے کے چھلکے سخت ہوتے ہیں اور انھیں کاٹنا یا چھیلنا خاصہ دشوار ہوتا ہے، ان ممالک کے سیانے لوگ اس بڑے پیٹھے کے صرف دو ٹکٹرے کر کے انھیں بڑے سے برتن میں پانی میں ڈال کر ابال لیتے ہیں یا اوون میں بھون لیتے ہیں۔ نرم ہونے پر اس کا گودا اندر سے کھرچ لیا جاتا ہے۔ اب بھلے آپ اس سے سوپ بنائیں یا حلوہ، سالن یا کوئی  اور ڈش۔

پیٹھے کے بیج بہت مزے دار ذائقے والے اور نہایت طاقتور ہوتے ہیں۔ انھیں مردانہ طاقت میں اضافے کے لیے کھایا جاتا ہے۔ چینی، تھائی اور ویٹ نامی کلچر میں پمپکن کو بہت مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اسے سمائلنگ بدھا کے سر یا پیٹ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ بدھ ٹیمپلز میں ہمیشہ آپ کو بدھ کے مجسموں کے قدموں میں یا قربان گاہ پر پمپکن ضرور دھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ان بدھ ٹیمپلز اور بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے عام لوگوں کے گھروں میں بھی پمپکن شیپ کی لالٹین کو خیر و برکت کے لیے لٹکانے کا رواج عام ہے۔ یہی رواج یورپ کے پرانے پیگن لوگوں میں بھی شاید اسی بنا پر شروع ہوا تھا۔ ہالووین جو کہ ایک پیگن تہوار ہے میں خیر و برکت کے لیے اور جنوں، بھوتوں پریتوں اور چڑیلوں کو اپنے گھروں سے دور بھگانے کے لیے کسی پمپکن میں چہرہ تراش کر اس کے اندر شمع جلا کر رکھی جاتی ہے۔ یہ تہوار اب بطور ثقافتی تہوار امریکہ، کینیڈا اور یورپ بھر میں موسم خزاں کے عروج یا موسم سرما کے آغاز پر ایک خاص دن کو منایا جاتا ہے۔ اب اسے خالصتاً  بچوں کا تہوار سمجھا جاتا ہے۔ بچے اس دن طرح طرح کے کاسٹیومز اور ماسک پہن کر گھر گھر جاتے ہیں جہاں ان کو مٹھیاں بھر بھر کر کینڈیاں، مٹھائیاں اور چھوٹے چھوٹے کھلونے بطور تحفہ دیے جاتے ہیں۔ اسے “ٹرک آر ٹریٹ” کہتے ہیں۔ بچے اس تہوار کے لیے سارا سال انتظار کرتے ہیں اور نہایت دھوم دھام سے اس کے لیے تیاری کی جاتی ہے۔

اب مذہبی لحاظ سے اس تہوار کی بالکل کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس تہوار سے اکنانومی اور ملکی معشیت کے علاوہ چھوٹے بزنس مینوں، کاشتکاروں اور عام لوگوں کو بھی بہت زبردست فائدہ ہوتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں کی کینڈیاں، مٹھائیاں، کھلونے، کاسٹیومیز، پمپکنز اور دیگر پراڈکٹس بک جاتے ہیں۔ حکومت کو ٹیکس کہ مد میں بہت رقم ملتی ہے، پیسہ گردش کرتا ہے اور معیشت کا جام پہیہ فعال ہو کر پھر سے چل پڑتا ہے۔

بھارت اور پاکستان میں پیٹھے کو چونے کے پانی میں رکھ کر اور بالکل شفاف بنا کر مختلف رنگوں میں رنگ کر پیٹھے کی مٹھائی  بنتی ہے جو خاصی مزیدار اور آسان بنتی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں جب بھی مٹھائی کی دوکانوں سے مکس مٹھائی لینے جاتے تھے تو حلوائی ڈبے میں برفی، گلاب جامن، رس گلے، قلاقند، جلیبی وغیرہ کے ہمراہ بہت ساری پیٹھے کی مٹھائی ضرور بھر دیا کرتے تھے۔ ایک تو پیٹھے کی مٹھائی رس سے بھری ہوئی اور بھاری ہوتی ہے، دوسرا سستی اور آسان بنتی ہے۔ ہمیں یہ مٹھائی کم پسند تھی۔ ڈبے سے ساری مٹھائیاں کھا لینے کے بعد ہی اسے مجبورا کتر کتر کر کھایا جاتا تھا۔

برصغیر پاک و ہند میں پیٹھے کا حلوہ بھی ذوق و شوق سے بنایا جاتا ہے۔ یہ حلوہ بڑی کاوشوں اور مشکلوں سے تقریبا ً سارہ دن ہی چولہے پر کھڑا رہ کر اور مسلسل چمچ ہلا ہلا کر ہی بنایا جاتا ہے۔ ہماری والدہ محترمہ بھی اسے بنایا کرتی تھیں اور چمچ کو ہلانے کی ڈیوٹی باری باری گھر کے سارے بچوں کو دی جاتی تھی۔ اس حلوے میں پیٹھے کو چھیل کر، اس کے چھوٹے ٹکڑے کر کے اسے پہلے تھوڑے سے گھی میں بغیر کوئی  پانی ڈالے کور لگا کر ہلکی آنچ پر بھونا جاتا ہے۔ اس سے یہ پیٹھا خود اپنا ہی عرق یا پانی چھوڑ دیتا ہے اور اسی میں پکتا ہے۔ پھر اس میں دودھ اور کنستر بھر کر گھی ڈالا جاتا ہے۔ پیٹھے کو مسلسل بھونتے اور چمچ ہلا ہلا کر پانی کو خشک کرتے رہتے ہیں۔ اسے ساتھ ساتھ زور لگا کر میش بھی کرتے جاتے ہیں۔ یہ حلوہ شروع میں سارا گھی پی لیتا ہے۔ چینی، بادام اور دیگر میوہ جات بالکل آخر میں تب ڈالے جاتے ہیں جب یہ حلوہ پک کر سارا گھی چھوڑ دیتا ہے۔ پیٹھے کا حلوہ بنانا کدو یا گاجروں کے حلوے سے زیادہ دشوار اور محنت طلب ہوتا ہے۔ یہ مزے دار حلوہ دل و دماغ کے لیے مقوی بھی سمجھا جاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply