لوٹ آنے کو پَر تولے/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’ سے
 ریاستہائے متحدہ امریکہ جو میرے لیے نیویارک شہر اور اس کے مضافات، ملحقہ ریاستوں نیو جرسی اور میساچیوسٹس کے قرب و جوار تک محدود تھی، نہ تو دلفریب تھی نہ ہی دلکش۔ البتہ یہ ضرور تھا کہ امریکہ کی سیاسی فضا روس کی نسبت کہیں آزادانہ لگتی تھی مگر اس میں گورے اور دیسی کے دھبے کھٹکتے تھے۔ خزاں اپنے کئی رنگوں کے ساتھ بہت جاذب نظر تھی۔ پھر وہاں کے کچھ مخصوص جانور جو راتوں کو سڑکوں پر آزادانہ گھومتے تھے مختلف طرح کے تھے۔

راتوں کو پہاڑی سڑکوں کے کناروں کی ہریالی میں مختلف طرح کی ہرنوں کی جلدیں گاڑیوں کی روشنیوں میں چمکتی تھیں جبکہ دن کے وقت اس سادہ لوح جانور کے تنومند لاشے سڑکوں پر بے سدھ لیٹے ہوئے تکلیف دہ بھی لگتے اور حسین بھی۔ امریکہ میں ہرنوں، قازوں اور مرغابیوں کو شکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں ہرن ہی وہ چوپایہ ہے جو بغیر سوچے سمجھے سڑک عبور کرنے کی کوشش میں مارا جاتا ہے۔ آپ کا لاکھ دل کرتا ہو کہ ہرن کا گوشت چکھا جائے لیکن آپ اسے گاڑی مار کر زخمی کرکے بھی ذبح نہیں کر سکتے، جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔

ایسا بھی نہیں کہ امریکی کام سے کام رکھنے والے لوگ ہیں یا ان میں انسانیت نام کو نہیں اور وہ حد درجہ مادہ پرست ہیں۔ آخر وہ بھی انسان ہیں اور بہت حد تک متمدن بھی اگرچہ ان میں سے بیشتر کو تہذیب قریب سے بھی چھو کر نہیں گذری۔ ریستورانوں میں بیٹھے ہوئے زور دار آواز سے ڈکار لینے تاحتٰی اسی طرح آواز کے ساتھ مقعد سے ہوا خارج کرنے کو وہ معیوب خیال نہیں کرتے۔ ویسے ہی جیسے ایک بار میں پاکستان میں ایک رانگڑ دوست ڈاکٹر کے ہاں شب بسری کے لیے ٹک گیا تھا۔ ڈاکٹر موصوف بھی کمپنی دینے کے لیے اسی کمرے میں محو استراحت ہو گئے تھے جس میں میرا بستر تھا کہ انہوں نے امریکی حرکت کر ڈالی تھی۔ مجھے اس بدتہذیبی سے بہت جھنجھلاہٹ ہوئی تھی، میں یہ کہنے سے نہیں چوکا تھا،”یار تم تو ڈاکٹر ہو، یہ کیا بدتمیزی کا مظاہرہ کیا ہے تم نے” اس پر رانگڑ ڈاکٹر بولا تھا،” بھائی میں کیوں روکوں، میرے باپ دادا نے روکا تھا جو میں روکوں”۔

امریکی بلا معاوضہ بھی مدد کرتے ہیں مگر خدمات معاوضے کے بغیر نہیں ہوتیں۔ ایک بار میں سہیل کے ساتھ اس کی گاڑی میں نیویارک شہر سے واپنجر فالز کی جانب آ رہا تھا۔ شدید برفباری سے سڑکیں بند ہونے کو تھیں۔ سہیل کی گاڑی برف میں بری طرح پھنس گئی تھی۔ ریس دینے سے یا عقبی گیئر لگانے سے معاملہ مزید بگڑ جاتا تھا۔ سڑک کے دوسری جانب سے دو ایک لوگوں نے گاڑیاں روکی تھیں، گاڑیوں سے نکل کر صورت حالات دیکھی تھی اور پھر موبائل فون پر مدد کے لیے کسی کو اطلاع کی تھی۔ اس کے بعد ہاتھوں کا بھونپو بنا کر زور سے آواز دے کر بتایا تھا کہ پریشان نہ ہوں اور گاڑی نکالنے کی تگ و دو بھی نہ کریں کہیں بیٹری جواب دے جائے، ہم نے مدد کے لیے فون کر دیے ہیں۔ سہیل نے ان کا شکریہ ادا کیا تھا۔ یہ ان کی مہربانی تھی کیونکہ نہ تو سہیل کے پاس موبائل فون تھا اور نہ ہی میرے پاس۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد گاڑی کھینچ کر نکالنے والا ٹرک پہنچا تھا۔ ٹرک کچھ فاصلے پر رک گیا تھا۔ ڈرائیور نے دروازہ کھول کر پہلا سوال کیا تھا،” کیا آپ کے پاس ادائیگی کے لیے پیسے ہیں” سہیل نے نفی میں جواب دیا تھا۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا آپ کے پاس کریڈٹ کارڈ ہے، جس کا سہیل نے جواب اثبات میں دیا تھا۔ ٹرک والا ٹرک کو نزدیک لے آیا تھا اور ایک منٹ میں گاڑی کو کھینچ کر صاف سڑک پر کھڑا کر دیا تھا۔ کریڈٹ کارڈ سے اسی ڈالر منہا کیے تھے اور چلا گیا تھا۔ میں نے سہیل سے پوچھا تھا کہ اگر کریڈٹ کارڈ نہ ہوتا تو کیا مددگار ٹرک والا چلا جاتا، جس کے جواب میں اس نے کہا تھا،” تو اور کیا بالکل واپس چلا جاتا”۔

لیکن عام لوگ ماسوائے نقلی مسکراہٹیں مسکرانے کے دوستی بڑھانے کی جانب راغب نہیں ہوتے۔ کام سے کام رکھتے ہیں۔ دنیا سے متعلق ان کی معلومات عموما~  ناقص ہوتی ہیں۔ تب تک بہت زیادہ امریکیوں کو پتہ تک نہیں تھا کہ پاکستان کہاں واقع ہے اور آیا اس نام کا کوئی ملک ہے بھی یا نہیں۔ اس سارے ماحول میں مجھے لگتا تھا کہ میں نے امریکہ آ کر کے غلطی کی ہے۔ مجھے ڈاکٹر سعید باجوہ کی کہی بات اکثر یاد آتی تھی کہ امریکہ ان لوگوں کے لیے بہت اچھا ہے جن کے پاس مناسب روزگار ہے اور ان کے لیے بہت برا جن کو روزگار میسّر نہیں آتا۔ ویسے تو یہ بات دنیا کے سارے ملکوں کے بڑے شہروں سے متعلق درست ہے۔ اپنے ملک میں ہر شہر میں آپ کو کوئی نہ کوئی شناسا مل ہی جاتا ہے یا شناسا بن جاتا ہے۔ مجبوری میں دوچار روز کہیں ٹکنے کا بندوبست بھی ہو جاتا ہے اور کھانا بھی روکھا سوکھا ہی سہی مل جاتا ہے لیکن دیار غیر میں اپنے بھی اپنے بننے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ وہ بے اعتنائی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہوتے بلکہ وہاں کے معروضی حالات ہی ایسے ہوتے ہیں۔ گھر بڑے نہیں ہوتے چنانچہ مہمان کو زیادہ دیر ٹہرانا مشکل ہوتا ہے۔ ہر ایک کو کام کرنا پڑتا ہے یوں لوگ خواہ مخواہ کمپنی دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ کوئی گھر پر پڑا روٹیاں توڑتا رہے، مشقت کرنے والے میزبانوں کو یہ بھی اچھا نہیں لگتا۔ البتہ مجھے اپنے میزبانوں کا ماموں اور چچا ہونے کا فائدہ تھا کہ میں بنا کام کیے رہے ہی چلا جا رہا تھا بلکہ میزبان مجھے جانے نہیں دے رہے تھے۔

میں نے سعد کے مشورے پر چھ ماہ کی انٹری تمام ہونے سے ایک ماہ پہلے ویزا بڑھانے کی درخواست دے دی تھی۔ جب تک ویزا نہ بڑھائے جانے کا جواب موصول ہوا تب ویسے ہی مجھے امریکہ آئے نو ماہ ہو چکے تھے۔ یہ میرے لیے امریکی اداروں کی کارکردگی کا ناقص ترین تجربہ تھا۔ میں کسی بھی ملک میں غیر قانونی قیام کے حق میں نہیں چنانچہ میں نے حتمی طور پر روس واپس جانے کا اعلان کر دیا تھا۔ سعد نے لاکھ کہا کہ امریکہ میں بہت زیادہ لوگ شروع شروع میں غیر قانونی طور پر ہی رہتے ہیں مگر میں نہیں مانا تھا۔ میرے پاس پیسے بھی نہیں تھے اور میں بھانجوں سے مانگتے ہوئے بھی خجالت محسوس کرتا تھا۔ اسی اثناء میں سعد اور سہیل کے والد صاحب یعنی میرے بہنوئی اور ماموں زاد محمد ظفیر ندوی کے شدید مریض ہونے کی اطلاع ملی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امریکہ میں چونکہ بیشتر لوگوں کو خوشحالی کا گمان ہوتا ہے۔ اخراجات اکثر کریڈٹ کارڈوں کی مدد سے اٹھائے جاتے ہیں، جس قرضے کو بمع سود کے ادا کرنا ہوتا ہے۔ قرض اور سود کے اس نظام سے شاید ہی کوئی ہو جو بچ پاتا ہو۔ ایسے میں جب میزبان بھائیوں کے والد صاحب شدید علیل تھے، کسی کو بھی پاکستان جانا پڑ سکتا تھا اس لیے میں نے اپنے جانے سے متعلق چپ اختیار کرنے کو مناسب جانا تھا۔ کبھی ان کے والد کی طبیعت بہتر ہو جانے کی اطلاع ملتی اور کبھی خراب ہو جانے کی۔ امریکہ سے کام چھوڑ کر نکلنا بھی کوئی آسان نہیں ہوتا۔ مہنگے ٹکٹ کے علاوہ اس کمائی کا بھی نقصان ہوتا ہے جو کام کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ دونوں بھائی جانے سے متعلق ڈھلمل یقینی کا شکار رہے تھے۔ میرے زور دینے پر بالآخر سعد نے جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ نذہت نے تحفوں سے بھرے ہوئے کوئی تین بڑے بڑے سوٹ کیس اس بیچارے کے ہمراہ کر دیے تھے۔ لان میں ترازو رکھی گئی تھی تاکہ سوٹ کیسوں کا وزن کیا جا سکے۔ یہ جھاڑ جھنکار لے جانے کو سعد کا بالکل جی نہیں کر رہا تھا کیونکہ وہ بیمار والد کی عیادت کی خاطر جا رہا تھا مگر نذہت کا کہا نہیں موڑ سکتا تھا کیونکہ نذہت کا موقف یہ تھا کہ کونسا اکثر پاکستان جانا ہوتا ہے۔ جب جانے کا موقع ملے تو جو لے جا سکتے ہو لے جاؤ۔ سعد سوٹ کیسوں سے لدا پاکستان روانہ ہو گیا تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply