متاثر ہونے اور نقل کرنے میں فرق۔۔۔اسرار احمد

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ پچھلے دنوں یوٹیوب پاکستان میں ایک ہنگامہ بپا رہا۔۔۔

پہلے ایک دوسرے پر تخلیقی مواد کی چوری سمیت ذاتی نوعیت کے الزامات لگائے گئے پھر جب بات ہاتھا پائی تک پہنچی تو سب نے دیکھا کہ معاملات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں تو  اس کے بعد معافیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔۔جب یہ چیزیں ٹرینڈنگ میں  گئیں  تو ہمیشہ کی طرح ہر چھوٹے بڑے یوٹیوبر نے اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اور  دیوانے عبداللہ کی طرح اس معاملے میں کود پڑے۔ یوں سب نے خوب ویوز اور سبسکرائبرز حاصل کیے۔ان سارے واقعات میں جو ایک سبق ملا کہ کبھی بھی تصویر کا ایک رخ دیکھ کر کسی چیز کے بارے میں رائے قائم نہیں کرنی  چاہیے۔

اور ان  معاملات میں جو اہم مسئلہ  سامنے آیا وہ تخلیقی مواد کی چوری کا ہے،اسے سوشل میڈیا کا سب سے بڑا مسئلہ بھی کہا جاسکتا ہے۔تفریحی ویڈیوز کے ساتھ ساتھ تحریروں کی چوری بھی آج کل عام ہو چکی ہے ،کوئی بھی تحریر پسند آئی  اسے کاپی کیا  اور اپنے نام سے پبلش کردیا،کوئی پوچھنے والا نہیں یہی حال دیگر شعبوں کا ہے۔

یہ تو ٹھہری چوری کی بات اور اکثر اوقات ایسا کرنے والا پکڑا بھی جاتا ہے لیکن  سب سے بڑا مسئلہ نقالی کا ہے اور اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔۔اگر ہم  مختلف  ٹی وی چینل    پر نظر دوڑائیں تو اکثر  پروگرام ایک دوسرے  کی مکمل  کاپی ہیں جیسا کہ 2009 میں آفتاب اقبال نے حسب حال شروع کیا جو کہ خوب کامیاب ہوا , پروگرام کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے  تمام ٹی وی چینلز نے اسی فارمیٹ کے مطابق پروگرام شروع کر دیے،جس میں سے کچھ ناکام ہوئے کچھ آج بھی چل رہے ہیں۔۔سب سے بڑی مثال رمضان ٹرانسمیشن کی ہے عامر لیاقت نے جب اس میں گیم شو متعارف کرایا تو لوگوں کے لیے یہ ایک نئی چیز تھی جسے خوب پسند کیا گیا اور کچھ معاملات پر تنقید بھی ہوئی لیکن اس نے پوری دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔۔بس پھر کیا تھا انٹرٹینمنٹ چینلز سے لیکر نیوز چینل تک سب نے  ایک د و  میزبان بٹھائے،سیٹ پر چار پانچ موٹر سائیکل اور ایک دو گاڑیاں کھڑی کیں  اور  اپنا پروگرام شروع کر دیا۔اب تو یہ حالت ہوچکی ہے کہ  رمضان کے دنوں میں  آپ کوئی  بھی ٹی وی چینل لگا لیں ایسا لگے گا کہ پروگرام سب پر ایک ہی ہے بس  میزبان  تبدیل ہیں۔۔بچوں والا سیگمنٹ،سوال و جواب،بیت بازی،مچھلیاں،پرندے اور ہر جگہ صدر عالی وقار کی صدائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہی حال ڈرامہ انڈسٹری کا ہے ایک موضوع پر ڈرامہ کامیاب ہوا نہیں کہ سب نے اسی پر ڈرامے بنانا شروع کر دیے یہی وجہ ہے کہ آپ کوئی بھی ڈرامہ دیکھو ایسا لگتا ہے کہ یہ پہلے دیکھا ہوا ہے۔اسی لیے ڈرامہ سیریل رانجھا رانجھا کردی کی کامیابی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اب ہر ڈرامے میں بھولے دکھائی دیں گے کیونکہ ابھی تک  تو یہی دستور  چل رہا ہے۔یہ بات درست ہے کہ ٹرینڈنگ میں چلنے والی چیزوں کے مطابق پروگرام پیش کرنا ہر ٹی وی چینل کے لیے ضروری ہوتا ہے کسی سے انسپائر  ہونے اور آئیڈیاز لینے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن اس میں کچھ تو نیا ہو، کچھ اپنی چیزیں بھی شامل ہوں نا کہ پورا پروگرام ہی  دوسرے کا اٹھا لیا جائے۔۔۔اس کی مثال عامر لیاقت ہیں انہوں نے گیم شو کا آئیڈیا طارق عزیز سے لیا اور کئی مرتبہ ان کو اس کا کریڈٹ بھی دیا لیکن اس میں انہوں نے بہت سیگمنٹ ایسے شروع کیے جو بالکل نئے تھے۔اسی لیے بہت سے معاملات میں عامر لیاقت پر تنقید بجا لیکن یہ بات ماننا پڑے گی کہ  انہوں نے ہمیشہ ایسا کام کیا کہ دوسرے ان کی تقلید پر مجبور ہوگئے۔۔اسی لیے کسی سے انسپائر ہونا بری بات نہیں لیکن اگر اس میں تھوڑی سی محنت کر لی جائے تو ایسی چیزیں وجود میں آتی ہیں جو کہ پرانی سے بھی کئی درجے بہتر ہوتی ہیں۔لیکن ہمارا معاشرہ بے انتہا ذہانت کے باوجود بھی دنیا سے بہت پیچھے ہے کیونکہ ہم اپنے کام کو بہتر بنانے   کی بجائے دوسروں کے کام پر نظر رکھتے ہیں۔ 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply