خوشحال ریلوے اک خواب یا سراب۔۔محمد سعید

ملک میں جاری معاشی عدم استحکام کے بد اثرات اپنی جگہ لیکن مجھے لگتا ہے کچھ حادثات و واقعات جب تک نہ  ہوں،ہم بحیثیت مجموعی تمام تر ممکنہ وسائل اور اختیارات ہونے کے باوجود مسائل کے حل کرنے میں پہلو تہی کرتے ہیں۔

اگرچہ یہ بات میں پچیس مارچ کے لاک ڈاؤن سے پہلے نجانے کتنی بار ذمہ دار احباب سے کرچکا ہوں لیکن اوپر سے لیکر نچلے لیول کی سطح تک چونکہ ہم مجبور محض ہوتے ہیں اس لئے مسائل کو پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ حل نہیں کر پاتے۔

شیخ رشید صاحب کے وزارت سنبھالنے سے لیکر لاک ڈاؤن کی تاریخ تک مجموعی طور پر شیخ صاحب نے ریلوے کے سسٹم میں جتنی بھی نئی ٹرینز کا اجراء کیا ان میں سے محض چند ایک کو چھوڑ کر سب کی سب ریلوے کے مالی خسارے میں بلا مبالغہ کم از کم ایک کروڑروپے روزانہ  کا سبب بن رہیں تھیں۔

شیخ رشید صاحب کو بذاتِ خود اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ ایک سو بیس روپے ڈیزل سے اوپر کے ریٹ پر پسنجر ٹرین کسی بھی صورت منافع بخش ثابت نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کے ساتھ ساتھ دگنی تعداد اور استعداد کے موافق مال گاڑی نہ چلائی جائے۔
اپنے دفاع میں وہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے تھے کہ دنیا بھر میں پسنجر ٹرینز عوامی فلاح کے لئے ہی چلائی جاتی ہیں۔

اصل مسئلہ محکمے کی معاشی بگڑتی ہوئی صورتحال نہیں بلکہ سیاسی مخالفین کے سامنے سیاسی ساکھ کے متاثر ہونے کا تھا۔اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کی خاطر محکمہ کے مالی مفادات کو بہرحال بے دردی سے قربان کیا جاتا رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کرونا کے لاک ڈاؤن کے سبب درپردہ قدرت نے شیخ رشید صاحب کو کم از کم سنبھلنے کا ایک موقع ضرور دیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اعدادوشمار کے ہیر پھیر میں الجھنے کی بجائے ازسرِنو ریلوے کے مالی معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرین آپریشن بحال کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply