ادھورے خوابوں کا بوجھ۔۔ہمایوں احتشام

 میں خاموش کھڑا تھا، بالکل ساکت اور جامد۔ میں اس ہارے ہوئے جواری کی مانند تھا جس نے اپنا آشیانہ تک داؤ  پہ لگا دیا، اور سب کچھ لوٹا کر  اب فٹ پاتھ پہ بلا حرکت بیٹھا، خیالوں میں گم ہو۔ میرے خیالوں میں مولویوں نے جنت کا خیال ایسا پیوست کیا کہ میں بس اسی کے تصورات میں محو رہتا ہوں، میرے نزدیک اس کی ہریالی دیکھنا، اس کی خوشبو سونگھنا، ایک البیلی حور کے تصور کو سوچنا اور اسے محسوس کرنا ہی اعلی و ارفع تخیل کی تکمیل تھا۔

احباب کا زور تھا کہ ایک زہرہ مثل دوشیزہ شہر میں محبان کے دلوں کی دھڑکن بنی ہوئی ہے، اسے دیکھنا ہی تیرے تخیل کی تکمیل کردے گا۔

میں یاروں سے الجھ پڑا کہ بھلا ایسا ممکن بھی ہے کہ میرا اچھوتا اور مابعد الطبعیات تخیل بھی وجود رکھتا ہو؟

یاروں نے بتایا کہ دوشیزہ کی ناگن جیسی بل کھاتی زلفیں، پہاڑ پہ اگی زامران کی بیلوں کی مانند ہیں ، اور ان کی سیاہی ہیرے کی خام حالت سے بھی ہزاروں گنا زیادہ ہے، دوشیزہ کے لب بس مٹھاس برساتے ہیں، جو ان سمندر جیسی نگاہوں میں ڈوب گیا وہ بچتا مشکل سے ہے۔۔ آخری بات بھی خوب کرگئے کہ وہ صراحی سا بل کھاتا بدن تمہارے تخیل کی معراج ہوگا۔

میں ملنے کو تیار ہوگیا۔۔ یاروں نے مطلع کیا کہ جو شخص بھی اس چوکھٹ کو پھلانگ گیا، وہ واپس نہیں آیا۔ مجھے واپسی کی کبھی پروا نہیں رہی، کیونکہ ویسے بھی میں تو بقاء سے اکتایا فنا کی جانب گامزن تھا۔ شام کو ٹوٹی چپل اور سیلن زدہ باس مارتے کپڑوں اور الجھے بالوں کے ساتھ میں نے اس در کی جانب قدم اٹھایا۔ سارا راستہ تخیل کی تکمیل نہ ہونے کا خدشہ رہا، کیونکہ وصال دراصل جدائی کا ہی پیش لفظ ہوتا ہے۔ سو وصال سے قطع نظر میں اپنے تخیل کی تکمیل کی جہت کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے بارے میں سوچے ہی جارہا تھا۔ دوشیزہ کے دروازے سے بس سو گز دوری ہی  تھی کہ یکایک فضا بدلنے لگی، رم جھم کرتی بوندہ باندی، ہریالی مانند مثل سبز قالین اور سوندھی سوندھی خوشبو جس کا میں برسوں سے متلاشی تھا۔ یہی وہ خوشبو تھی جس کو سونگھنے کے لیے میں نے قریہ قریہ، شہر شہر چھانے مگر میں محروم رہا، ویسے جو شخص بھی اس خوشبو کے سوا کسی دوسری خوشبوں کا ذکر کرتا یا تعریفی کلمات بولتا ہے  تو میں حسد کا شکار ہوجاتا ہوں، ایسے کہیں کہ میں اس بیان کردہ خوشبو سے جل جاتا ہوں۔ سچ ہے کہ محرومی سے برا احساس محرومی ہے۔

چند ثانیوں کے لیے میں مدہوش اور آس پاس سے بیگانہ ہوگیا۔ پھر کہیں پاس سے ایک مدھرتا سے بھرپور آواز ماحول میں گونجی۔ کون ہو ؟

میں نے کہا “ایک بنجارہ، خوابوں کی تکمیل کا متلاشی۔”

پھر آواز آئی، کدھر سے آئے ہو؟

میں نے کہا “جہانِ خراب سے۔”

ندا آئی! “چوکھٹ پار کرو، میرے درشن کرو، میں برسوں سے تمہاری دید کے لیے بیٹھی ہوں۔ مجھے تمہارا وصال درکار ہے۔”

میں اندر داخل ہوا تو میرے سامنے وہی حور بیٹھی تھی جو برسوں سے میرے خوابوں میں آتی رہی  تھی اور اسی خوش رنگ سپنے کا اختتام میری موت پہ ہوتا تھا۔ ویسے میں انجام سے سدا بے پروا رہا، اسی لیے منزل بھی ہمیشہ بیابانوں کے پار اجاڑوں میں ملی۔ میں اس ماہ پیکر کے سامنے دو زانوں بیٹھ گیا، میں گویا ہوا، “۔۔۔ اے پری پیکر، تم کون ہو؟ میں نے تمہیں اپنے خوابوں میں ہی پایا ہے، ویسے تو میرے خواب ہمیشہ ٹوٹ جاتے ہیں، مگر ایسا کیا ہے کہ تم میرے تخیل سے نکل کر حقیقت میں آگئی۔ یہ تو اپنے خوابوں کو غچا دینے کے مترادف ہے کہ جو خواب ہمیشہ میری موت پہ منتج ہوئے وہ بھلا مجھے زندگی کیونکر دیں گے؟” میں رکا پھر گویا ہوا، ” میں خوابوں کی تکمیل کا متلاشی رہا ہوں، مگر میں خوابوں سے غداری نہیں کروں گا۔ تمہارا وصل مجھے زندگی دے گا اور میں نے خود کو مرتے دیکھا ہے۔” اے نازک بدن تم ایتھنا سے لے کر درگا تک سب دیویوں کا عکس خود میں لیے ہوئے ہو۔ تم زہرہ کی انسانی شکل ہو۔ میں نے اپنے خوابوں کی تکمیل کے بوجھ کا کافی حصہ اپنے ناتواں کندھوں سے اتار دیا ہے، یعنی خوبصورت ماحول سے لے کر تمھیں دیکھنے تک میں تکمیل کی تمام منزلوں کو عبور کرگیا ہوں، مگر آخری اور خوبصورت احساس جو میری موت کا ہوگا، وہ ابھی تک میسر نہیں آسکا۔

اچھا! ویسے تم جانتی ہو، یہ ادھورے خوابوں کا بوجھ میں نے کب سے اٹھایا ہوا ہے ؟ یہ میں نے تب سے اٹھایا ہوا ہے جب میں نے تمہارا چہرہ اپنے بچپن میں پہلی بار خواب میں دیکھا تھا۔ اگر یہ بوجھ اتنا عرصہ کوئی اور اٹھاتا تو وہ اس کے نیچے دب کے مر جاتا۔ مگر میں یہ جوکھم اٹھائے شہر شہر، قریہ قریہ اور گاوں گاوں پھرا، میرے چہرے اور سر کے بکھرے بال اس ناتمام سفر کے غمازی کرتے ہیں۔ بس اب مجھ پہ ایک احسان کردو، مجھ پہ لادا گیا یہ بوجھ، خوابوں کی تکمیل کا بوجھ مجھ سے اتار دو۔ میں بقاء سے اکتا کے تمہارے پاس آیا ہوں، مجھے فنا چاہیے، وہ پرکشش فنا جو میں بچپن سے خوابوں میں دیکھتا آیا ہوں۔ التجا سے معمور بیانیے کے اختتام پذیر ہوتے ہی میں یکلخت مورتِ حسن کے سامنے جھک گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ندا آئی، ” اس چوکھٹ کو سب وصال کے حصول کے لیے عبور کرتے ہیں، اسی لیے ان کو موت کا تحفہ ملا، لیکن تم ہجر کی خواہشات دل میں لیے چلے آئے، پس تمہیں زندگی جینے کی سزا دی جاتی ہے۔ تمہارا دوسرا جرم یہ ہے کہ خوابوں پہ حد درجے یقین کرتے ہو اور دیوی کے بجائے خوابوں سے محبت کرتے  ہو اسی بناء پہ تمہیں ایک اور سزا دی جاتی ہے کہ تم جیو گے، اور اپنے موت پہ منتج ہوتے خوابوں کے ساتھ جیو گے۔ تمہیں ان خوابوں کے لیے جینا ہوگا جن میں تم نے خود کو مرتے دیکھا۔” آج رات پھر میں نے دیکھا کہ میں خواب میں مر گیا۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply