صفائی والی۔۔۔۔محمود اصغر چوہدری

وینڈی کا تعلق ایتھوپیا سے تھا ۔ عمر کے لحاظ سے وہ ساٹھ کی دہائی میں تھی ۔ وہ ہمارے دفتر میں سوئپر ز کی ہیڈ تھی ۔ اس کی ٹیم میں تین افریقی اوردو ایسٹ یورپین خواتین تھیں ۔ وہ پانچ بجے میرے آفس آتیں اور صفائی شروع کر دیتیں ۔ میں اپنا کمپیوٹر بند کرکے نکلنے کی کوشش کرتا تو وہ مجھے کہتیں کہ آپ بیٹھے رہیں اپنا کام ختم کر لیں ۔ ان کی مجبوری تھی کہ ان کی شفٹ بھی ختم ہونے والی ہوتی تھی اس لئے انہیں بھی چھ بجے سے پہلے ساری بلڈنگ صاف کرنی ہوتی تھی ۔ مجھے البتہ یہ انداز بہت متکبرانہ محسوس ہوتا کہ میں دفتر میں ہی رہوں اور وہ میرے آگے پیچھے کرسیوں پر صفائی کرنا شروع کر دیں ۔
اشفاق احمد کی کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ خاکروب اور سوئپر کی عزت کرنی چاہیے کیونکہ وہ بہت ہی نیک کام کرتے ہیں معاشرے کو صاف رکھتے ہیں ۔ سوئیپر کو عزت دینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کا تکبردور ہوتا ہے شاید اسی لئے آپ نے اکثر امریکی یا کینیڈین صدر کو دیکھا ہوگا کہ وہ سوئیپر کے ساتھ ہاتھ ملاتے اور فوٹو بنواتے ہیں ۔
شاید اشفاق احمد کے باباجی کی نصیحت کا اثر تھا کہ میں بھی وینڈی اور اس کی کولیگز کا بہت احترام کرتا تھا ۔میری ان سے ہرروزپہلی ملاقات دس بجے کافی مشین کے پاس بھی ہوتی تھی ۔جب میں کافی لینے جاتا تو وہ پانچوں کافی مشین کے پاس کرسی پر بیٹھ کر گپ شپ لگارہی ہوتی تھیں میں کافی کا کپ لیتا اور وینڈ ی اور اس کی کولیگز کو چھیڑنے کے لئے کہتا ۔”بھئی جاب ہوتو ایسی جس میں آپ سکون سے کافی تو بیٹھ کر پی سکتی ہیں“وہ ساری ہنسنا شروع ہوجاتیں اورمجھے یہ بتانے کی کوشش کرتیں کہ اس وقت وہ کسی بھی دفتر میں صفائی نہیں کر سکتیں کیونکہ سارے ہی دفتر مصروف ہیں ۔
آہستہ آہستہ وینڈی سے روزانہ گپ ہونا شروع ہوگئی تو وہ بھی مجھ سے فری ہوگئی ۔اب وہ جب صفائی کے لئے آتیں تو وینڈی مجھے کہتی ”فلیولو“ بیٹا باہر دیکھو کتنی خوبصورت دھوپ ہے جاﺅ جاکر سائیکل نکالو اور آئس کریم کھانے جاﺅ اتنے خوبصورت موسم میں بھی کوئی دفتر میں بیٹھتا ہے ۔میں بھی دفتر ان کے حوالے کر کے نکل جاتا ۔ ایک دن میں نکلنے لگا تو وینڈی میرے پاس آئی اور کہنے لگی صاحب میں نے بھی چار سال ہوگئے اٹالین نیشنلٹی اپلائی کی ہوئی ہے او ر ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ۔آپ کیا میری مدد کرو گے میں نے اس کے ہاتھ سے درخواست کی فوٹو کاپی لیتے ہوئے تقریبا ً اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ کمال کرتی ہووینڈی مجھے بتایا کیوں نہیں کہنے لگی تم سے پہلے کسی نے اتنے اخلاق سے ہم سے بات نہیں کی ۔ ہمارا کبھی حوصلہ ہی نہیں ہوا ۔ میں نہ کہا فکر نہ کرو سمجھو کام ہوگیا ۔
اس کی درخواست لیکر میں پریفیتورا۔ وزارت داخلہ ۔ گیا اور وہاں کی انچارج کو کہا کہ یہ میرا ذاتی کیس ہے اسے جلدی نکلوانا ہے ۔ اس نے اسی وقت روم فون گھمایا اور کہا سمجھو دو ہفتے میں اس کا لیٹر آگیا ۔ پھر ایک مہینے کے اندر اندر اس کا نیشنلٹی کا لیٹر آگیا ۔ اب تو میں نے باقاعدہ اسے چھیڑنا شروع کر دیا کہ تمہارا رتبہ مجھ سے زیادہ ہوگیا ہے تم اس ملک کی شہری بن گئی اور میں ابھی بھی غیر ملکی کا غیر ملکی ہی ہوں ۔
وہ بہت باتیں نہیں کرتی تھی صرف ہنس دیتی ۔ اس طرح پورا مہینہ گزر گیا۔ ایک دن کافی مشین پر میں نے پھر اسے کہا ہیلو میڈم یورپین ۔ وہ اس دن سنجید ہ ہوگئی کہنے لگی ” سنو صاحب میرا بھی ایک مہینہ اس خمار میں گزرا ہے کہ میں یورپی شہری ہوں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میری جیب میں پڑا کاغذکا ٹکڑا تبدیل ہوا ہے میری تقدیر تبدیل نہیں ہوئی ۔ میں یورپی شہری بنی ہوں لیکن ہوں میں ابھی بھی صفائی والی ۔ میری حیثیت ابھی بھی یہی ہے ان سب دفتر والوں کے لئے میں صفائی کرنے والی خاتون ہوں ۔ اور ان گوروں کے لئے میں ایک سیاہ فام شہری ہوں ۔
میں نے کہا تم مذہب پر یقین رکھتی ہو۔ کہنے لگی ہاں میں کیتھولک ہوں اور ہر اتوار کو چرچ بھی جاتی ہوں ۔ میں نے پوچھا تم مانتی ہوں کہ یہ ساری دنیا خدا نے بنائی ہے ۔ اور یہ دنیا اس نے بہت حسین بنائی ہے۔کہنے لگی یہ تو ہے ۔۔ میں نے کہا بتاﺅ کیا خدا ان لوگوں کو پسند کرے گا جو اس دنیا کو گندا کرتے ہیں اس کو بگاڑتے ہیں یا ان کو پسند کرے گا جو اس کی بنائی ہوئی دنیا کوصاف ستھر ا رکھیں ۔
پوچھنے لگی کیا مطلب؟ میں نے کہا تم بہت نیک کام کررہی ہو۔ اس دنیا کو خوبصورت بناتی ہو۔ اس کو صاف رکھنے کی کوشش کرتی ہو۔ ہر روز
میں صبح جب اپنے دفتر کو دیکھتا ہوں ،۔ اپنے کمپیوٹر کی سکرین کو روشن دیکھتا ہوں ۔ اپنے ٹیبل اور کرسی کو جگمگ کرتا دیکھتا ہوں تو میرے منہ سے ایک ہی لفظ نکلتا ہے ”تھینک یو وینڈی ۔۔۔“یاد رکھو کام کوئی بھی چھوٹا نہیں ہوتا ۔ اور جو کام تم ایمانداری سے کر رہی ہو۔ جس میں تم کسی کا حق نہیں کھا رہی ۔ کسی سے دھوکہ نہیں کر رہی وہ کام بہترین کام ۔ اور ہاں ہمارے مذہب کے مطابق ہاتھ سے کام کرنے والا اللہ کا دوست ہے

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply