شائقین کرکٹ کی بائیو میٹرک شناخت

ایک وقت تھا جب ہم حکومتی اور سیاسی بیانیہ کے مطابق برادر پڑوسی ملک اور ریاستی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے بیانیہ کے مطابق پڑوسی دشمن ملک کے ساتھ الجھے ہوئے معاملات سلجھانے کیلئے سفارتی سطح پر ٹریک ٹو ڈپلومیسی کیلئے سب سے کارآمد ہتھیار کرکٹ کے میدان کو سمجھا کرتے تھے ۔ ہمیں تسلیم عارف اور اشرف علی کو نظر انداز کر کے انیل دلپت کو کھلانے میں عافیت نظر آتی تھی تو سرحد پار روی شاستری اور کئی دوسرے سینئرز کو نظر انداز کر کے اظہر الدین کو کپتانی دیکر اپنی سیکولر سوچ کا پرچار کرنا ہی سود مند نظر آتا تھا ۔
افغان وار کیلئے بنائی جانے والی غیر فطری حکمت عملی جس نے مذہب کی مبہم اور خطرناک تشریحات سے نسل درنسل چلنے والی ایک نہایت زہریلی اور تباہ کن سوچ کو جنم دیا وہیں اسٹیبلشمنٹ نے بھی افغانستان سے روس کے انخلا کو اپنی ” بے مثال” کامیابی جانتے ہوئے مہذب دنیا کے مستند اصولوں سے روگردانی شروع کردی ۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی تو رہی دور کی بات معمول کی سفارتکاری پر بھی انتہا پسند جتھوں کا رنگ غالب آنے لگا ۔ حسین حقانی اور کلدیپ نیر کی ضرورت نہ رہے تو حافظ سعید اور مسعود اظہر جیسی سوچ پروان چڑھتی ہے اور امن کی ہر آشا ، نرآشا ہو جاتی ہے ۔
حکومت پنجاب کے ترجمان احمد خان صاحب فرماتے ہیں کہ ہم نے پی ایس ایل کے فائنل کا انعقاد لاہور میں کروانے کیلئے سیکورٹی کی سہہ جہتی حکمت عملی ترتیب دی ہے جس سے شائد انکی مراد پولیس ، رینجرز اور آرمی ہے انکے بیان کے مطابق حفاظتی انتظامات کیلئے تیس ہزار جوان تعینات کیئے جائنگے اور اسٹیڈیم میں داخل ہونے والے ہر شخص کی بائیو میٹرک شناخت کی جائے گی ۔ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس بیان پر حکومت پنجاب کی ” گڈ گورننس ” کو خراج تحسین پیش کریں ، فتح مند سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی شان میں کوئی قصیدہ لکھیں یا اس قوم کی بیچارگی کا ماتم کریں جو ایک کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے بائیو میٹرک شناخت کیلئے مجبور کر دی گئی ہے ۔ مٹھی بھر دہشت گردوں کی شناخت کے بجائے 20 کروڑ انسانوں کی شناخت کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی گھنے بالوں والا ستم ظریف کسی حجام سے فرمائیش کرئے کہ آگے پیچھے اور کناروں سے ملا کر میرے بیس ہزار بال کاٹ دو حجام بیچارہ پہلے تو حیرت کی تصویر بن جائے پھر جب بے حد اصرار پر جھلاہٹ کا شکار ہوجائے تو صاحب کو گنجا کر دے اور موقف اختیار کرئے کہ صاحب آپ کے سر پر تو بال ہی بیس ہزار تھے میں نے گن کر کاٹے ہیں یقین نہ آئے تو گن لیں ۔ کچھ ایسی ہی جھلاہٹ کا شکار ہوتا ہے پولیس کا ادارہ جب اس سے دہشت گرد پکڑنے کی فرمائیش کی جاتی ہے اور زیر لب مسکرایا جاتا ہے تب وہ کراچی میں را کے ایجنٹ تلاش کرنے کیلئے مہاجر جوانوں کی ختنہ چیک نہ کرئے اور لاہور میں شکل سے پختون نظر آنے والے ہر شخص کو مشکوک دہشت گرد نہ سمجھے تو کیا کرئے اسے تو بیس ہزار کی تعداد پوری کرنے کا حکم ہوتا ہے اور وہ حکم کی بجا آوری مین مستعد ہے اور نہایت نالائق ہونے کے باوجود اتنا شعور رکھتا ہے کہ دہشت گردوں کی شناخت دنیا کا کوئی بائیو میٹرک سسٹم نہیں کر سکتا علاوہ ان بیمار ذہنوں کے جنھوں نے دہشت گردوں کو تخلیق کیا ہو ۔
آجکل ایک جملہ نیشنل مڈیا سے سوشل مڈیا تک نہایت کثرت کے ساتھ بولا جا رہا ہے کہ ” سیاست ایک سائنس ہے جسے سمجھنے کیلئے ایک خاص ذہنی استعداد کی ضرورت ہے ”
قطعی طور پر کوئی اعتراض نہین سیاست کے سائنس ہونے پر ۔۔۔۔۔۔۔ مگر نہایت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ سیاست سائنس ضرور ہے مگر مادے کی سائنس نہیں جہاں آکسیجن اور ہائڈروجن مل کر لازمی پانی ہی بنائیں یا دو اور دو کو جمع کرنے سے نتینجہ ہمیشہ چار ہی آئے یہ جیتے جاگتے انسانوں کی سائنس ہے جو ارتقا کے مراحل طے کرتا ہے یہ سماج کی سائنس ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے یہ ایک سوشل سائنس ہے جس میں دو اور دو ہمیشہ چار نہیں ہوتے ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply