سماج (14) ۔ سماجی ذہن/وہاراامباکر

ہمارے سماج میں وہ جو سب سے الگ ہے، اس کے لئے زندگی آسان نہیں رہتی۔ اور یہ رویہ جانوروں کے سماج میں بھی نظر آتا ہے۔ اس میں بھی “عجیب” کی گنجائش زیادہ نہیں۔ یہاں تک کہ وہ انواع جو انفرادی شناخت کے گروہ بناتی ہیں، وہ بھی اس کو برداشت نہیں کرتیں۔ ہاتھی اپنے گروہ کے بیماروں کی پرواہ کرتے ہیں۔ لیکن ہاتھی ہوں یا چمپنزی، اگر کسی کی چال میں لنگڑاہٹ ہے یا کوئی اور ظاہری فرق تو پھر اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہو گا۔
سماجی کیڑے تو اس بارے میں بالکل برداشت نہیں رکھتے۔ چیونٹیاں آپس میں ایسے جڑ کر رہتی ہیں جیسے کسی فرد کے خلیے۔ ہمارے جسموں میں خلیے ایک دوسرے کی شناخت رکھتے ہیں۔ اور یہ شناخت ان کی سطح پر کیمیکلز کے ذریعے ہوتی ہے۔ اگر یہ درست نہ ہو تو امیون سسٹم ایسے خلیات کو مار دیتا ہے۔ اور اس وجہ سے ہمارا جسم اپنے کھربوں ممبران خلیات کے ساتھ ایک قسم کی سوسائٹی ہے۔ چیونٹیوں میں بھی یہ پہچان ہائیڈروکاربن کی مدد سے ہے۔
انسانوں میں ناراض لوگ کسی سوسائٹی کو چھوڑ سکتے ہیں، کسی اور کا حصہ بن سکتے ہیں۔ لیکن چیونٹی کے پاس یہ انتخاب نہیں ہے۔ یہ کسی بھی صورت میں اپنا گھر نہیں چھوڑ سکتی۔
ہمارے جسم کے خلیات کی یا چیونٹیوں کی اپنے معاشرے کے ساتھ وفاداری کی ہم داد دے سکتے ہیں۔ لیکن ایسا معاشرہ انسانوں میں ہو؟ یہ سخت جبر والا dystopian معاشرہ ہو گا۔ انسانی سماج اس قسم کے سپرآرگنزم نہیں اور ہم ایسا چاہیں گے بھی نہیں۔ ہم اپنے اجتماعی گروہ اور اپنی انفرادیت ۔۔۔ ان دونوں کا توازن چاہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانور ہوں یا انسان ۔۔۔ نوزائیدہ بچے کی اپنی خاص سماجی شناخت نہیں ہوتی۔ چیونٹیوں میں یہ ہائیڈروکاربن اور ان کا پہچاننا لاروا سے چیونٹی بننے کے عمل کے دوران ہوتا ہے۔ انسانوں میں بچے کو اپنے معاشرے کی شناخت کے نشان پہچاننا اور سیکھنا ہوتے ہیں جو کہ اسے گروہ کا حصہ بننے کی اجازت دیتے ہیں۔ والدین اور معاشرہ یہ نشان عمر کے ساتھ ان پر ثبت کرتے ہیں۔
ان کے بغیر زیادہ سے زیادہ بھی ہو تو صرف بالکل تنہا غیرسماجی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چارلس ڈارون نے کہا تھا کہ “چیونٹی کا دماغ دنیا کی سب سے حیرت انگیز شے ہے”۔ محض ڈھائی لاکھ نیورون پر مشتمل دماغ والا یہ جاندار سماجی پیچیدگی والی سوسائٹی قائم کرتا ہے۔ اور اس کی وجہ اس کے ہائیڈروکاربن کی شناخت کی صلاحیت ہے۔اپنوں کو سماجی نشان کی مدد پہچان لینا اور اجنبی کے خلاف بھرپور قوت سے حملہ کر کے خطرے کو ختم کر دینا ان کے لئے سماجی کامیابی کی کنجی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کے لئے شناخت کی یہ علامات لچکدار ہیں اور یہ کچھ بھی ہو سکتی ہیں۔ اور زیادہ تر لوگ اپنی علامات کے معنی بھی نہیں بتا سکتے۔ جھنڈے پر علامات کیا ہیں؟ قومی نشان کی اہمیت کیا ہے؟ قومی ترانے کا مطلب کیا ہے؟ یہ اصل میں خود بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے دماغ پر ان کے معنی کی اہمیت کا بوجھ نہیں ڈالتے۔ اس کا مطلب جو بھی ہو، یہ بس پہچان کے نشان بن جاتے ہیں۔
اور یہاں پر دلچسپ بات یہ ہے کہ چیونٹیوں کی دنیا میں زیادہ بڑی سوسائٹی والی چیونٹیاں وہ ہیں جن کے دماغ مقابلتاً چھوٹے ہوتے ہیں۔
چھوٹی کالونی والی چیونٹیوں کو کئی قسم کے کام کرنا پڑتے ہیں۔ جبکہ بڑی کالونی میں فوجی چیونٹی کو اپنی خاص ذمہ داری کے سوا کچھ اور کام نہیں کرنا۔ بچوں کی نگہداشت کرنے کے لئے الگ چیونٹی ہے۔ اسے پہرہ داری کا طریقہ سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑے سماج میں نہ صرف فرداً پہچاننے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ مہارت حاصل کرنے کی ذہنی مشقت بچ جاتی ہے۔ اور کم دماغ کی ضرورت پڑتی ہے۔
اور انسانوں کے لئے بھی، اگر ہمارے گرد اجنبی بڑی تعداد میں ہیں، اپنے معمول میں مصروف ہیں اور کچھ غیرمعمولی نہیں تو آپ کو کسی سے متعارف ہونے کی ضرورت نہیں رہتی۔ آپ بھی اپنے کام سے کام رکھ سکتے ہیں۔ اور ذہن کی ڈیمانڈ کم ہو جاتی ہے۔ ایک عوامی جگہ پر بیٹھے ہوئے آپ فزیکل، کلچرل اور دوسری نشانیوں کو رجسٹر کرتے رہتے ہیں۔ اور اس طرح سماجی نگرانی پر زیادہ مشقت نہیں لگتی۔ آپ اپنا کام کر سکتے ہیں یا دوستوں سے گپ لگا سکتے ہیں۔
زراعت کی آمد کے بعد بڑے معاشروں کی تشکیل ہوئی اور اس کا ایک نتیجہ انسانی دماغ کا سائز چھوٹا ہونے پر پڑا ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید چیونٹیوں کی بڑی کالونی والی ہی ہے جو کہ اپنی سوسائٹی میں بے خوف و خطر رہنے کا ممکن ہونا اور محنت کی تقسیم ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply