مسز سنیتا جیکب۔۔۔۔۔ مدثر بشیر

نسبتاََ دراز ٹیولپ کے ایستادہ پودوں کے پاس ہری بھری گھاس پر رکھی گئی کرسیوں کے سامنے دو چادریں بچھی ہوئی تھیں جن پر ملیر کوٹلہ ڈگری کالج کے لیکچراروں اور پروفیسروں کے علاوہ معاون تدریسی عملے کے خواتین و حضرات بھی براجمان تھے۔ ان کے مقابل پچاس کے پیٹے کی ایک خاتون نشست افروز تھی جو دوپٹہ درست کرنے کے ساتھ ساتھ گردوپیش کا جائزہ لینے میں محو تھی۔ ارد گرد کی میزوں پر چائے کے لوازمات دھرے تھے۔

اسی اثناء میں کالج کی پرنسپل کملا دیوی کی آمدہوئی، سب کے ساتھ رسمی بات چیت کے بعد وہ سامنے بیٹھی خاتون کے پاس جا کھڑی ہوئی۔
’’تمام اسٹاف کو خوش آمدید، آج مسز صبا جمشید کا یہاں آخری دن ہے، گذشتہ بارہ برس میں جس طرح انہوں نے طالب علموں اور کالج کی خدمت کی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ ہمارے ساتھ کچھ باتیں شیئر کرنا چاہتی ہیں۔ آج کی شام ، مسز صبا جمشید کے نام‘‘ آخری جملہ قدرے بلند آواز سے ادا کرنے کے بعد کملا دیوی دیگر عملے کے پاس بیٹھ گئی۔
’’ کیسا لگ رہا ہے آپ کو، ملیر کوٹلہ چھوڑنا؟‘‘ ایک عورت نے مسزصبا جمشید سے سوال کیا۔
’’ملیر کوٹلہ۔۔ ملیر کوٹلہ۔۔.‘‘صبا جمشید نے ایک لمبی آہ بھری۔
’’ آپ کے سر کا زخم اب کیسا ہے؟‘‘ سامنے بیٹھے ایک سکھ پروفیسر نے پوچھا۔
اس سے پیشتر کہ صبا جمشید جواب دیتی ایک عورت صلیب کا نشان بناتی گویا ہوئی ’’مسز جمشید، وی آل وِل مِس یو‘‘
’’مِس روزی، میڈم سنیتا جیکب ابھی نہیں آئیں؟‘‘ صبا جمشید کا سوال مکمل ہوتے ہی سفید پیرہن میں ملبوس گہری سانولی رنگت کی ایک عورت کالج کی راہداری میں آتی دکھائی دی۔ اس کے گلے میں کراس لٹک رہا تھا۔
وہ ’’ہیلو ایوری ون‘‘ کہتی ہوئی مِس روزی کے پاس بیٹھ گئی۔
’’مسز سنیتا جیکب، آپ کچھ تاخیر سے آئی ہیں‘‘پرنسپل کملا دیوی سوالیہ انداز میں مخاطب ہوئی۔


’’یس میڈم، بہت ٹریفک تھی‘‘ سنیتا نے مختصر جواب دیا۔
’’مسز صبا جمشید، آپ نے سب کو اکٹھا کیا ہے، وہ بات تو بتائیں۔۔‘‘ عملے کے ایک رکن نے کھڑے ہو کر استفسار کیا۔ اتنے میں تیز ہوا کے جھونکے نے صبا جمشید کا دوپٹہ سرکا دیا جس سے اس کے سر پر بندھی پٹی وا ہو گئی۔ مِس روزی نے آگے بڑھ کر اپنے رومال سے صبا کا ماتھا پونچھا۔
صبا نے اپنی نم ہوتی آنکھوں کو ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے میز پر پڑی ڈائری اٹھا لی۔
’’اگر میں روم میں ہوتی تو ضرور کسی چرچ کے کنفیشن باکس میں اپنا کنفیشن کرتی ، لیکن یہ مجھے آج اس جیتے جاگتے دن کی سفید روشنی میں آپ سب کے حضور کرنا ہے‘‘ صبا جمشید نے ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے کہا۔
’’کیسا کنفیشن ہے یہ؟۔۔ آپ نے تو کبھی۔۔کسی کے ساتھ.‘‘نیلے رنگ کی بنارسی ساڑھی پہنے ایک عورت نے ادھورا سوال کیا۔
’’یہ میرے اندر کا دکھ ہے، ایک گہرا گھاؤ، یہ اعتراف آپ سب کے ساتھ ہے ، آپ سب کے سامنے، ایک عورت کی وجہ سے۔۔‘‘
’’کیا پہیلیاں بُجھارہی ہیں آپ، کھل کے بات کریں نا‘‘ کملا دیوی نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’آپ کو دو تین گھنٹے مجھے برداشت کرنا پڑے گا، ساری بات نکھر کر آپ کے سامنے آ جائے گی‘‘ صبا جمشید نے دھیمی ہنسی کے ساتھ فقرہ مکمل کیا۔
’’میں آج سے بارہ برس پہلے اس کالج میں آئی، اس کالج سے جڑی ایک کہانی ہی میرا کنفیشن ہے، ڈائری لکھنے کی عادت مجھے کم عمری سے ہے، میں اس ڈائری کے ایک دو اوراق وہ سناؤں گی جو یہاں آنے سے پیشتر کے ہیں، اس کے بعد یہاں بیتے وقت کے وہ صفحات جن میں مسز سنیتا جیکب کا تذکرہ ہے۔‘‘
’’سنیتا جیکب۔۔‘‘ کئی لوگوں کے منہ سے ایک ساتھ یہ الفاظ نکلے۔ چند افراد کی آنکھوں میں یہ نام سوال کی طرح جگمگایا۔ اس نے مجمع پر ایک بھرپور نگاہ ڈالی اور پھر ڈائری کا پہلا ورق الٹا۔
’’میرا نام صبا نورالحسن ہے، میں مولوی نورالحسن کی صاحبزادی ہوں جو امرتسر کے رہائشی تھے۔ وہ اپنے وقت کے عربی فاضل اور خاندانی حکیم تھے۔ میرے دادا کا نام جان الحسن تھا، وہ خاندانی حکمت کے ساتھ ساتھ اپنی فارسی اور اردو شاعری کے حوالے سے بھی جانے جاتے تھے۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد ہمایوں کے ساتھ ایران سے ہندوستان آئے اور یہاں دربار سے وابستہ ہو گئے۔ برطانوی دورِ حکومت میں فرنگی بھی ان سے زبان سیکھنے آتے تھے۔ تقسیمِ ہند سے پیشتر ہمارے گھر میں ہر روز اردو پنجابی شاعروں کی محفل جمتی۔ مجھے بچپن سے ہی اردو اور پنجابی سے خوب آشنائی تھی، اسی باعث اپنا ایم اے پنجابی میں کیا۔ بہ سلسلۂ روزگار کچھ عرصہ سہارنپور اور انبالہ رہی، شادی ہوئی تو صبا جمشید بن کے دہلی چلی گئی۔ ہمارے خاندان سے تعلق داری اس درجہ دشوار ہے کہ ہم لوگ تو مال مویشی کی خریداری بھی شجرہ و نسل کی چھان پھٹک کے بعد کرتے ہیں۔ جمشید کا ملیر کوٹلہ کے نواب صاحب سے خاص تعلق تھا، سو جب نواب صاحب کو جائیداد کے معاملات درپیش ہوئے تو جمشید نے ملیر کوٹلہ میں ڈیرے ڈال لیے۔ نواب صاحب کے کہنے پر میرا تبادلہ اس کالج میں ہوا۔ ہمارا خاندان مذہبی روایات کے عین مطابق زندگی گذارتاہے، ہمارے گھروں میں نماز روزے کی پابندی لازم ہے۔ تعلیم کے باوجود خاندانی انا کی روایات کاچلن جوں کا توں ہے۔‘‘ ڈائری کا پہلا ورق پڑھنے کے بعد صبا نے سب کی جانب ایک نظر دیکھا اور پھر دوبارہ ڈائری تھام لی جس پر اس نے پہلے سے ہی کچھ فلیگ لگا رکھے تھے۔
’’کالج میں آج میرا دوسرا دن ہے، یہاں بیس کے قریب لیکچرار اور پروفیسرز ہیں، جن میں چھ مسلم، چار سکھ، آٹھ ہندو اور دو مسیحی ہیں۔ تھیٹر کے ایک پروفیسر پارسی ہیں لیکن وہ کبھی کبھار آتے ہیں۔ آج میری سب سے بات چیت ہوئی ماسوائے مسیحی لیکچرار مسز سنیتا جیکب کے۔ دوسری مسیحی لیکچرار روزی سے ملاقات ہوچکی ہے، وہ اکنامکس کی معلمہ ہیں۔ سب لوگ انتہائی اچھے ہیں۔ طلباء میں اکثریت مسلمانوں کی ہے کیونکہ یہاں کی نصف سے زائد آبادی مسلم ہے۔ پورے کالج میں ایک افیئر زبان زدِ عام ہے کہ لیب والا رمیش ہر وقت لائبریرین مینا کے پیچھے پھرتا رہتا ہے اور بہت مضحکہ خیز لگتا ہے۔‘‘
رمیش اور مینا کے ذکر پر مجمع میں قہقہے گونجنے لگے، یہاں تک کہ رمیش بھی ہنس دیا اور خفت مٹانے کے لئے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ صبا جمشید خود بھی ہنستی ہوئی ڈائری کے اوراق پلٹنے لگی۔
’’ایک ہفتہ گذر گیا ہے۔ لڑکے لڑکیاں بہت اچھے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ سکھ طلباء پنجابی زبان و ادب کی جانب زیادہ مائل ہوں گے لیکن یہاں مسلم اور ہندو اسٹوڈنٹس بھی نانک کے ساتھ ساتھ بلھے شاہ اور وارث شاہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے بات چیت میں پنجابی کاہی استعمال کرتے ہیں۔ پرنسپل منجیت سنگھ بہت اچھے انسان ہیں، کالج میں ان کا بڑا احترام کیا جاتا ہے۔ میں ابھی تک مسز سنیتا جیکب سے نہیں مل پائی۔‘‘
صبا جمشید نے ایک اور صفحہ کھولا۔
’’آج کالج میں دیوالی منائی گئی، ہم سب نے خوب موج مستی کی۔ مجھے اپنا بچپن یاد آگیا جب امرتسر میں ہندو ہماری عیدیں مناتے تھے اور ہم ان کی دیوالی اور ہولی۔ سکھ بہن بھائی بھی اس میں ہمارے ساتھ شریک ہوتے۔ آج روزی نے اطلاع دی ہے کہ کل سے مسز سنیتا جیکب بھی آئیں گی۔‘‘
یہ صفحہ پڑھنے کے بعد صبا نے پانی کا گلاس تھام لیا۔
’’اس سے آگے جوپڑھوں گی اس میں کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جن سے کسی کی دل آزاری ممکن ہے، اس کے لئے میں پیشگی معذرت خواہ ہوں۔‘‘
’’کیسی باتیں کر رہی ہیں۔۔آپ پڑھیں‘‘ ایک سکھ پروفیسر نے حوصلہ افزائی کی۔
’’جی ٹھیک۔۔‘‘ صبا جمشید نے لمبی سانس لی۔
’’آج پیریڈ لینے کے بعد اسٹاف روم میں گئی تو مس روزی نے مجھے مسز سنیتا جیکب سے ملوایا۔ پہلی نظر دیکھتے ہی طبیعت عجیب سی ہوگئی۔ گہرے نیلے رنگ کی ساڑھی میں اس کا سانولا رنگ سیاہ معلوم ہوتا تھا۔ سر پر الجھے ہوئے کنڈلے بالوں کا گچھا، گلے میں چاندی کا کراس، ہونٹوں کے بائیں جانب ایک بدنما موٹا کالا مسہ، جسے دیکھ کر اور بھی گھن آئی۔ دل چاہا کہ اس عورت سے پھر کبھی ملاقات نہ ہو۔ انگریزی تدریس کے علاوہ وہ رقص بھی سکھاتی تھی لیکن یہ دونوں چیزیں اس کی شخصیت میں دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔دوسری بار نگاہ ڈالی تو امرتسر سے باہر پکی ٹھٹھی کی چوہڑیاں گمان میں آئیں جن سے ہر وقت بدبو آتی رہتی تھی۔ میں نے باہر جا کر تھوکا، کُلیاں کیں اور اپنی کلاس کو چل دی۔‘‘
اس صفحے کو مکمل کرنے کے بعد صبا نے ایک نظر سب کو دیکھا، اسے مسز سنیتا جیکب کے چہرے کی ہوائیاں اڑتی محسوس ہوئیں۔ باقی سب کے چہرے پر بے یقینی کے بادل دکھائی دیے۔ صبا نے ایک بار پھر ڈائری کھول لی۔
’’آج کالج کے سارے اسٹاف نے حضرت بابا شیخ صدرالدین صدرِ جہاں کے مزار پر حاضری دی۔ ہر مذہب کے لوگوں نے ماتھا ٹیکا۔ ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں سے بڑھ کرحصہ لیا۔ مزار کی انتظامیہ نے بتایا کہ جتنے چڑھاوے یہاں چڑھائے جاتے ہیں شائد کہیں اور نہیں۔ اسٹاف ممبران نے بھی نذرو نیاز کی۔ رمیش نے مینا کو چوڑیاں لے کر دیں جسے دیکھ کر سب لوگ ہنستے رہے۔ میں بھی بہت خوش تھی کہ اتنے میں سنیتا جیکب سے سامنا ہو گیا۔ اس نے مزار کی دیواروں کو چوما اور ہمارے ساتھ باہر آگئی۔پھر ہم شہر کے وسط میں واقع نواب شیر خان کے مقبرے پر گئے جہاں ان کے عزیزو اقارب کی بھی قبریں تھیں۔ اس حوالے سے روایت ہے کہ یہ شہر بسایا تو لودھی حکومت کے عہد میں بہلول لودھی نے تھا لیکن یہاں احترام سب سے زیادہ نواب شیر خان کا کیا جاتا ہے۔ انھوں نے مغلیہ حکومت کی جانب سے سکھوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی بھرپور مذمت کی اور ’’ہاہ‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ پھر اسی نعرے کے نام پر گوردوارے کی بنیاد رکھی، یہی وجہ تھی کہ ملیر کوٹلہ کے مسلمان تقسیمِ ہند کے موقع پرتشدد اور قتل وغارت گری کی لہر سے محفوظ رہے۔ شاہی مقبرے میں چہل قدمی کے دوران سنیتا جیکب ایک بار پھر میرے سامنے آئی تو میں نے راستہ بدل لیا۔‘‘
’’میرا بیٹا زین بخار سے ہے، تین دن سے میں کالج نہیں گئی، جمشید اور دونوں بچے چھٹی پر ہیں۔ میں رات بھر کی جاگی ابھی سوئی ہی تھی کہ کالج سے کچھ اسٹاف ممبران اور چند طلباء آگئے۔ اسٹاف میں اُدھم سنگھ، ہرجیت کور، اشوک اور سندری کے ہمراہ سنیتا جیکب بھی تھی۔ میں مہمانوں کے لئے چائے کا انتظام کرنے میں مصروف ہو گئی، اس دوران زین کے کمرے میں گئی تو دیکھا کہ سنیتا جیکب اسے ٹھنڈے پانی سے پٹیاں کر رہی تھی اور اس کی طبیعت قدرے ہشاش معلوم ہو رہی تھی۔ لیکن اس سے قطع نظر میرا دل چاہ رہا تھا سنیتا ابھی اسی وقت میرے گھر سے  چلی جائے۔ اسے دیکھ کے جانے کیا ہو جاتا ہے مجھے، کالے منہ والی منحوس۔۔ خدا مجھے معاف کرے لیکن کیا کروں، اسے دیکھتے ہی متلی ہونے لگتی ہے۔ کچھ دیر بعد کالج کی وین آئی تو سب لوگ میراحوصلہ بڑھاتے ہوئے رخصت ہو گئے۔‘‘
’’آج چار ہفتے بعد کالج کا منہ دیکھا، سب لوگوں نے تہہ دل سے خوش آمدید کہا۔ سنیتا جیکب غیر حاضر تھی، میں دل ہی دل میں انتہائی مسرور ہوئی کہ آج اس سے سامنا نہیں ہو گا۔ مس روزی نے بتایا کہ اس کا شوہر ملیر کوٹلہ کے چرچ میں اکاؤنٹینٹ ہے اور آئے دن شراب پی کر غل غپاڑہ کرتا ہے، نشے میں دھت ہو کر دونوں بیٹیوں اور سنیتا پر تشدد سے بھی گریز نہیں کرتا۔ خیال آیا کہ وہ مار کیوں نہیں دیتا سنیتا کو، اس کا مسے والا منہ دیکھنے سے تو جان چھوٹے، عینک لگا کر ہنستی ہوئی تو اور بھی زہر لگتی ہے وہ۔اتنے میں ہمارے کمرے میں کچھ لڑکے لڑکیاں آگئے تو ہم باتیں کرتے باہر نکل گئے۔‘‘
’’ آج لدھیانہ کالج سے کچھ طلباء اور تدریسی عملے کی آمد ہوئی۔ وہ شہر کی سیر کرنا چاہتے تھے۔ ہمارے تاریخ کے پروفیسر نے ہمیں بھی ساتھ لے لیا۔ سب سے پہلے وہ ہمیں عیدگاہ لے کر گئے جسے ہندوستان کی سب سے بڑی عید گاہ تصور کیا جاتا ہے۔ سال بھر میں دو عیدوں کی نماز کے علاوہ اسے ایک ایسے پبلک پارک کی حیثیت حاصل رہتی ہے جس میں چند تاریخی عمارات بھی ہیں۔ اس کے بعد ہم نواب صاحب کے تعمیر کردہ موتی بازار گئے۔ وہاں ایک فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ جب کسی فلم میں لاہور دکھانا مقصود ہو تو اس بازار کو لاہور کا بازار بنا لیا جاتا ہے۔ سب لوگوں نے وہاں سے کچھ نہ کچھ خریداری کی۔ پھر ہم لاہوری دروازہ، سرہندی دروازہ اور دلی دروازہ سے ہوتے ہوئے ڈیرہ بابا آتما رام پر گئے اور پھر اس کے  بعد جین مت کے مندر میں گئے جہاں ہم نے جینی عورتوں کو ستی کیے جانے کی کہانی سنی اور ان کے مقبرے بھی دیکھے۔ وہاں ہم نے دیکھا کہ سنیتا جیکب مقبروں سے لگ کر رو رہی تھی، اسٹاف کے کچھ لوگوں نے اسے حوصلہ دیا لیکن نہ اس نے کسی کو بتایا کہ وہ کیوں رو رہی تھی اور نہ کسی نے اس سے یہ پوچھنے کی ہمت کی۔اتنی نازک دل عورت سے میرا یوں بیزار ہونا۔۔ کہیں نہ کہیں مجھے اپنا آپ برا لگنے لگا تھا، گھر آتے ہی میں تھکی ہاری بستر پر لیٹی اور سو گئی۔‘‘
’’گرمیوں کی تعطیلات سے پہلے آج کالج کا آخری دن تھا۔ میں نے طالب علموں کو سارا کام سمجھا دیا ہے۔ ہم سب گھر والے چھٹیاں سہارنپور، انبالہ اور شملہ میں بتاتے ہیں۔ مجھے کالج سے جمشید نے لینا تھا اور لدھیانہ لے کرجانا تھا جو یہاں سے محض بیس منٹ کی مسافت پر ہے۔ سارے اسٹاف سے مل لیا۔ ایک دو بار سنیتا بھی نظر آئی لیکن میں پہلو تہی کرتی ہوئی اِدھر اُدھر ہو گئی۔ میں کالج کے مین گیٹ پر پہنچی تو وہ مجھے گاڑی کے پاس کھڑی جمشید سے باتیں کرتی دکھائی دی۔ اس نے بتایا کہ وہ جان بوجھ کر دروازے پر آن کھڑی ہوئی تھی تاکہ جمشید کے ساتھ بچوں سے بھی مل سکے۔میں نے چہرے پر ایک مصنوعی مسکان سجائی اور پھر بات بدل کر گاڑی میں بیٹھی اور لدھیانہ کے لئے روانہ ہو گئی۔‘‘
یہ صفحہ پڑھنے کے بعد صبا نے ایک لمبی سانس لی، ایک بار پھر سب پر نگاہ ڈالی، چائے کے کپ سے کچھ گھونٹ لیے اور ڈائری کا اگلا فلیگ لگا ورق کھول لیا۔
’’چھٹیاں کب گذر گئیں، احساس تک نہ ہوا۔ جمشید پہلے سے ہی نواب صاحب کے گھر تھے۔ کالج آئی تو اس کا رنگ ڈھنگ ہی بدلا ہوا تھا۔ انتظامیہ نے ایک نیا ڈیپارٹمنٹ تعمیر کیا تھا۔ ساری عمارت سفید اور نارنجی رنگ میں رنگی گئی تھی۔ سب سے بڑھ کر خوشی کی بات یہ تھی کہ رمیش اور مینا رشتہ ء ازدواج میں بندھ گئے تھے اور دونوں ایک اسکوٹر پر کالج آئے تھے۔ میں نے اسٹوڈنٹس کو اپنے اپنے گھروں سے پنجابی گیت اور کہاوتیں اکٹھی کر کے لانے کا کام دیا تھا۔ انھیں پڑھ کے بہت مزہ آیا۔ پہلا دن اس لئے بھی اچھا گذرا کہ اس دن وہ کالے منہ والی کالج نہیں آئی تھی۔‘‘
یہ صفحہ پڑھنے کے بعد صبا جمشید نے سب کی طرف دیکھا تو اسے ہر چہرے پر سوال نظر آئے۔
’’میں اب آخری دو ڈائریوں میں سے ہی کچھ صفحات پڑھوں گی ورنہ یہ کنفیشن آج کے دن ختم ہونے کو نہیں آئے گا۔ آپ کے ذہنوں میں جو بھی سوالات جنم لیں گے ان کے جوابات آخر میں دوں گی۔ امید کرتی ہوں کہ آپ لوگ مجھے گھنٹہ بھر مزید برداشت کر لیں گے۔‘‘
’’آپ جاری رکھیں، ہم بھی اس کا انجام جاننے کے لئے متجسس ہیں۔‘‘ کملا دیوی نے حوصلہ افزائی کی تو صبا جمشید نے سراثبات میں ہلاتے ہوئے اگلا صفحہ کھول لیا۔
’’ اس کالج میں آئے دس برس بیت چکے ہیں، میرے اپنے بچے کالج جانے لگے ہیں۔ انگریز عہد کی تعمیر شدہ اس عمارت کے ڈھنگ جوں کے توں ہیں۔ میں ڈگری کلاسز سمیت تمام جماعتوں کو پڑھا چکی ہوں۔ آج نئی پرنسپل کملا دیوی کی تعیناتی ہوئی ہے، وہ نہایت اچھے اخلاق کی مالک ہیں۔ میرے اپنے اسٹوڈنٹس میں سے دو سکھ لڑکیوں دھن کور اور جسوندر کور کو بھی بطور لیکچرار بھرتی کیا گیا ہے ۔ یہ میرے لئے انتہائی قابلِ فخر بات ہے۔ سنیتا جیکب نے آج اپنی بیٹی کی منگنی کی برفی بھیجی۔ منگنی چرچ آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن کے بیٹے سے ہوئی ہے۔ میں برفی پھینکنے لگی تھی لیکن پھر یہ سوچ کر گھر لے آئی کہ خدا کا رزق ہے اسے پھینکنا مناسب نہیں۔ شام کے وقت ہمارے در پر مانگنے والا اندھے گھوڑے کی نذر کے لئے آیاتو میں نے پیسوں کے ساتھ برفی بھی بھجوا دی۔‘‘
’’اب میں کچھ اور آگے سے پڑھتی ہوں‘‘
’’کرسمس کی تعطیلات کے بعد پھر سے سب لوگ کالج میں جمع ہو چکے ہیں۔ میں ترقی پا کر اسسٹنٹ پروفیسر سے پروفیسرہو گئی ہوں۔ آج مجھے ایک کتاب کی کھوج میں ہنومان مندر کی لائبریری جانا پڑا۔ مندر کی عمارت بہت پرانی اور تاریخی اہمیت کی حامل ہے، لائبریری بھی کتابوں سے اٹی پڑی ہے اور ان میں فارسی کے حد درجہ قدیم قلمی نسخے بھی موجود ہیں۔ کالج واپسی پر پتہ چلا کہ میرے ساتھ سنیتا کی بھی ترقی ہوئی ہے اور اب وہ بھی پروفیسر ہے۔ میں آگ بگولہ ہو گئی کہ آخراس میں کیا نظر آیا سرکار کو۔ چوہڑی عورت۔۔ نہ منہ، نہ ماتھا، ہمہ وقت کی کت کار کرنے والی۔۔اور بنا دیا پروفیسر! اس آگ نے میری اپنی خوشی بھی جلا کر راکھ کر دی۔
’’میں لان میں بیٹھی دھوپ کی تمازت سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ سنیتا میرے پاس آگئی۔ میں اسے دیکھ کر اٹھنے لگی تو اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ لحظہ بھر کو مجھے یوں لگا جیسے میرا ہاتھ سانپ کے منہ میں آگیا ہو۔ وہ بولی’’ میں ایک عرصے سے محسوس کر رہی ہوں کہ آپ مجھ سے دور دور رہتی ہیں‘‘
میں نے جواب میں سفید جھوٹ جڑ دیا۔ ’’ ایسی کوئی بات نہیں، بس میں ذرا اپنے کام میں مصروف رہتی ہوں‘‘
اس نے نکتہ نکالا’’ میں آپ جیسی خوبصورت نہیں یا اس وجہ سے کہ میں عیسائی ہوں۔۔‘‘
میں نے کہا ’’ ہم سب ایک ہیں، اس کالج میں سکھ بھی ہیں، ہندو بھی اور پارسی بھی، اور اب تو ایک جینی لڑکی بھی یہاں آرہی ہے، باقی بات رہی خوبصورتی کی تو ایسی بھی کوئی بات نہیں‘‘
اس کی اکثر باتیں سچ تھیں اور میری جھوٹ، لیکن میں کیا کروں، میں اس سے بیزاری ختم نہیں کرسکتی۔‘‘
’’آج میں نے ایک خاتون سائیکاٹرسٹ سے ملاقات کی۔ سنیتا کی اس دن کی گفتگو نے میری نیند حرام کردی تھی۔ میں نے اپنی بیزاری مکمل طور پر اس کے سامنے کھول کے رکھ دی۔ اس نے مجھ سے پیشہ ورانہ رقابت سمیت چند دیگر معاملات پر بات چیت کی جن سے میرا کچھ واسطہ نہیں تھا۔ سنیتا ایک جیتی جاگتی عورت ہے، میں اس پر اتنا بھاؤ کیوں کھاتی ہوں، سمجھ بوجھ جواب دینے سے قاصر ہے۔ سائیکاٹرسٹ نے مجھے اینٹی ڈیپریشن گولیاں تجویز کیں اورحیرت کا اظہار کیا کہ بابا فرید اور نانک کا کلام پڑھانے والی کا کسی کے ساتھ اس درجہ مسابقتی رویہ ناقابل تفہیم ہے۔ اس نے مجھے بابا فرید کا کلام از سرِ نو پوری توجہ سے پڑھنے کا مشورہ دیا۔ اس کے بعد میں گھر آگئی ۔‘‘
صفحہ مکمل کرنے کے بعد صبا نے پھر چائے کے گھونٹ لیے اور مجمع سے گویا ہوئی:
’’ آپ میری بیزاری کے بارے میں جان چکے ہیں۔ اب میں صرف آخری دو صفحات پڑھوں گی۔‘‘
سنیتا کا رنگ فق ہو چکا تھا اور بقیہ اسٹاف کے چہرے پر فکر مندی کے آثار نمایاں تھے۔
’’ آج جمشید نے بتایا کہ اب ہم دہلی واپس جائیں گے اور اس سلسلے میں نواب صاحب میرے ٹرانسفرآرڈر کا بندوبست کررہے ہیں جو اگلے ایک ہفتے میں متوقع ہے۔ یہ خبرسن کر ایک درد سا جاگ اٹھا۔ ملیر کوٹلہ سے لگاؤ ہو گیا تھا۔ اتنا اچھا کالج، دوست، ساتھی، صدرِ جہاں کا مزار۔۔سب چھوٹتا نظر آرہا تھا۔ فقط ایک سکھ تھا اور وہ یہ کہ اب سنیتا جیکب کی شکل دیکھنے کو نہیں ملے گی۔‘‘
’’کالج کا آخری دن عام دنوں سا نہیں لگ رہا تھا، کل فیئر ویل پارٹی ہوگی۔ میں خوش بھی ہوں کہ دہلی واپس جانے والی ہوں اور دکھ توہے ہی۔ دونوں جذبے بیک وقت میرے اندر بسیرا کیے ہوئے تھے۔ میرے جانے کا سن کر سب لوگ اسٹاف روم میں جمع تھے اور رائے زنی میں مصروف تھے۔ ایک گوشے میں روزی اور سنیتا جیکب بھی باتوں میں مگن تھیں۔اتنے میں چہرے پر عینک سجائے، کالے اوورکوٹ میں ملبوس ایک شخص وارد ہوا، اس نے سر پر ایک لمبی چٹیا بنا رکھی تھی اور اسے ربڑ کے چھلے میں پرو رکھا تھا۔ اس کی رنگت گہری سیاہ تھی اور اس کے ہاتھ پر زخموں کے نشان تھے۔ اسے پہلی نظر دیکھنے پرجنگلی بن مانس کا گمان گذرتا تھا۔ اندر آتے ہی اس نے سنیتا کو گالیاں بکنا شروع کر دیں۔ روزی بلند آواز میں چلا اٹھی ’’جیکب! تم یہاں کیا کرنے آئے ہو‘‘ میں کبھی جیکب کو دیکھوں، تو کبھی سنیتا کو۔ ایک خیال باربار ذہن میں گونجنے لگا کہ سنیتا کا جہان جہنم کی طرح ہے۔ اس نے اس شخص کے ساتھ زندگی کیسے بِتا دی۔ سنیتا نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ جیکب نے اوورکوٹ کی جیب سے شراب کی بوتل نکالی، دو بڑے بڑے گھونٹ بھرے اور بوتل سنیتا کے بازو پر مار کر توڑ دی۔ سنیتا کا بازو لہولہان ہو گیا۔ اس لمحے میرے جی میں جانے کیا آئی کہ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور آگے بڑھ کر جیکب کو روک لیا۔ اس نے وہی ٹوٹی ہوئی بوتل میرے سر پر دے ماری۔ میرا سارا جسم خون سے لتھڑ گیا۔سنیتا نے جلدی سے میرے سر سے رِستے لہو پر ہاتھ دھرا اور اسے روکنے کی کوشش کی تو میرا اور سنیتا کا خون ایک ہو گیا۔ سانولے اور سفید جسم کے خون میں امتیاز ناممکن ہوچکا تھا۔ امر سنگھ نے پیچھے سے جاکر اس کے ہاتھ جکڑ لیے۔ اسی دوران کالج کے گارڈز بھی آپہنچے اور جیکب کو پکڑ کرباہر لے گئے۔سنیتا کا ہاتھ ہنوز میرے زخم پر تھا۔ مجھے لگا کہ برسہا برس کا حساب چکتا ہو گیا۔ خون کیا نکلا، نفرت کا زہر نکل گیا تھا۔ وہ نفرت جو بلا جواز تھی، گھر کے ایک فرد کی، کسی بھی دوسرے فرد سے۔
سنیتا ایک کمال عورت ہے جس نے جیکب جیسے شخص کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی بیٹیوں کو پالا اور کالج میں نوکری بھی جاری رکھی۔ میرا دل چاہا کہ میں اسے آسمان پر بادلوں میں جا بٹھاؤں۔ گھر آنے کے بعد میں ساری رات روتی رہی، ہچکیاں لیتی رہی، جمشید اور میرے بچے مجھے حوصلہ دیتے رہے۔ اب سنیتا سے معافی مانگنے کے سوا میرے پاس کوئی راستہ نہیں۔‘‘
جملہ مکمل کرنے کے بعد صبا نے ڈائری بند کر دی۔ اس کی آنکھیں خشک اور بے نور تھیں جبکہ سارے اسٹاف کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔
’’آپ مجھے جو بھی سزا دوگے، مجھے قبول ہو گی، لیکن اگر مسز سنیتا جیکب مجھے ایک بار معاف کردیں تو میں کبھی بھی ملیر کوٹلہ نہیں چھوڑوں گی، جمشید چاہے دہلی چلے بھی جائیں۔‘‘
وہاں موجود چہروں پر کچھ سوال درج تھے اور کچھ دکھ۔
سنیتا دھیمی سی ہنسی کے ساتھ اٹھی، اپنے پرس سے چاندی کا لاکٹ نکالا اور بنا کچھ کہے صبا کے گلے میں ڈال دیا۔ لاکٹ میں کراس کی جگہ چاند تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پنجابی سے اردو ترجمہ زاہد نبی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply