پاؤں پاؤں چلتے آؤ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

چوبیس اپریل کو مجھے 89 برس کا ہو جانا ہے۔ کتنے دن ، مہینے، سال آج کے بعد زندہ رہوں گا، اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن اس دن کے لیے میں گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے ایک بچے کی طرح آگے ، اور آگے، اور آگے بڑھتا ہی جا رہا ہوں۔۔۔ ۔یہ نظم اپنے پیچھے چلنے والوں کے لیے ایک پیغام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرسوں نرسوں سوچتا تھا
بطنِ فردا میں کوئی دن اُخروی ایسا بھی ہو گا
جس میں ما معنیٰ مرا ماضی پلٹ کر ساعتِ امروز ہو گا؟
اب پس ِپردہ بالآخر

حال، ماضی اور مستقبل اکٹھے ہو گئے ہیں
تو مجھے کہنے میں قطعاً

کوئی پیش و پس نہیں ہے
آنے والے دن کسی مستقبل ِ امکاں کا دعویٰ

کیا کریں گے؟

میں خود ایسا حالِ حاضر باش تھا جو
رہ نوردوں
رفتگان و قائماں کو
ماضئ مطلق کی اڑتی گرد میں ملبوس۔۔۔۔۔
پیچھے چھوڑ کر امکاں کی جانب
برسوں پہلے چل چکا تھا

آج جب یہ آنے والے کل کا امکاں
میری مٹھّی میں ہے، تو میں
اپنے پیچھے آنے والے
نظم گوئی کی ڈگر پر
رہ نوردوں سے فقط اتنا کہوں گا
راستہ سیدھا ہے یارو
پیچھے مڑ کر دیکھنا
پتّھر کا بُت بننے کی خواہش کا اعادہ ہے ۔۔
کہیں ماضی میں گُم ہونے کی خواہش
(یہ سمجھ لو)
اس لیے بہتر یہی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

پاؤں پاؤں چلتے آؤ!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply