یہ سکول ہیں یا پھانسی گھاٹ/نعیم احمد باجوہ

’’سکول وہ عمارت ہے جس کی چار دیواری کے اندر آپ کا آنے والاکل پایا جاتا ہے۔‘‘ تعلیمی ادارے قوم کا حال  زبان سے بیان کر دیتے ہیں۔ان اداروں کی سنجیدگی، دیانت اورمہارت کل کی راہنما نسل کی خبر لاتی ہے تو لا پرواہی، بددیانتی اور غیر سنجیدگی قوم کے در ودیوار پر اُگنے والےخار دار ببول کو حتمیت کی ردا پہناتی ہے۔

تعلیمی ادارے ہی وہ نرسری ہیں جہاں سے کل کے سیاستدان،سپہ سالار، سپاہی منصف اور استاد پیدا ہوتے ہیں جو آنے والے کل کی ضمانت بنتے ہیں۔بحیثیت قوم کل کی سمت کیا ہو گی اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔آپ کہیں بھی چلے جائیں جتنے بھی بڑے مقام و مرتبہ پر فائز ہو جائیں، تعلیمی ادارے میں گزارے ہوئے ایام کے نقش دل و دماغ پر ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔

گورنمنٹ ہائی سکول چونڈہ کے بڑے دورازے سے داخل ہوتے ہی دائیں طرف سائیکل اسٹینڈ تھا۔کبھی سائیکل پرسکول جاتے تو اسی جگہ سائیکل تالہ لگا کر کھڑی کر تے۔چوکیدار ساری سائیکلوں کو ترتیب سے قطار میں کھڑا کر کے ان کے اندر سے ایک بڑی سی چین گزار کرباندھ دیتا ۔ اب سائیکل چھٹی ہونے پر ہی مل سکتی تھی ا س سے پہلے نہیں۔ ا سی سائیکل اسٹینڈ کی لمبی سی دیوار پر سیاہی سے جلی حروف میں ایک عبارت لکھی تھی جو آج تیس سال گزرنے کے بعد بھی اسی طرح صاف لکھی نظر آتی ہے۔تین چیزوں سے پرہیز۔ شیزان۔ شیطان۔ قادیان۔

یہ پھر بھی بھلا وقت تھا ابھی سرتن سے جدا کرنے کے نعرے مارکیٹ میں عام نہیں تھے۔ ابھی کاپیوں کتابوں کے کور پر نفرت انگیز مواد تحریر نہیں تھا۔ شرف انسانیت کا کچھ پاس ابھی باقی تھا۔ اختلاف مذہب و عقیدہ کے باوجود اکھٹے سفر کرنا ممکن تھا۔ ایک ہی کلاس میں احمدی،مسلم ،غیر مسلم، عیسائی سب بیٹھ سکتے تھے۔ہمارے ایک استاد احمدی تھے تو ایک عیسائی بھی تھے۔ سب کا احترام بطور استادبرابر تھا۔ابھی مذہب و عقیدہ کی عینک ہر معصوم بچے کی ناک پر زبردستی ٹکائی نہیں گئی تھی۔تاہم ایسی عینکوں کو تیا رکرنے کی فیکٹریا ں ضرور لگ چکی تھیں جو دھڑا دھڑ خام مال کو جنونیت کی تہہ در تہہ دبیز پرتیں چڑھا کر تیارکرنے میں دن رات مصروف تھیں۔’’مرد مومن ‘‘ کے پتلے کو بیچ آسمان پھٹتے تو دیکھ چکے تھے لیکن اس کی راکھ آنے والی کتنی نسلوں کی بینائی اچک کرلے جائے گی ا س کا اندازہ شاید ابھی نہیں لگایا گیا تھا۔ آج وہ جن پوری طرح معاشرے کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ کوئی در و  دیوار اس سے محفوظ ہیں نہ قبرستان۔مساجد محفوظ ہیں نہ سکول۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اپنے جس بچے کوحصول تعلیم کے لئے بھیج رہے ہیں جس پر آپ سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جسے معاشرے میں عزت و آبرو سے زندگی گزارتے دیکھنے کے خواب پال رہے ہیں،جسے توقیرکے اعلیٰ  مراتب پر فائز ہونے کا تصور جمائے بیٹھے ہیں ۔ وہ علم ومعرفت کی معراج پانے یا اس طرف مائل ہونے، غو رو فکر اور تدبر کی عادت ڈالنے، علمی میدان کا شہسوار بننے، تحقیقاتی میدانوں میں آگے بڑھنے،دلیل اور حسنِ خلق سے دوسروں کو قائل کرنے کے بجائے لوگوں کی گردیں مارنے  اور ان کی جان و مال و عزت و آبرو پر حملہ کرنے ، کسی کو بھی کہیں بھی اپنی مرضی سے اختلاف رائے و مذہب و عقیدہ کی بنا پر از خود فیصلہ کر کے سر تن سے جد اکرنے والی خود کارمشین میں تبدیل ہو رہا ہے۔ ایسی درس گاہیں جن کے در دیوار پر انسانی لہو، جس کی حرمت قائم کی گئی تھی، کو ارزاں کرنے کےپیغامات جلی حروف میں تحریر ہوں، وہاں سے کیسے معمارانِ قوم برآمد ہوں گے ،ا س کو سمجھنے کے لئے کسی افلاطون کی ضرورت تو نہیں ہے۔’’سکول وہ عمارت ہے جس کی چار دیواری کے اندر آپ کا آنے ولاکل پایا جاتا ہے۔‘‘

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply