ناستک/ناصر خان ناصر

ابھی ابھی میں نے یوں اپنے گیروے کپڑے اتار پھینکے ہیں جیسے مور اپنے بھاری پَر جھاڑ کر اپنے بوجھ سے مکتی حاصل کر لیتا ہے تو شانتی سے جھارنے جھنکارنے لگتا ہے۔
اشٹا نگک مارگ پر چلتے چلتے اس تاتھاگا کا ظہور بھی نہایت آشکارا اور اکمل ہوا۔
یہی سمیک درشٹی تھی کہ ہر دھرم کے سات دھاموں کا سفر کر کے ہی مکتی مل سکتی ہے۔ جیون کا سنکلپ ہی سمیک واک اور کرمانتا، سمیک اجیوا لاتا ہے۔ فقط ویایام اور سمک سمرتی ہی ہماری ہوتی ہے۔
مگر سمرتا کے پچھلے چھ جنموں سے جسے کھوجتا آیا ہوں، وہ شخص پھر اپنی اک جھلک دکھلا کر مجھ سے کھو گیا ہے۔
تم جانتے ہو تم کون ہو؟
شاید میں کسی سائے کے پیچھے لپکا تھا اور اس کے پیر پکڑ لیے تھے۔
ہاں!
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ میں ہی تھا۔
یہ پچھلے جنم کی بات ہی تو ہے۔
سائے نے اوڑھے گھونگٹ کو مزید لمبا کھینچ لیا۔
یکایک معبد کی ساری مترنم گھنٹیاں ایک ساتھ بجیں۔
“مورکھ”
اداسی کا پیلا رنگ ہولے ہولے درد کی سیاہی میں گھلتا جا رہا تھا۔۔۔ ہم عرصے سے دکھ کی کھوئی ہوئی  زبانیں بول رہے تھے مگر جیون کے تینوں اصول بھول چکے تھے۔
بدھم شرنم کچھامی
دھمم شرنم کچھامی
سنگھم شرنم کچھامی
وقت کا سندھور لہو بن کر ہمارے چہروں پر چپک گیا تھا۔
میں نے اس کے دھول سے اٹے پاؤں بڑی کوملتا سے سہلائے۔۔۔
وہ گہرا سرخ گیروا رنگ جس سے ہندو خواتین اپنے پاؤں رنگتی ہیں، ماتا لکشمی اور پاروتی کی پیروی میں۔۔ جسے سنسکرت میں لکشیہ رسا کہا جاتا ہے۔
مگر اس کے زخمی پاؤں پر تو وقت کی سیاہ دھول بری طرح جم چکی تھی۔
“جاؤ
تم پرائی  زبان کی پستک ہو۔۔۔”
اس نے دھیرے سے کہا اور اپنے پاوں چھڑوا لیے۔۔
سارے زمانوں کا سارا سوز اس کے لہجے میں یوں امڈ آیا تھا مانو سیتا ماں نے سیتا ہرن میں دھرتی کے سارے ستم سہہ کر آخرش دھرتی کو پھٹنے اور خود اس میں سما جانے کی اوکشکتا کی ہو۔
سارے سائے آخرش دوسرے سائیوں میں کیوں کھو جاتے ہیں۔۔ کاہلی سے جمائی لیتے نوجوان بدھ بھکشووں کی ایک جماعت نے یہی اک مشترکہ بات سوچی اور دھماپڈا کی تپسیا میں کھو گئے۔
آخر یہ جنم بھی اکارت گیا!
میں تاسف سے اپنے ہاتھ مل کر بدقت مقدس بڑ کے سائے سے اٹھا۔
اب مزید نجانے کتنے جنموں کے سفر درکار ہیں۔۔۔
اس نے من ہی من میں انگلیوں پر گننے کی پرتگیا کی۔
مورکھ بالک!
سنہرے بدھ کی مورتی مسکرائی۔
گیان آتے آتے ہی آتا ہے، مجسمے نے انگلی اٹھائی۔
سروم دکھم دکھم۔۔۔
جنموں کا چکر بہت سنکھٹوں سے لبا لب تھا۔
نجانے کتنے بھوگ کٹے۔۔۔ گزرے، کتنے ابھی باقی ہیں؟
دھند چھٹی تو اس نے دیکھا۔
وہ دونوں ایک بار پھر اسی مقام پر کھڑے ہیں۔
نجانے کتنے جنم گزر چکے ہیں؟
بہتی آبشار نجانے کتنے برس سوکھی رہی؟
اب نئے دھارے پھر سے پھوٹ بہنے کو یوں بیتاب ہو رہے جیسے جسم کے پکے ہوئے ناسور اور پھوڑے۔
آبشار کے بہتے پانیوں نے دیکھا اور ان کے درد کو محسوس کیا۔
ایک کی آنکھوں میں آنسو تھے، دوسرے کی آنکھوں میں تاسف۔۔۔ وقت کی کٹی انگلیاں مجسموں کے سامنے پھولوں کی بھینٹ میں چھپ گئی تھیں۔
اب وہ شخص کہہ رہا تھا اور میں سن رہا تھا۔
نہیں!
شاید میں کہہ رہا تھا اور وہ سن رہی تھی۔۔
تم ناستک ہو۔۔
پرچھائیاں پھر لمحہ بھر کو ملیں اور اپنی اپنی راہ پر اپنے اپنے دکھوں کی گٹھڑی اٹھائے چل پڑیں۔
یہ آنسو آخر کتنی منزلیں کھوٹی کرتے ہیں اور کتنے جنم بھی؟
آبشار بہہ رہے تھے، صدیوں سے دونوں وقت ملتے تھے اور پھر سے بچھڑ جاتے تھے۔
اس کی اکھیوں میں پراکرت میں کھدک کے گرنتھ کھدے تھے مگر میری آنکھوں میں پالی زبان میں ترائی  پیتاکہ کی گاتھائیں گندھی تھی۔
ہماری ونیا پٹک کو دھرتی کے جنم جنم کے پیاسے آبشار اپنے دودھیا سفید نظر آنے والے پانیوں میں بہا کر لے گئے۔ دراصل ان پانیوں کے اصل رنگ کتنے مٹیالے تھے، یہ ان میں بہتے دردوں کو بہت دیر میں پتہ چلا۔
آبشار ابھی تک گر رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply