کینسر (3) ۔ کینسر کی دریافت/وہاراامباکر

ورچو جب میڈیسن کے شعبے میں داخل ہوئے تھے، اس وقت ہر بیماری کا ذمہ دار کسی نہ نظر آنے والی فورس کو ٹھہرایا جاتا تھا۔ میاسما، نیوروسس، فاسد مادے، ہسٹیریا۔ ورچو نہ نظر آنے والی وضاحتوں سے مطمئن نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی توجہ ان چیزوں کی طرف کر لی جنہیں وہ دیکھ سکتے تھے۔ یہ خوردبین سے نظر آنے والے خلیے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جرمنی میں شوان اور شلائیڈن نے 1838 میں دعویٰ کیا تھا کہ تمام جاندار فنڈامنٹل بلڈنگ بلاک سے بنے ہیں جنہیں خلیے کہا جاتا ہے۔ ورچو انسانی بائیولوجی کی خلیاتی تھیوری تخلیق کرنا چاہتے تھے۔ یہ دو اصولوں کی بنیاد پر تھی۔ پہلا یہ کہ انسانی جسم (اور باقی جانوروں اور پودوں کے جسم بھی) خلیوں سے بنے ہیں۔ دوسرا یہ کہ خلیہ صرف خلیے سے ہی بن سکتا ہے۔
یہ دو سادہ اصول لگتے ہیں۔ لیکن انہوں نے ورچو کو وہ ہائپوتھیسس دینے کا موقع دیا جو کہ انسانی بائیولوجیکل بڑھوتری کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر خلیے صرف خلیوں سے بن سکتے ہیں تو صرف دو ہی طریقے سے بڑھا جا سکتا ہے۔ یا تو خلیوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ یا پھر خلیوں کے سائز میں۔ ورچو نے ان کو ہائپرپلاسیا اور ہائپرٹروفی کہا۔ ہاپئرٹروفی میں خلیات کی تعداد تبدیل نہیں ہوتی۔ ہر خلیہ سائز بڑھاتا ہے جیسے غبارہ پھول رہا ہو۔ ہائپرپلاسیا میں تعداد بڑھتی ہے، سائز نہیں۔
ہر بڑھتے انسانی ٹشو میں فیٹ یا پٹھے ہائپرٹروفی کی وجہ سے بڑھتے ہیں۔ جبکہ جگر، خون، آنت، جلد ہاپئرپلاسیا کی وجہ سے۔ خلیے سے مزید خلیے بن جانے کی وجہ سے۔
اس وضاحت سے نہ صرف نارمل بڑھوتری دیکھی جا سکتی تھی بلکہ ایبنارمل بھی۔ جب دل کے مسل کو شریان میں رکاوٹ ہوتی ہے تو یہ اکثر پٹھے کے خلیے کو بڑا کر کے ایڈاپٹ کرتا ہے تاکہ زیادہ قوت لگا سکے۔ دل اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ نارمل کام نہیں کر پاتا۔ یہ ہائپرٹروفی کی بیماری ہے۔
اور اسی کی برعکس ورچو جلد ہی دوسری قسم کی بیماری تک پہنچ گئے جو ہائپرپلاسیا کی بیماری ہے۔ یہ کینسر ہے۔
کینسر کے خلیوں کا مائیکروسکوپ کے نیچے بڑھنا دیکھ کر ورچو نے ہائپرپلاسیا کو اپنی انتہا کی شکل میں دیکھ لیا۔ ورچو کینسر کے آرکیٹکچر کا تجزیہ کرنے لگے۔ یہ ایک ایسی بڑھوتری ہے جو اپنی ہی زندگی لے لیتی ہے۔ جیسے خلیوں نے بڑھنے کی نئی اور پرسرار خواہش حاصل کر لی ہو۔ یہ عام بڑھوتری نہیں۔ ایک نئی شکل میں ہے۔ ورچو نے اس کا نام نیوپلاسیا رکھا۔
جب تک ورچو کا 1902 میں انتقال ہوا، کینسر کی نئی تھیوری رفتہ رفتہ تشکیل پا چکی تھی۔ کینسر ہائپرپلاسیا کی بیماری تھی جس میں خلیات خود سے تقسیم ہونے لگتے تھے۔ قابو سے باہر ہو جانے والی خلیاتی تقسیم سے ٹشو کا بڑھنا ٹیومر تھا۔ یہ اعضاء پر قبضہ جما لیتا تھا اور نارمل ٹشو تباہ کر دیتا تھا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتا تھا۔ اس کو میٹاسٹیسس کہتے ہیں۔ دور دراز کی جگہوں پر پہنچ جاتا تھا۔ ہڈیوں، دماغ یا پھیپھڑوں تک۔ کینسر بہت سی اقسام میں تھا۔ چھاتی، معدہ، جلد، سرویکل کینسر، لیوکیمیا، لمفووما۔ لیکن یہ تمام الگ لگنے والی بیماریوں کا گہرا تعلق خلیاتی سطح پر تھا۔ ہر ایک میں خلیات ویسے ہی خاصیتیں اپنا لیتے تھے۔ جو بے قابو خلیاتی تقسیم تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار جب اس کو سمجھ لیا گیا تو پھر لیوکیمیا پر واپس آیا گیا۔ یہ خون کا نیوپلاسیا تھا۔ اس سے پہلے اس شعبے کے متعلق سائنسدان نت نئے خیالات پر تحقیق کی پٹاری کھول چکے تھے۔ طفیلیے اور بیکٹیریا ڈھونڈے جا رہے تھے۔ (اور مل بھی رہے تھے)۔ ایک مرتبہ یہ سمجھ لیا گیا کہ یہ انفیکشن نہیں اور اس کو دیکھنے کا عدسہ تبدیل کیا گیا تو اس بیماری کی مماثلت دوسرے کینسر سے نظر آنے لگی۔ لیوکیمیا کے خلیے اور دوسرے کینسر کے خلیات کے درمیان واضح مماثلت تھی۔ یہ خون کے سفید خلیوں کا عارضہ تھا۔ یہ مائع شکل میں کینسر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اہم دریافت کے ہو جانے کے بعد اس کی تحقیق میں درست سمت میں پیشرفت ہو سکی۔ بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں یہ معلوم ہو چکا تھا کہ یہ بیماری خود کئی شکلوں میں ہے۔ یہ سست رفتار ہو سکتی ہے اور آہستہ آہستہ ہڈیوں کے گودے اور تلی کو خراب کرتی ہے (کرونک لیوکیمیا) یا یہ انتہائی تیزرفتار ہو سکتی ہے۔ تیز بخار، دورے، خون بہنا اور تیزی سے ٹیومر بننا (اکیوٹ لیوکیمیا)۔
اکیوٹ لیوکیمیا کی آگے دو مزید بڑی قسمیں ہیں۔ خون کے سفید خلیوں کی مزید دو اقسام ہیں۔ مائیلوائیڈ خلیے اور لمفوائیڈ خلیے۔ کونسی قسم کے خلیے بے قابو تقسیم ہو رہے ہیں؟ ان کی بنیاد پر اکیوٹ مائیلوائیڈ لیوکیمیا اور اکیوٹ لمفوبلاسٹک لیوکیمیا ہوتے ہیں۔ (ایک اور قسم لمفوما ہے)۔
بچوں میں تقریباً ہمیشہ اکیوٹ لمفوبلاسٹک لیوکیمیا ہوتا ہے اور یہ بہت جلد مار دیتا ہے۔ اس کا پہلی بار دریافت ورچو کے سٹوڈنٹ مائیکل بیرمر نے کی تھی۔ یہ ایک بڑھئی کی پانچ سالہ بیٹی ماریہ تھی۔ توانائی سے بھرپور شرارتی بچی کی پہلی علامت سے موت تک کا سفر تین روز میں ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سڈنی فاربر نیویارک میں 1903 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد پولینڈ سے آنے والے تارکِ وطن تھے۔ اپنی میڈیکل کی ٹریننگ ختم کرنے کے بعد انہوں نے بوسٹن میں بچوں کے ہسپتال میں کام شروع کیا۔ ان کی لکھی ہوئی “پوسٹ مارٹم کا تجزیہ” اس شعبے کی کلاسک کتاب سمجھی جاتی ہے۔
ان کو 1947 کی گرمیوں میں ایک خیال نے آن لیا۔ وہ بچوں کے لیوکیمیا کے علاج کے لئے قسمت آزمائی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ اس والے کینسر میں ایک فیچر ہے، وہ یہ کہ اس کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس گنتی سے شروع ہوتی ہے۔ کسی فینامینا کو بیان کرنے کے لئے سائنسدان کو اس کی وضاحت کرنا پڑتی ہے۔ معروضی طور پر اس کی وضاحت کرنے کے لئے پیمائش ضروری ہے۔ اگر کینسر میڈیسن کو سائنسی انداز سے دیکھنا ہے تو پھر کسی طریقے سے گنتی کی ضرورت ہے۔ ایسی گنتی جو قابلِ اعتبار ہو اور اس پر اتفاق کیا جا سکے۔
اور اس حوالے سے لیوکیمیا باقی کسی بھی کینسر سے مختلف ہے۔ جدید سکین والی مشینری سے پہلے یہ بتانا کہ پھیپھڑے یا چھاتی میں ٹیومر کا سائز کتنا ہے؟ سرجری کے بغیر ناممکن تھا۔ لیکن لیوکیمیا میں خون کے خلیوں یا ہڈی کے گودے سے خوردبین کے نیچے گنتی کی جا سکتی تھی۔
فاربر نے کہا کہ اگر لیوکیمیا کو گنا جا سکتا ہے تو پھر اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کسی بھی علاج کا اثر ٹھیک طریقے سے معلوم کیا جا سکے گا۔ وہ خلیوں کو بڑھتے یا مرتے دیکھ سکتے تھے اور اس کی مدد سے ڈرگ کی کامیابی یا ناکامی دیکھی جا سکتی تھی۔ کینسر پر “تجربہ” کیا جا سکتا تھا۔
اس خیال نے فاربر کو جکڑ لیا۔ اس پیچیدہ بیماری کا سادہ ماڈل بنایا جا سکتا تھا۔ پیچیدگی نچلی سطح سے ابھرتی ہے۔ بیکٹیریا کے کام کرنے کا طریقہ کثیر خلوی زندگی کے راز بھی بتا سکتا ہے۔ ژاک منود نے بتایا کہ جو ای کولائی بیکٹیریا کے لئے ٹھیک ہے، وہ انسان یا ہاتھی کے لئے بھی۔ اور یہ فاربر کے لئے لیوکیمیا کے انتخاب کی کشش تھی۔ اور انہوں نے بڑا قدم لے لیا۔
نیویار سے آنے والا پیکج دسمبر کی صبح ان کے پاس پہنچا تھا۔ انہوں نے اس کو کھول کر اس میں سے شیشے کی ٹیوب نکالیں۔ انہیں ابھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کینسر کے بارے میں سوچنے کے لئے نئی راہیں کھول رہے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply