پوجا کماری اور اقلیتوں کے حقوق۔۔سکندر پاشا

اپنی عزت و آبرو کیلئے لڑتی پوجا کماری نے جوانی کے جوبن پر جان کی بازی ہاردی اور یہ بتا دیا کہ ہندوستان میں مسلمان کے گھر پیدا ہونے والی مسکان نے حجاب کیلئے نعرہ تکبیر کی صدائیں لگائیں اور تاریخ کا حصہ بن گئی اور پاکستان میں ہندو کے گھر پیدا ہونے والی پوجا کماری نے اپنی عزت و عصمت اور آبرو کو تاتار ہونے سے بچانے کیلئے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور سسکتی بلکتی آہ و زاریاں کرتے ہوئے جان کی بازی لگا دی اور امر ہوگئی۔

سندھ کی دھرتی پر وڈیروں اور شاہوں کی ہزاروں کارستانیوں کے واقعات بکھرے پڑے ہیں جہاں معصوم سی کلیاں اپنی جان اور جوانی کی بازیاں ہمیشہ ہارتی رہی ہیں۔ماں کی چیختی چنگاڑتی آہ و بکا آپ دیکھ کر خود پہ ضبط نہیں کر سکیں گے، عین ایسی جوانی کی موت پیچھے  رہ جانے   والوں کو زندہ لاش بنا دیتی ہے۔
سندھ میں ایسے کئی واقعات ہوتے رہے ہیں جہاں ان جوان لڑکیوں کو اغواء کر کے جبرا مسلمان بنا کر ان سے شادیاں رچائی جاتی ہیں، یہ نہ تو اخلاقی اور اسلامی لحاظ سے درست ہے بلکہ شرف انسانیت کی رو سے بھی اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

اسلام انسانیت کی بقاء و تحفظ کا علمبردار دین ہے۔ ہر کس وناکس سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرف انسانیت کے منافی ہو۔ دیگر طبقات معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے، جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جاسکتا ہے۔آپ اس بات سے اندازہ لگائیے کہ اقلیتوں کے دینی معاملات میں بھی جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کی گئی ہے اور مکمل اختیار دیا گیا ہے۔

اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے :

’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘

یہ صرف ایک تنبیہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورِ مبارک میں اسلامی مملکت میں جاری تھا، جس پر بعد میں بھی عمل درآمد ہوتا رہا اور اب بھی یہ اسلامی دستورِ مملکت کا ایک حصہ ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے:
’ایک مسلمان نے ایک اہل کتاب کو قتل کر دیا اور وہ مقدمہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فیصلہ کے لیے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اہل ذمہ کا حق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قاتل کے بارے میں قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے قتل کر دیا گیا۔‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اقلیتوں کے بارے مسلمانوں کو ہمیشہ متنبہ فرماتے تھے، چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاہدین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا :
’’جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پھیلی ہوئی ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ جنت سے بہت دُور رکھا جائے گا دراصل یہ تنبیہات اس قانون پر عمل درآمد کروانے کے لیے ہیں جو اسلام نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عطا کیا۔

نبی کریم کی شان و اخلاق عالیہ دیکھیں کہ غیر مسلموں کے جو بیرونی وفود حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ان کی میزبانی خود فرماتے، چنانچہ حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا، ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہلِ کتاب کے علاوہ مشرکین سے بھی جو برتاؤ رہا اس کی بھی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ مشرکین مکہ و طائف نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے شمار مظالم ڈھائے، لیکن جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک انصاری کمانڈر سعد بن عبادۃ نے ابوسفیان سے کہا : ”آج لڑائی کا دن ہے۔‘‘

یعنی آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہو گئے اور ان سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس کے سپرد کر دیا اور ابوسفیان سے فرمایا : ”(آج لڑائی کا نہیں بلکہ) آج رحمت کے عام کرنے (اور معاف کر دینے) کا دن ہے۔‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مخالفین سے پوچھا کہ بتاؤ میں آج تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کروں گا؟ تو اُنہوں نے کہا کہ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے خطا کار بھائیوں کے ساتھ برتاؤ کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی وہی توقع ہے۔ اس جواب پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہی جملہ ارشاد فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے لیے فرمایا تھا : ( تم سے آج کوئی پوچھ گچھ نہیں تم سب آزاد ہو)۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بڑا دُشمن ابوسفیان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (جو ابوسفیان کے گھر میں آج داخل ہوا وہ امن میں ہے)۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو اس طرح پورا کیا کہ جو بھی اس دن ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوا اسے امان مل گئی۔

الغرض اسلام نے اقلیتوں کو ہر شعبے میں ایسے حقوق دئیے ہیں کہ اس جمہوری نظام کے قوانین میں بھی اسلام کے بتائے ہوئے قوانین کو فالو کیا گیا ہے، اب چاہے وہ قانون کی نظر میں اقلیتوں کا مساوی مقام ہو یا قانون کے نفاذ میں مساوات کا حق ہو۔
اس کے علاوہ اسلام نے بہت سے دیگر حقوق دئیے ہیں جیسے نجی زندگی اور شخصی رازداری کا حق، مذہبی آزادی کا حق، اقتصادی اور معاشی آزادی کا حق، اجتماعی کفالت میں اقلیتوں کا حق، روزگار کی آزادی کا حق، تحفظ اور سلامتی کا حق، تمدنی اور معاشرتی آزادی کا حق، اقلیتوں سے معاہدے کی پاسداری کا حق، جنگی قیدیوں کے حقوق وغیرہ

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہمیشہ اقلیت میں رہنے والے ظلم کا شکار رہے ہیں، ایسے واقعات سے جہاں اقلیت کے تحفظ کو غیر یقینی سمجھا جاتا ہے وہیں وطن عزیز بین الاقوامی سطح پر اپنا مقام خراب کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ کیونکہ جہاں انصاف مالدار کی لونڈی سمجھی جاتی ہو وہاں غریب کا بے انصافی کی موت مرنا معمولی بات کہلاتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply