عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت وعبادت۔۔۔۔۔حافظ کریم اللہ

ہجری کیلنڈرکے حساب سے اسلامی سال کابارہواں اورآخری مہینہ ذی الحجہ ہے اسکی وجہ تسمیہ ظاہرہے کہ لوگ اس میں حج کرتے ہیں۔اللہ رب العزت نے سال کے بارہ مہینوں میں مختلف دنوں اورراتوں کی خاص اہمیت وفضیلت بیان کر کے انکی خاص خاص برکات وخصوصیات بیان فرمائی ہیں قرآن حکیم میں ارشادباری تعالیٰ ہے۔
“بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اورزمین بنائے ان میں سے چارحرمت والے ہیں یہ سیدھادین ہے توان مہینوں میں اپنی جا ن پرظلم نہ کرواورمشرکوں سے ہروقت لڑوجیساوہ تم سے ہروقت لڑتے ہیں اورجان لوکہ اللہ پاک پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔(سورۃ التوبہ پارہ ۰۱آیت نمبر۶۳)
چار حرمت والے مہینوں میں سب سے آخری مہینہ ذوالحجہ کاہے۔باقی حرمت والے مہینے محرم الحرام رجب المرجب اورذی القعد ہیں۔یہ مہینے اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ قابل احترام ہیں اسی لئے اسلام سے پہلے دیگرمذاہب میں ان مہینوں کااحترام کرتے ہوئے لڑائی جھگڑے اور جنگ و قتال سے منع فرمایاگیاتھااس مہینہ کوبڑی فضیلت حاصل ہے۔حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا “کہ تمام مہینوں کا سردارماہِ رمضان المبارک ہے اورتمام مہینوں میں حرمت والامہینہ ذی الحجہ ہے “۔ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کی بہت بڑی فضیلت ہے۔اس ماہ کی دسویں تاریخ کوحضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے جوقربانی اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیش کی تاریخ عالم اس عظیم قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصرہے۔ اس عشرہ کانام قرآن پاک میں ” اَیَّامً مَعْلُوْمَاتٍ”رکھاگیاہے۔اس ماہ کی آٹھویں تاریخ کویومِ ترویہ کہتے ہیں کیونکہ حجاج اس دن اپنے اونٹوں کوپانی سے خوب سیراب کرتے تھے تاکہ عرفہ کے روزتک ان کوپیاس نہ لگے یااس لئے اس کویومِ ترویہ کہتے کہ سیدناحضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے آٹھویں ذی الحجہ کورات کے وقت خواب میں دیکھاتھاکہ کوئی کہنے والاکہہ رہاہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتاہے کہ اپنے بیٹے کوذبح کروتو آپ علیہ السلام نے صبح کے وقت سوچاکہ آیایہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یاشیطان کی طرف سے اس لئے اس کویومِ ترویہ کہتے ہیں۔ذوالحجہ کی نویں تاریخ کویومِ عرفہ کہتے ہیں کیونکہ سیدناحضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے جب نویں تاریخ کووہی خواب دیکھاتوپہچان لیاکہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اسی دن حج کافریضہ سرانجام دیاجاتاہے۔دسویں تاریخ سے توہرآدمی واقف ہے کہ اسے یوم ِ نحرکہتے ہیں کیونکہ اسی دن حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کی قربانی کی صورت پیداہوئی اوراسی دن عام مسلمان سنت ابراہیمی کوزندہ کرنے کے لئے قربانیاں کرتے ہیں۔اس عشرہ کے بعدگیارہویں (یوم القر)،بارہویں (یوم النفر) اورتیرہویں جنہیں ایام تشریق کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کی پہلی دس راتوں کی قسم یادفرمائی ہے ارشادباری تعالیٰ ہے۔وَ الْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍوَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ ھَلْ فِیْ ذٰلِکَ قَسَم’‘ لِّذِیْ حِجْرٍ”اس صبح کی قسم اوردس راتوں کی اورجفت اورطاق کی اوررات کی جب چل دے کیوں اس میں عقل مندکے لئے قسم ہوئی “(سورۃ الفجر۱تا۵)
وَ الْفَجْرکی تفسیرمیں مفسرین کرام کااختلاف ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ فجرسے صبح کی نمازمرادہے وَلَیَالٍ عَشْرسے ذی الحجہ کی دس راتیں مراد ہیں یعنی عشرہ ذی الحجہوَّالشَّفْع سے جس کے لغوی معنیٰ جفت کے ہیں مخلوق مرادہے اوروَالْوَتْرِ (طاق) سے مراداللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک ہے وَالَّیْلِ اِذَایَسْراورقسم اس رات کی جوگزرجاتی ہے یاجاتی ہوئی رات کی قسم اوراہل دانش کے لئے یقینایہ بڑی قسم ہے کہ اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَاد ِتمہارارب تمہاری گھات میں ہے۔حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا وَ الْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْر سے اضحی کی دس راتیں مرادہیں۔حضرت عبداللہ بن زبیراورحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے   فرمایاکہ اس سے مرادذی الحجہ کی دس راتیں ہیں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیاکہ ذی الحجہ کے اوّل عشرہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی اوران کواپنی رحمت سے نوازااس وقت وہ عرفہ میں تھے۔عرفہ میں حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی خطاکااعتراف کیاتھا۔اسی عشرہئ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی دوستی سے نوازا(اپنادوست اورخلیل بنایا)آپ علیہ السلام نے اپنامال مہمانوں کے لئے،اپنی جان آتشِ نمرودکے لئے اوراپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کوقربانی کے لئے پیش کیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذاتِ والاپرکماِ ل توکل ختم ہوگیا۔اسی عشرہئ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ شریف کی بنیادرکھی۔اسی عشرہئ میں حضرت موسیٰ علیہ السلا م کواللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کی عزت عطاہوئی۔اسی عشرہئ میں حضرت داؤدعلیہ السّلام کی لغزش معاف کی گئی اسی عشرہ میں لیلۃ المباہات (فخرومباہات کی رات)رکھی گئی۔اسی عشرہ میں بیت رضوان ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ اِذْیُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ جس درخت کے نیچے یہ بیعت ہوئی وہ سمرہ،کیکر(ببول)کادرخت تھا۔یہ بیعت حدیبیہ کے مقام پرہوئی۔اس وقت صحابہ کرام کی تعدادچودہ یاپندرہ سوتھی۔ سب سے پہلے حضرت ابوسنان اسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت کے لئے ہاتھ بڑھایاتھا۔اسی عشرہ میں یومِ ترویہ۸،یوم عرفہ۹،یوم نحر۰۱ہے اوریوم حج اکبرہے۔(غنیۃ الطالبین)
حج کارکن اعظم یوم عرفہ بھی انہی ایام میں ہے۔یہ دن بہت زیادہ شرف وفضیلت کاحامل ہے۔کیونکہ یہ گناہوں کی بخشش اورآزادی کادن ہے۔ اگر عشرہئ ذوالحجہ میں سوائے یوم ِ عرفہ کے اورکوئی قابل ذکریااہم شے نہ بھی ہوتی تویہی اس کی فضیلت کے لئے کافی تھا۔ام المومنین سیدہ عائشۃ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقائے دوجہاں سرورکون ومکاں صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایااللہ رب العزت جس طرح عرفہ کے دن لوگوں (یعنی گناہ گاروں)کوآگ سے آزادفرماتاہے اس سے زیادہ کسی اوردن میں آزادنہیں کرتا۔ایک اورحدیث پاک کامفہوم ہے جس کے راوی حضرت طلحہ بن عبیداللہ ہیں کہ آقاصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا” شیطان یومِ عرفہ کے علاوہ کسی اوردن میں اپنے آپ کواتناچھوٹاحقیر،ذلیل اورغضبناک محسوس نہیں کرتا جتنااس دن کرتاہے یہ محض اس لئے ہے کہ اس دن میں وہ اللہ پاک کی رحمت کے نزول اورانسانوں کے گناہوں سے صرف نظرکامشاہدہ کرتاہے۔ البتہ بدرکے دن شیطان نے اس سے بھی بڑی شئے دیکھی تھی عرض کیاگیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!یوم بدراس نے کیادیکھافرمایاجبرائیل علیہ السلام کوجوفرشتوں کی صفیں ترتیب دے رہے تھے۔ (مالک،عبدالرزاق یہ روایت مرسل صحیح ہے)۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا!کوئی دن ایسے نہیں ہیں جن میں نیک کام اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دنوں کی نسبت زیادہ محبوب ہو۔یعنی ان دس دنوں (عشرہئ ذی الحجہ)کی نسبت۔صحابہ کرام علہیم الرضوان نے عرض کیا!یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!جہادفی سبیل اللہ بھی نہیں!آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا!جہادفی سبیل اللہ بھی نہیں۔مگروہ آدمی جواپنی جان اورمال کے ساتھ (جہادکے لئے)نکلے اوران میں سے کوئی چیزبھی واپس نہ لائے۔(بخاری)علمائے کرام کااس بارے میں اختلاف ہے کہ ذوالحجہ کے دس دن افضل ہیں یارمضان شریف کے آخری دس دن افضل ہیں چنانچہ عالموں نے عشرہئ ذوالحجہ کوافضل مانااورکچھ اہل علم نے رمضان شریف کے آخری عشرہ کوافضل بتایا۔لیکن حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریرفرمایا۔کہ اورمختارکا مذہب بھی یہی ہے کہ عشرہئ ذوالحجہ کے دن رمضان کے آخری دنوں سے افضل ہیں۔ کیونکہ انہی دنوں میں یومِ عرفہ بھی ہے اوررمضان کے آخری عشرہئ کی راتیں ذوالحجہ کے عشرہ ئ سے افضل ہیں کیوں کہ انہی راتوں میں شب قدرہے۔(حاشیہ مشکوٰۃ ص۸۲۱)
سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا”دنیاکے افضل ترین دن ایام العشر(یعنی ذوالحجہ کے دس دن)ہیں۔دریافت کیاگیاکہ کیاجہادفی سبیل اللہ کے ایام بھی ان کی مثل نہیں؟فرمایا’جہادفی سبیل اللہ میں بھی ان کی مثل نہیں سوائے اس شخص کے جس کاچہرہ مٹی میں لتھڑجائے (یعنی وہ شہیدہوجائے)”۔ (بزار،ابن حبان)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقائے دوجہاں سرورکون ومکاں صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایاکہ ذوالحجہ کے دس دنوں میں عبادت کرناجس قدراللہ تعالیٰ کوپسندہے اورکسی دنوں میں عبادت کرنااس قدرپسندنہیں۔عشرہئ ذوالحجہ کے ہردن کاروزہ ایک سال کے روزوں کے برابرہے اورعشرہئ ذوالحجہ کی ہررات کاقیام شب قدرکے قیام کے برابرہے۔(مشکوٰۃ ج۱ ص۸۲۱)
ام المومنین سیدہ عائشۃ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایاجس شخص نے عشرہ ذی الحجہ کی کسی تاریخ کورات بھر عبادت کی توگویااس نے سا ل بھرحج اورعمرہ اداکرنیوالے کی سی عبادت کی اورجس نے عشرہ ذی الحجہ کوروزہ رکھاتوگویااس نے پوراسال عبادت کی حضوراکرم نورمجسم احمدمجتبیٰ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایاجس نے آٹھویں ذی الحجہ کاروزہ رکھااللہ تعالیٰ اسے حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کے ساتھ برابرثواب عطافرمائے گاجس نے یوم عرفہ نویں ذی الحجہ کاروزہ رکھااللہ تعالیٰ اسے حضرت عیسی علیہ السلام کے برابرثواب عطافرمائے گا۔ آپ سے روایت ہے کہ جب عرفہ کادن آتاہے تواللہ تعالیٰ اس دن اپنی رحمت کوپھیلادیتاہے اس دن دوزخ سے نجات سب سے زیادہ لوگ پاتے ہیں جس نے عرفہ کاروزہ رکھااس کے سال گزشتہ اورسال آئندہ کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔(مُکَاشِفَۃُ الْقُلُوْب)
حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ میں نے خودسناکہ ام المومنین سیدہ عائشۃ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرمارہی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے زمانے میں ایک شخص گاناسننے کابہت دلدادہ تھالیکن ذی الحجہ کاچانددیکھ کرصبح سے روزہ رکھ لیتاتھااس کی اطلاع حضوراکرم نورمجسم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم تک پہنچی آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایااس کوبلاؤ۔وہ شخص حاضرخدمت ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے دریافت فرمایاکہ تم ان دنوں کے روزے کیوں رکھتے ہو(کونسی ایسی چیزہے جس نے تم کوان دنوں کے روزوں پرابھارا)اس نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!یہ دن حج کے ہیں اورعبادت کے ہیں اورمیری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعامیں مجھے بھی شریک کردے۔آقاصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایاتم جوروزے رکھتے ہواس کے ہرروزے کے عوض تم کوسوغلام آزادکرنے،قربانی کے لئے حرم میں سواونٹ بھیجنے اورجہادمیں سواری کے لئے سوگھوڑے دینے کاثواب ہوگااورترویہ۸کے دن روزہ دارکوہزارغلام آزادکرنے ہزاراونٹ قربانی کے لیے حرم میں بھیجنے اورہزارگھوڑے جہادمیں سواری کے لیے دینے کاثواب ہے اورعرفہ کے روزہ کے عوض دوہزارغلام آزادکرنے دوہزاراونٹ قربانی کے لئے بھیجنے اوردوہزارگھوڑے جہادمیں دینے کاثواب ہوگااورسال بھرپہلے اورسال بھربعدکے روزوں کاثواب مزیدبرآں ہوگا۔(غنیۃ الطالبین)
حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایاذی الحجہ کے دس دنوں سے بڑھ کرکوئی دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل نہیں ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!یہ افضل ہیں یااتنے دنوں میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہادکرنا۔ ارشادفرمایااللہ کی راہ میں اس تعدادمیں جہادکرنے سے بھی یہ افضل ہیں اوراللہ کے نزدیک یوم ِ عرفہ سے زیادہ افضل کوئی دن نہیں۔عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ آسمان ودنیاکی طرف خاص تجلی فرماتاہے اورزمین والوں کے ساتھ آسمان والوں پرفخرکرتاہے اوران سے فرماتاہے میرے ان بندوں کودیکھوکہ پراگندہ سراورگردآلوددھوپ کھاتے ہوئے دوردورسے میری رحمت کی امیدوارحاضرہوئے توعرفہ سے زیادہ جہنم سے آزادہونے کسی دن میں دیکھے نہ گئے اوربیہقی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ سے فرماتاہے میں تم کوگواہ کرتاہوں کہ میں نے انہیں بخش دیااورفرشتے کہتے ہیں ان میں فلاں فلاں حرام کام کرنیوالے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتاہے میں نے سب کوبخش دیا۔(ابویعلیٰ،بزار،ابن خزیمہ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا جوشخص عرفہ کے دن ظہروعصرکے درمیان چاررکعتیں اس ترکیب سے پڑھتاہے کہ ہررکعت میں سورۃ الفاتحہ ایک باراورسورۃ الاخلاص پچاس بارتواس کے لئے ہزاروں نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔قرآن مجیدکے ہرلفظ کے عوض جنت میں اس کامقام ومرتبہ اونچاکیاجائے گاجس کی مسافت پانچ برس کی مسافت کے برابرہوگی اورقرآن کے ہرحرف کے عوض اللہ تعالیٰ ۰۷سترحوریں اس کومراحمت فرمائے گا۔ہرحورکے ساتھ سترخوان موتی اوریاقوت کے ہوں گے۔ہرخوان پرہزاررنگ کے کھانے ہوں گے جوسترہزارسبزرنگ کے گوشت کے ہوں گے کھانے برف کی طرح سرداورشہدکی طرح شیریں اورمشک کی طرح خوشبودارہوں گے اس کھانے کونہ آگ نے چھواہوگااورنہ لوہے سے گوشت کوکاٹاگیاہوگا۔ہرلقمہ پہلے لقمے سے بہترہوگااس کے پاس ایک ایساپرندہ آئے گاجس کی چونچ سونے کی،بازوسرخ یاقوت کے ہوں گے اس پرندے کے سترہزارپَرہوں گے پرندہ ایسی زمزمہ سبخیاں کرے گاکہ کسی نے ایسی نہیں سنی ہوں گی یہ پرندہ کہے گااے اہل عرفہ!مرحباحضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایاپھروہ پرندہ اس شخص کے پیالہ میں گرجائے گااس کے ہرپَرکے نیچے سے سترقسم کے کھانے نکلیں گے جنتی ان کوکھائے گاپھروہ پرندہ اڑجائے گااس نمازکے پڑھنے والے کومرنے کے بعدجب قبرمیں رکھاجائے گاتوقرآن کے ہرحرف کے باعث اس کی قبرجگمگااٹھے گی یہاں تک کہ وہ بیت اللہ کے طواف کرنے والوں کودیکھ لے اس کے لئے جنت کاایک دروازہ کھول دیاجائے گا۔اس دروازے سے اس کووہ ثواب اورمرتبہ دکھائی دے گاجواس کے لئے مخصوص ہوگااس کودیکھ کرکہے گاالٰہی قیامت برپاکردے۔(غنیۃ الطالبین،ص438,439)
ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ چارچیزیں ایسی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے انہیں کبھی ترک نہیں کیاعشرہئ ذی الحجہ کے روزے، عاشورہ کاروزہ،ہرمہینے کے تین روزے یعنی یوم بیض کے دن اورفجرکے فرضوں سے پہلے دورکعت نماز،۔(غنیۃ الطالبین)
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایاجوشخص ذوالحجہ کی پہلی تاریخ سے لیکردسویں ذوالحجہ تک ہرروزعشاء کے وتروں کے بعددورکعت نمازنفل اس طرح پڑھتا ہے کہ ہررکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعدسورۃ الکوثراورسورۃ الاخلاص تین تین بارپڑھتاہے اللہ تعالیٰ اسے مقام علیین میں داخل کرے گااور اس کے ہربال کے بدلے میں اس کو ہزارنیکیاں اورہزاردینارصدقہ دینے کاثواب ملتاہے۔(فضائل الشہور)
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنوں میں سے چاردن،مہینوں میں سے چارمہینے اورعورتوں میں سے چارعورتیں پسند فرمائی ہیں۔چارآدمی جنت میں سب سے پہلے جائیں گے اورچارآدمیوں کی جنت ازخودمشتاق ہے۔اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دنوں میں سے پہلا دن جمعہ کاہے اس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں جب کوئی اللہ تعالیٰ سے دنیااورآخرت کے متعلق دعاکرتاہے تووہ دعا قبول ہوجاتی ہے۔ دوسرانویں ذوالحجہ کایعنی عرفہ کادن اس دن اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتاہے جاؤدیکھومیرے بندے بکھرے بال غبار آلود چہرے مال خرچ کرکے مشقت برداشت کرکے حاضرہوئے ہیں تم گواہ رہومیں نے انہیں بخش دیاہے۔تیسرادن قربانی کاہے قربانی سے بندہ قرب الٰہی طلب کرتاہے جونہی قربانی کے خون کاپہلاقطرہ زمین پرگرتاہے وہ بندے کے ہرگناہ کاکفارہ ہوجاتاہے چوتھاعیدالفطر کادن ہے جس دن روزہ رکھنے کے بعد نمازِعیدکے لئے بندے جمع ہوتے ہیں تواللہ تعالیٰ فرشتوں کوفرماتاہے،ہرمزدوراپنی مزدوری مانگتا ہے میرے بندوں نے پورے مہینے کے روزے رکھے اب نمازِ عیدکے لئے نکلے ہیں وہ مزدوری مانگتے ہیں تم گواہ رہومیں نے انہیں بخش دیا اور پکارنے والاکہتاہے اے امت محمدصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!تم واپس جاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہاری برائیوں کوبھی نیکیوں میں تبدیل کردیااللہ تعالیٰ کے چار پسندیدہ مہینے یہ ہیں۔ایک رجب المرجب جوتنہایعنی علیحدہ مہینہ ہے۔ باقی تین مہینے ذی القعدہ،ذی الحجہ،اورمحرم الحرم ہیں۔اللہ پاک کے حضور جن عورتوں کامقام ہے وہ یہ ہیں۔سیدہ مریم بنت عمران،ام المومنین سیدہ خدیجہ بنت خویلد کیونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم پرایمان لائیں۔ فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم،سیدۃ النساء العالمین سیدہ طیبہ طاہرہ عابدہ زاہدہ حضرت فاطمۃ الزہراسلام اللہ علیہابنت محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہیں۔ چار قوموں میں سبقت لے جانے یعنی جنہوں نے آقاصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم پرایمان لانے میں سب سے اوّل پہل کی۔عربوں میں سیدناحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اہل فارس میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ،اہل روم میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوراہل حبشہ میں سیدناحضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل ہیں۔ جن آدمیوں کی جنت مشتاق ہے ان میں حضرت علی المرتضیٰ شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم،حضرت سلمان فارسی ،حضرت عماربن یاسر اورحضرت مقدادبن اسودرضی اللہ تعالیٰ عنہما شامل ہیں۔(مُکَاشِفَۃُ الْقُلُوْب)اللہ رب العزت اس مقدس عشرہ کے صدقے ہمارے گناہ معاف فرمائے اوربروزقیامت حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے۔ملک پاکستان کوامن کاگہوارہ بنائے،آمین بجاہ النبی الامین

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply