• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(اکیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(اکیسواں دن)۔۔گوتم حیات

آج صبح میں جلدی اُٹھ گیا تھا، گرمی بہت تھی اس لیے رات بھر میں ٹھیک سے سو بھی نہیں سکا۔ اگر لاک ڈاؤن نہ ہوتا تو یہ رات میں باہر چہل قدمی کر کے گزارتا۔
صبح سویرے چائے پی کر میں نے فیس بُک چیک کیا تو ایک پوسٹ مختلف دوستوں کی وال پر نظر آئی، تصویر تو پرانی تھی جس میں نیلی شرٹ زیب تن کیے ایک شخص سڑک پر کمر کے بل گرا ہوا ہے (گرایا گیا ہے)، اس شخص کے آس پاس پولیس والے اپنی لاٹھیوں کے ساتھ زدوکوب کرتے ہوئے باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں، چند ہی قدم کے فاصلے پر دوسرے بہت سے لوگ ہیں جن کو پولیس نے لاٹھی چارج کر کے منتشر کر دیا ہے، یہ تصویر شہرِ کراچی کی ہے اور وہ شخص جو پولیس کے لاٹھی چارج کی وجہ سے سڑک پر گرا دیا گیا ہے اس کا نام ہے “احفاظ الرحمٰن”، احفاظ صاحب کی اس پرانی تصویر کے ساتھ ایک تازہ خبر نمایاں تھی جس پر لکھا تھا۔۔
“نامور صحافی، ادیب اور شاعر احفاظ الرحمٰن انتقال کر گئے”۔ یہ خبر پڑھ کر مجھے دکھ ہوا، سر احفاظ اس شہر کے ان بہادر سپوتوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے زندگی کی آخری سانس تک کُھل کر لکھا، ان کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ کسی بھی قسم کی مصلحت سے پاک رہے۔ ظلم چاہے فلسطین میں ہو رہا ہو یا ان کے اپنے شہر، اپنے ملک میں، احفاظ صاحب کا قلم سب ہی جگہوں میں رہنے والے غاصبوں کے خلاف کھل کر مزاحمت کرتا رہا، ان کا قلم ہمیشہ کمزوروں کو طاقت فراہم کرتا رہا اور غاصبوں کو ان کی حیثیت بتاتا رہا۔

یونیورسٹی کے زمانے سے ہی میں نے صائمہ اور صدف کے ساتھ علمی و ادبی نشستوں میں جانا شروع کر دیا تھا، اس دوران ہم نے بہت سے ایسے پروگراموں میں شرکت کی جن میں احفاظ صاحب مقرر کی حیثیت سے مدعو تھے۔ ان کو سن کر ہمارے اندر بھی ایک حوصلہ پیدا ہوتا تھا، ہم لوگ بہت مرعوب اور متاثر رہے “سر احفاظ” کی شخصیت سے۔

سر احفاظ سے مرعوب ہونے کی ایک خاص وجہ میڈم زاہدہ حنا کے لکھے ہوئے وہ شاہکار کالمز بھی تھے جن کو ہم نے کئی بار پڑھا تھا، اور ان میں بیان کیے گئے ایک ایک لفظ پر ہم ایمان لے آئے تھے۔ میڈم زاہدہ حنا نے اپنے کالمز میں بھرپور طریقے سے سر احفاظ کی شخصیت کا احاطہ کر کے ان کی جدوجہد کو بیان کیا ہے۔

آج سر احفاظ کی موت کے دکھ میں مبتلا، میں بہت دیر تک اُن کو یاد کرتا رہا، مجھے وہ سارے پروگرام یاد آئے جن میں ہم لوگوں نے شرکت کی تھی، ان پروگراموں کی تصویروں کو نکال کر دیکھا۔۔۔ کچھ تصاویر میں میڈم زاہدہ حنا بھی سر احفاظ کے ساتھ تھیں۔ میں نے اپنے یوٹیوب چینل پر وہ ویڈیو آج دوبارہ دیکھی جس میں میڈم زاہدہ حنا “سر احفاظ الرحمٰن” پر مضمون پڑھ رہی ہیں۔ ویڈیو دیکھتے ہوئے مجھے وہ دن یاد آگیا جب میں بھاگا بھاگا اس تقریب میں شرکت کے لیے “پی ایم اے ہاؤس” گیا تھا، کچھ ذاتی کاموں کی وجہ سے مجھے دیر ہو گئی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ اب جانے کا کوئی فائدہ نہیں، سیشن تو ختم ہونے والا ہو گا۔ افسردہ چہرہ بنائے جب میں نے ہال کا دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا کہ پروگرام تو ابھی کچھ منٹ پہلے ہی شروع ہوا ہے، میں خوشی خوشی سامنے کی طرف دوسری قطار کی تیسری نشست پر بیٹھ گیا تھا، مجھ سے آگے والی نشست پر سر احفاظ الرحمٰن اور ان ہی کے برابر میں میڈم زاہدہ حنا اور محترمہ میناز رحمٰن صاحبہ بھی تشریف فرما تھیں۔
“پی ایم اے ہاؤس” میں ہونے والی وہ تقریب احفاظ الرحمٰن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی، یہ تقریب بنیادی طور پر “پی ایم اے لٹریری فیسٹیول” کا حصہ تھی۔

سر احفاظ کو یاد کرتے کرتے میں نے میڈم زاہدہ حنا کو فون کیا۔ آج ان سے تقریباً ایک ہفتے کے بعد میری بات ہوئی۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے میں میڈم سے بھی ملنے نہیں جا سکا۔ وہ بہت دُکھی تھیں سر احفاظ کے انتقال  پر، میں نے میڈم کی خیریت پوچھی اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ
“میں تمہاری ڈائری نہیں پڑھ سکی، اس کے لیے معذرت اور نہ ہی تمہیں داد دے سکی ہوں، آنکھوں میں درد کی وجہ سے  سکرین پر کچھ پڑھا ہی نہیں جا رہا۔۔۔ تم لکھتے رہو، یہ بہت اچھی بات ہے کہ تم لکھ رہے ہو”، میں نے میڈم سے کہا کہ “یہ لاک ڈاؤن ختم ہو جائے تو میں آپ کو پرنٹ کاپی دوں گا تمام اقساط کی، آپ تسلّی  سے پڑھ لیجیے گا، اس وقت  سکرین پر پڑھنا آپ کے لیے مناسب نہیں”، میڈم کو خدا حافظ کہہ کر میں نے ان کے پرانے کالمز کو دیکھا جو سر احفاظ پر لکھے گئے تھے۔ ان ہی کالمز میں سے ایک منتخب پیراگراف میں یہاں نقل کر رہا ہوں۔

میڈم زاہدہ حنا نے اس ایک پیراگراف میں سر احفاظ الرحمٰن کی پوری جدوجہد کو نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ رقم کر دیا ہے۔ آپ لکھتی ہیں۔
“زیادہ پرانی نہیں 2007ء کے نومبرکی بات ہے جب میں نے پریس کلب کے سامنے انہیں   پولیس والوں کی لاٹھیاں کھا کر سڑک پر گرتے اور گرفتاری دیتے دیکھا۔ جی خوش ہوا کہ ماہ وسال کی گردشوں نے احفاظ کا کچھ نہیں بگاڑا۔
ان کی رگوں میں لہریں لیتا ہوا لہو اتنا ہی سرشور اور اتنا ہی انقلابی ہے جتنا ان کی جوانی کے دنوں میں تھا۔ غاصبوں کے خلاف ان کا غصہ ذرا بھی کم نہیں ہوا۔
جنرل ایوب، جنرل ضیاء، جنرل پرویز مشرف کسی کا بھی دور ہو، ان کی روح پر ہر دور کے تازیانوں کے نشان ہیں”۔

ایسے تھے ہمارے شہر کے ایک سچّے، بہادر لکھاری۔۔۔
“سر احفاظ الرحمٰن” جن کی روح پر ہر دور کے تازیانوں کے نشان ہیں۔ آج میں اپنی ڈائری کی اکیسویں قسط لکھ رہا ہوں بلکہ تقریباً لکھ چکا ہوں، یہ قسط میں محترم “سر احفاظ الرحمٰن” کے نام کر رہا ہوں۔

احفاظ الرحمٰن نے آزادی، برابری، سچائی، بہادری، کَمِٹمِنٹ، امن پسندی اور مزاحمت کے جن اُصولوں کے تحت اپنی پوری زندگی گزاری وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کی لکھی ہوئی کتابیں ہم پڑھنے والوں کے دلوں اور دماغوں کو مزاحمت کی آگ سے گرماتی رہیں گی، غاصبوں سے ٹکرانے کا حوصلہ فراہم کرتی رہیں گی۔

اب میں اپنے پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے احفاظ الرحمٰن کے “خط” سے ان کی نظم کے کچھ اشعار نقل کر رہا ہوں۔ یہ خط احفاظ صاحب نے اپنے ایک دیرینہ ہندوستانی “دوست” کے نام لکھا تھا۔ مجھ تک یہ خط میری ایک شفیق استاد “ڈاکٹر شہناز شورو” کے توسط سے “یُوٹیوب ویڈیو لِنک” کی صورت میں تقریباً تین سال قبل پہنچا۔
ڈاکٹر شہناز شورو نے اس خط کو نہایت ہی دلکشی کے ساتھ پڑھا ہے، یہ ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے۔
نظم کا عنوان ہے “محبت کم نہ ہونے دو” اور اس نظم کے منتخب اشعار حاضرِ خدمت ہیں۔
“فضا میں میٹھی خوشبو کی لہک کو کم نہ ہونے دو
جو نفرت بیچتے ہیں، خون کا بیوپار کرتے ہیں
خوشی کی کوکھ پر خنجر سے اپنے وار کرتے ہیں
لرزتی آرزوؤں کو ڈرا کر شاد ہوتے ہیں
وہ نازک تتلیوں کے خواب سے زیروزبر ہوں گے
پرندوں کی حَسِیں چہکار سے زیروزبر ہوں گے
پرندوں کے حَسِین نغموں کو،
نازک تتلیوں کو رقص کرنے دو،
محبت کم نہ ہونے دو، محبت کم نہ ہونے دو”

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply