زندہ لاشیں (سانحہ ءِ پتوکی کے اشرف کے نام)۔۔وقاص رشید

ایک ویڈیو دیکھی ہے . دیکھ کے ہی روح کانپ گئی ہے. روئے زمین پر انسانی جان کی بے وقعتی سے سانس سینے میں گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے . مٹی کے بتوں کی بے حسی اور مردنی پر دل جیسے سینے کے اندر ہی سینہ کوبی کر رہا ہو. سینے کی دیواروں سے ٹکرا رہا ہو. دھڑکن جیسے انسانیت کے قتل پر ماتم کی صدا. اس منظر میں موجود حیوانیت اور درندگی آنکھوں میں گویا زہر آلود کرچیوں کی طرح چبھ رہی ہے. دکھ ہے کہ قطرہ قطرہ پگھلے ہوئے سیسے کی طرح روح کو چھیدتا ہو.
ایک انسان کی لاش پڑی ہے. اسکا نام اشرف ہے اسکے چہرے پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں. یہ وہ چہرہ ہے جسے شام کو اسکے بچوں نے زندہ دیکھ کر اپنے زندہ ہونے کا یقین کرنا تھا. کیونکہ پاپڑ بکنے تھے تو آٹا آنا تھا اور آٹا ہی یہاں زندگی ہے. اشرف اس شادی ہال میں گیا تھا. وہاں کے بچوں کو پاپڑ بیچنے، اپنے بچوں کے لیے زندگی خریدنے..آٹا خریدنے. اسے کسی بات پر وہاں لوگوں نے تشدد کر کر کے مار دیا.. اسکے بچوں کا آٹا اپنی وحشت پر وار دیا. اور اسکی لاش وہیں…وہیں پر نیچے لٹا کر خود پاس بیٹھ کر وہی روٹی کھانے لگے جس نے نہ جنت کا رہنے دیا نہ زمین کا…
گندم کے دانوں کے عوض دوسرے پلڑے میں بکتے انسانوں کے لیے احساس ،اقدار اور کردار جیسے الفاظ ہمیشہ روٹی سے ہلکے ہوتے ہیں.
اس منظر پر یقین ہی نہیں آ رہا. نہیں..نہیں یہ بھلا کیسے ممکن ہے. کسی انسانی سماج میں…
اتنے میں اپنے ہی اندر سے ایک آواز اٹھی..او… بس کر دے میاں یہ شاعرانہ اور فلسفیانہ باتیں. کون سے انسان؟ کون سا سماج…؟
یہ قبرستان ہے…قبرستان. 22 کروڑ زندہ لاشوں کا ایک قبرستان. کبھی دیکھا قبرستان میں کسی قبر کے پاس کوئی نئی لاش..کسی مرنے والے کا جسدِ خاکی لا کر رکھا گیا ہو اور قبروں میں سے کسی نے سر اٹھا کر دیکھا ہو. کوئی ٹس سے مس ہوا ہو. اپنی دنیا سے کبھی ایک لحظے سے نکل کر لاش کی جانب متوجہ ہوا ہو… کبھی دیکھا ؟نہیں ناں.. تو بس یہ ایک قبرستان ہے. یہاں بس روٹی کے پروردہ لوگ رہتے ہیں. یہاں جیتے جاگتے مردہ لوگ رہتے ہیں. بائیس کروڑ زندہ لاشیں.
انسانی سماج، انسانی معاشرہ. کتابی باتیں تقریری جملے..اور بس. تُف ہے یہاں لوگ جیسے پیدا ہوتے ہیں مرتے بھی ایسے ہی ہیں. دو انسان اپنی جنس کی بھوک مٹاتے ہیں تو اسکے نتیجے میں اتفاقیہ طور پر یہاں نئے انسان پیدا ہو جاتے ہیں. جنکی نہ کوئی تربیت نہ انکی کوئی کردار سازی. جو اپنے ماں باپ کو روٹی کے عوض دوسرے پلڑے میں تُلتا اور زندگی بھر رُلتا دیکھتے ہیں. اپنے استاد کو روٹی کے عوض تعلیم کو بیچتا دیکھتے ہیں اور اپنے ریاستی حکمرانوں کو اسی روٹی کے عوض قومی اقدار کو سرخ قالینوں پر پیروں میں روندتا دیکھتے ہیں تو بڑے ہو کر اسی طرح زندہ لاشیں ہی بنتے ہیں. اس روٹی کے عوض جس کی قیمت اچھی لگ گئی وہ اشرف المخلوقات..وہ کسی پاپڑ والے کو مار کر اسکی لاش کے ساتھ بیٹھ کر روٹی کھا سکتے ہیں کیونکہ پاپڑ بیچنے والا اشرف تھا اشرف المخلوقات نہیں..
—“زندہ لاشیں “—-
(پتوکی کے اشرف کے نام)
میں نے ہے اک ویڈیو دیکھی
دیکھ کے ہی روح کانپ گئی
جان و دل جیسے ہوں بنجر
آنکھیں جیسے ہو گئیں پتھر
شادی ہال کا منظر تھا
منظر کیا تھا محشر تھا
اک انسان کی لاش کے ساتھ
ہائے ولیمے کھانے والے
انسانیت کے موت کے سنگ
ایسے جشن منانے والے
بے حسی اور ذلت کے
اک احساس کی قلت کے
پتھر دل پروردہ لوگ
جیتے جاگتے مردہ لوگ
درد بتاؤں لوگو کیسے
انسانیت کی موت پہ ایسے
ہونگی کب شرمندہ لاشیں
ہم سارے ہیں زندہ لاشیں
۔———————————
محمد وقاص رشید

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply