• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بائیں بازو کی غلطیا ں یا ریاست کا جبر(2،آخری حصّہ)۔۔شہباز احمد

بائیں بازو کی غلطیا ں یا ریاست کا جبر(2،آخری حصّہ)۔۔شہباز احمد

آج ہمارے ہاں یہ صورت حال ہے کہ اگر آپ مارکس کو پڑھتے ہیں یا مارکس آپ کو پسند ہے یا کوئی بھی ایسا مصنف آپ کو پسند ہے۔ آپ کے مخالف یا آپ کے قریب   بیٹھنے والوں کو وہ پسند نہیں ہے تو آپ پر سب سے پہلا جو فتوی صادر کیا جائے گا وہ دہریہ ہونے کا ہو گا ۔یہ فتوی لگانے والا بغیر سوچے سمجھے یہ بات کر کے وہاں سے چلا جائے گا۔ لیکن جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہ ایک شخص کے لیے مصیبت بن جائے گا ۔اس کا مجھے ذاتی تجربہ ہو چکا ہے۔میں ایک کالج میں پڑھاتا ہوں ۔ کچھ سال پہلے میں نے ایک کتاب لایبریری سے پڑھنے کے لئے لی۔ وہ کتاب پنجاب پر تھی لیکن ایک ترجمہ تھا ، بھگت سنگ بلگہ نے وہ کتاب لکھی ہوئی ہے ۔ فکشن ہاؤس لاہور سے وہ کتاب شائع ہوئی تھی۔ پاکستان میں اس کا ترجمہ شائع ہوا۔ کمرے میں  وہ کتاب میز پر پڑی ہوئی تھی ۔ کچھ دوست پہلے سے کمرے میں موجود تھے ۔ایک دوست کمرے میں داخل ہواکتا ب کوالٹ پلٹ کر دیکھا ۔ دوبارہ میز پر رکھ دی ۔ پھر انہوں نے کہا کہ ایسی کتابیں صرف شہباز صاحب ہی پڑھ سکتے ہیں ۔ حالانکہ اس کتاب میں تو ایسا کچھ بھی نہ تھا  ۔لیکن ہمارے ہاں یہ ایک رویہ بن چکا ہے کہ فلاں شخص ایسی کتابیں پڑھتا ہے تو وہ لازمی مذہب کے خلاف ہو گا۔ جہاں پر دن رات ایسی سوچ کو پروان چڑھایا گیا  ہو ۔ اس معاشرے میں اگر کچھ لوگ عوام کے لیے کام کر رہے ہوں تو کیا برائی ہے؟ جہاں پر اتنے پڑھے لکھے لوگوں کی سوچ میں بھی اس قدر تعصب ہو تو کجا ایسے لوگوں کو ریاست کیوں کر قبول کرے گی جو ریاست کے بیانیے  کو ہی  چیلنج کر یں – تو پاکستان میں بھی بایئں بازو کے ساتھ یہ ہی ہوا کہ وہ ریاست کے بیانئے کو ہی  چیلنج کر رہے تھے۔وہ لوگ ایک متبادل بیانیئے کی بات کر رہے تھے جو ریاست کو کسی بھی صورت قابل قبول نہ تھا۔

پاکستان بن چکا تھا ۔ اب پاکستان کے مسائل کو کس طرح حل کیا جائے ۔ پاکستان بنانے والوں کے پاس کھوکھلے نعروں کے علاوہ کچھ نہ تھا ۔ جن نعرہ کی بنیاد پر پاکستان بنایا گیا ان کو پاکستانی عوام کی قسمت بنا دیا گیا ۔ ان نعروں کے بل بوتے پر ہی اشرافیہ ان کو لولی پاپ دیتی رہی۔ جو لوگ عوام میں جا کر  کام کر رہے تھے وہ یہ بائیں بازو کے ہی لوگ تھے۔ انہوں نے عوام کو بتانا شروع کیا کہ کس طرح اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہے ۔ اگر یہ تحریک اتنی ہی کمزور تھی تو کیوں اس وقت کی  حکومت اور اشرافیہ ان کے خلاف تھی ۔ کیوں ان پر جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے تھے اور ان کو جیلوں میں ڈالا جا رہا تھا ۔ اگر یہ تحریک اس قدر کمزور تھی تو کیوں ایوب خان نے حسن ناصر کو شاہی قلعہ میں تشدد کر کے شہید کیا اور لاش کو بھی ورثا ء کے حوالے کر نے سے انکار کر دیا ؟ یہ بائیں بازو کی تحریک ہی تھی کہ جس نے اس ملک کی اشرافیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور یہ ہی وجہ تھی کہ اس کو ایک ایسےکیمپ میں جا کر پناہ لینا پڑی جہاں سے ان کے من کی مرادیں پوری ہوتی رہیں۔  یہ   کیمپ پاکستان کی بھولی بھالی عوام کے گلے کا پھندا بن گیا۔ اور آج تک عوام اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے ۔آئندہ بھی حالات کچھ بہتر ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ جب آپ کے سامنے والے کو یہ علم ہو کہ میدان بالکل خالی ہے تو اس کو پھر ہارنے کا کیا ڈر ہو گا ۔ یہ ہی کچھ پاکستان میں بھی ہوا ۔ میدان  خالی ہے ۔ کوئی  سامنے آنے والا نہیں ہے۔

1947 ء سے لے کر آج تک یہ نعرے ہی اس عوام کا مقدرکیوں ٹھہرے ؟ اشرافیہ کو ایک متبادل بیانیہ کیوں پسند نہیں تھا؟ اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ وہ  جمود چاہتے تھے جو ان کی بقا کے لئے بہت ضروری تھا ۔ ہم بھی اس ایک رییاستی بیانئیے کے اسیر ہو چکے ہیں۔ وہ چاہے پاکستان کے دانشور ہو ں یا کوئی بھی ہو وہ اس بیانیئے کے گن ہی گاتا ہوا نظر آتا ہے ۔ کچھ کا تو ویسے ہی روزگار اس بیانئے سے جڑا ہوا ہے ، وہ توہمیشہ دم ہلاتے رہیں گے چاہے کچھ بھی ہو جائے ۔ تو بائیں بازو کے لوگ ہی تھے جواس ملک میں ایک  ریاست مخالف بیانیہ پیش کرتے تھے جس وجہ سے ان کو سو سو طرح کے مسائل کا  سامنا کر نا پڑتا۔ کبھی جیلو ں میں تو کبھی کچھ تو کبھی    کچھ ۔یہ سب کچھ بائیں بازو کے ساتھ ہی کیوں ہو رہا تھا ؟دوسری دائیں بازو کی جماعتوں کو کیوں حکمرانوں نے ڈھیل دے رکھی تھی کیوں کہ وہ ان کے مفادات کا تحفظ کر رہی تھیں جن میں جماعت اسلامی سر دست تھی ۔ اس کے ذریعے  بائیں بازو کے لوگوں پرحملے کروائے جاتے۔ ان کو غدار کہلوایا جاتا ۔ یہ سب کون کر رہا تھا ؟ اس سب کا توڑ صرف اور صرف مزدورتحریکیں اور ترقی پسند تحریکیں ہی کر رہی تھیں جو ریاست کو ایک نظر نہ بھاتی تھیں۔

اب ذرا ہم ان نعروں کی قلعی کھولتے ہیں کہ یہ نعرے کیوں لگائے جاتے ہیں کیوں کہ یہ اشرافیہ کی بقا کی ضمانت ہیں ۔اس لیے ان کواستعما ل کیا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں افریقہ کا ایک دانشور کیا خوبصور ت بات کرتا ہے کہ جب کوئی تحریک چل رہی ہوتی ہے تب تک تو یہ گیت اور نعرے بہت مسحور کن ہوتے ہیں ۔اس وقت ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ لوگ اس پر واہ واہ بھی کرتے ہیں۔ کام چلتا رہتا ہے ۔ جوں ہی یہ تحریک اپنے مقاصد حاصل کر لیتی ہے  تو یہ نعرے بے وقعت ہو جاتے ہیں ۔ کام مکمل ہو گیا جو محنت کی اس کا ثمر آپ نے حاصل کر لیا ۔ تحریک  کی کامیابی کے بعد اب عوام کا سامنا اصل اور حقیقی  مسائل کے ساتھ ہوتا ہے ۔ لوگو ں کو روز گار ، صحت ،تعلیم اور دوسرے مسائل کا سامنا ہوتا ہے ۔ جب ریاست اس سب سے بے اعتنائی برتتی ہے تو وہ ان نعروں کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے ۔ وہ افریقہ کے تناظر میں بات کرتا ہے ۔ اگر ہم پاکستان کے تناظر میں بات کریں تو وہ نعرے ہمیں صاف صاف نظر آ جائیں گے کہ وہ کون سے ہیں؟ کب کب ان کا استعمال کیا جاتا ہے اور کیوں کیا جاتا ہے؟ کیوں ریاست اپنی ذمہ داریوں پوری نہیں  کرتی ہے؟اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے یہ سب کچھ ان کو کرنا پڑتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہذا جب تک ریاست کے متبادل بیانیہ نہیں پیش کیا جائے گا عوام کی قسمت کبھی نہیں بدلےگی۔ سیاست اور مذہب کو علیحدہ نہیں کیا جائے گا تو پاکستان کا مستقبل کبھی بھی روشن نہیں  ہو سکتا ہے۔

Facebook Comments

شہباز احمد
اسٹنٹ پروفیسر ،شعبہ تاریخ ، گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بائیں بازو کی غلطیا ں یا ریاست کا جبر(2،آخری حصّہ)۔۔شہباز احمد

  1. سر آپ نے بلکل سچ فرمایا۔پاکستان کا مستقبل اور حال اس عوام کے حوالے ہے۔ اس میں جو کچھ بھی ہے وہ عوام کے لیے ہے۔اگر عوام ہی پچھے ہٹ جائے تو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
    صہیب شفیق

Leave a Reply