نظم و ضبط جاپانی ثقافت۔۔مہر ساجد شاد

کئی سال پہلے ہمارے ایک جاننے والوں سے تیار چمڑا خریدنے ایک ادھیڑ عمر  صاحب  اپنی نوجوان بیٹی کے ہمراہ جاپان سے آتے تھے ، یہ لڑکی اس وقت یونیورسٹی میں پڑھتی تھی لیکن اپنے والد کے کام میں ہاتھ بٹاتی تھی۔ یہ لوگ پندرہ بیس سال پہلے بھی سفید ماسک پہنتے تھے لڑکی سفید کپڑے کے دستانے پہنتی تھی۔ یہ لوگ کام سے فارغ ہوتے ہی ہاتھ دھوتے اور پھر کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ کر ہی ماسک ہٹاتے۔ ایک دفعہ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ جاپان میں 1919 میں آنے والے فلُو کے وقت سے کپڑے کا ماسک استعمال کیا جاتا ہے اور یہ ہماری عادت بن چکی ہے اس سے دوسرے ہمارے منہ کی بدبو سے بھی محفوظ رہتے ہیں، اور اگر کوئی بیمار ہو تو وہ لازم پہنتا ہے، ہم ہجوم والی جگہوں پر ماسک پہن کر جاتے ہیں تا کہ ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا احساس بیدار رہے۔

قطار بنانا جاپانیوں کی تابندہ روایت ہے، یہ دونوں باپ بیٹی کار میں بیٹھنے لگتے یا کام کیلئے سلیکشن ہال میں داخل ہونے لگتے تو ورکرز کے ہمراہ قطار بنا لیتے لوگ انہیں راستہ دینے کی کوشش بھی کرتے لیکن یہ مسکرا کر انہیں لائن میں رہنے کی تاکید کرتے، ہماری زندگی میں یہ پہلے جاپانی باشندے تھے جن سے ہم متعارف ہوئے لیکن اس کے بعد دنیا بھر میں جاپانیوں کو جہاں بھی دیکھا ایسے ہی مزاج کا پایا۔

جاپانی لوگ گھنٹوں کسی بھی کام کیلئے قطار میں کھڑے رہ سکتے ہیں اور آپ کبھی انہیں اس پر شکایت کرتا ہوا نہیں پائیں گے۔ عمومی لحاظ سے جاپان کے لوگ اپنے نظم و ضبط اور اپنے مثبت رویوں کے اعتبار سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ یہ دنیا میں کہیں بھی جائیں دو لوگ بھی ہوں تو قطار شروع کر لیتے ہیں، کہیں ریسٹورنٹ میں داخل ہو رہے ہوں، کوئی بل جمع کروانا ہو، کہیں عوامی بیت الخلاء کو استعمال کرنا ہو یا ٹیکسی اور ٹرین کا انتظار کر رہے ہوں ،جاپانی آپ کو قطار میں ہی نظر آئیں گے کبھی بے ہنگم ہجوم نہیں بنیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ ساری دنیا میں انکے ساتھ احترام بھرا سلوک کیا جاتا ہے۔

یہ نظم و ضبط کی عادت ہی  انہیں کرونا جیسے موذی سے بچائے رکھنے میں اہم ترین ثابت ہوئی۔ جب وہاں کرونا سے بچاؤ  کی حفاظتی تدابیر کا اعلان کیا گیا تو اس وقت تک لوگوں نے اسے نہ ترک کیا نہ ان میں کوئی کوتاہی کی ،جب تک حکومت نے اس میں نرمی نہیں کی۔ انکے ہاں نصف صدی پہلے سے شعبہ صحت کو ایک مربوط نظام کیساتھ استوار کر دیا گیا تھا ،ہر مریض کا ریکارڈ رکھ کر وہ مختصر عرصہ میں ایسا ڈیٹا بیس بنا لیتے ہیں ،جس سے ہر چھوٹی سے چھوٹی بیماری یا وبا کی وجوہات اور اثرات کو فورا ً جانچ لینا ممکن ہوتا ہے۔

اسی لئے جاپان نے گزشتہ سال کرونا وائرس کے ابتدائی وقت میں ہی اسکے پھیلاؤ کی وجوہات جان لیں اور فوری طور ہر تین فیصلے نافذ کیے،
اوّل : غیر ہوا دار جگہوں کا استعمال فورا ترک کرنا۔
دوم : عوامی جگہوں پر بہت زیادہ ہجوم کو روکنے کے اقدامات۔
سوم : قریب قریب آمنے سامنے بیٹھنے سے اجتناب ۔
انہوں نے لاک ڈاؤن نہیں کیا لیکن اپنی بہترین معاشرتی اقدار کی وجہ سے ان احکامات پر بڑی سختی سے عمل کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاپان میں دنیا کی سب سے زیادہ ضعیف عمر آبادی رہتی ہے جن کی قوت مدافعت عموماً دوسری آبادی سے کم ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود جاپان میں کرونا سے شرح اموات نہایت کم تقریباً ہر آٹھ لاکھ افراد میں ایک موت ریکارڈ کی گئی۔ صحیح معنوں میں جاپان نے عملا ثابت کیا کہ احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو اس موزی مرض سے بچا جا سکتا ہے اپنے کم قوت مدافعت والے بزرگوں کی زندگی کو صحت کیساتھ باقی رکھا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply