وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔۔قراۃ العین

عورت ہونا میرے لیے باعث فخر ہے مجھے عورت ہونے پہ تخلیق کار سے یا قسمت سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے کہ مجھے عورت کیوں تخلیق کیا گیا۔ جب میں پیدا ہوئی تو میں بیٹی کے روپ میں تھی اور میں اپنے باپ کے جگر کا ٹکڑا کہلائی۔ میرے والد نے مجھے محبت دی تعلیم دی عزت دی مجھے اس قابل بنایا کہ میں ترقی کی ڈور میں شامل ہو سکوں۔ اپنے ملک کا کار آمد شہری بن سکوں۔ میں کمزور تھی وہ میری طاقت بنے۔ ان کی طاقت نے میری کمزوریوں کو چھپا لیا۔ میں بہن بنی تو میں اپنے بھائیوں کی ہم جولی بن گئی۔ ان کا خیال رکھنے والی دوست بن گئی۔ میں بیوی بنی تو سراپا محبت بن گئی۔ شوہر کے مکان کو گھر بنا دیا۔ میں ماں بنی تو جنت میرے قدموں تلے آگئی ۔
میرا گھر ہمیشہ سے میری جنت رہا اور میرے گھر کے مردوں کے لئے بھی جہاں سے انہیں صرف سکون ملا۔ میں نے کبھی اپنا مقابلہ کسی مرد سے نہیں کیا ۔عورتیں اپنا مقابلہ مردوں سے کر کے اپنی تحقیر کرتی ہیں۔ عورتوں کو مردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تخلیق نہیں کیا گیا۔ مرد عورت کو ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہونا چاہیے تھا ایک دوسرے کے مقابل نہیں۔
بعض عورتیں اپنے باپ، بھائی اور بیٹے کو تو عزت دیتی ہیں لیکن جب شوہر کی باری آتی ہے تو منہ سے صرف نفرت انگیز جملے ہی نکلتے ہیں۔ جب ہم بات کرتے ہیں عزت کی تو کیا عزت صرف عورت کا حق ہوتی ہے ؟ عزت مرد کا حق کیوں نہیں ہے اور خاص طور پر اس مرد کا جو کہ آپ کا شوہر ہے؟۔
“میرا موزہ کہاں ہے” جب آپ کا شوہر آپ سے اپنی چیزوں کا پوچھ رہا ہے اور اسی گھر کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے جو کہ آپ کا بھی گھر ہے تو پھر اس میں کہاں کی تحقیر جو آپ اگر بتا دیں کہ گھر کے کسی کونے کھدرے میں آپ نے موزے کہاں رکھے ہیں۔ ہم کھانا بناتے ہیں تو ہمارا بس نہیں چلتا کہ محلے میں سب کے گھروں میں بھجوائیں۔ اور کھانے کے بعد جب کوئی دوسری پلیٹ مانگتا ہے تو ورلڈز بیسٹ شیف والی فیلنگز آجاتی ہیں۔ مگر نہ جانے کیوں کھانا گرم کر کے لانے کو بھی اَنا کا مسئلہ بنا لیا ہوا ہے۔
میرا جسم واقعی میری مرضی ہے لیکن تب تک جب تک میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب تک میرے اردگرد میرا کوئی بھی اپنا موجود ہے ان کو حق ہے میرے اوپر، بالکل ویسے ہی جیسا میرا ان پر حق ہے۔ کسی حد تک میں خود کو ان کی پسند کے مطابق ڈھال سکتی ہوں یا ویسے بن سکتی ہوں جیسے وہ مجھے دیکھنا چاہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

“دوپٹہ اتنا پسند ہے تو اپنی آنکھوں پر باندھ لو” سمجھ نہیں آتی کہ دوپٹہ لینے پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ کیا آپ کو اپنا آپ ڈھانپنے یا چھپانے پر بھی اعتراض ہے۔ اکثر ایسے ہوتا ہے کہ گھر میں جب کوئی مرد آتا ہے تو ابا کہتے ہیں کہ آپ کسی دوسرے کمرے میں چلے جائیں یا پھر پردہ کر لیں۔ بھائی کے ساتھ باہر جاؤ تو اپنے کسی دوست کو دیکھنے کے بعد کہتا ہے کہ چلو نقاب کرو جلدی۔ ہمیں تو اس بات پر خوشی ہوتی ہے اور ہم ان باتوں پہ مسکرا دیتے ہیں کہ ہمارے گھر کے مرد ہمیں دوسروں کی نظروں کا نوالا نہیں بننے دیتے۔
لیکن یہ سب یک طرفہ نہیں ہے۔ ہمیں عزت ملتی ہے تو ہم عزت دیتے ہیں۔ ہمیں محبت ملتی ہے تو ہم محبت دیتے ہیں۔ ایک بار مولانا طارق جمیل کو کہتے سنا تھا کہ بیوی کی اصلاح نہیں کرو ، بیوی سے عشق کرو۔ عشق کرو گے تو وہ خود ہی تمہاری پسند کے مطابق ڈھل جائے گی۔ تمہیں نہ کہنے کی ضرورت پڑے گی نہ چیخنے چلانے کی، وہ خود ہی تمہارے گھر کو جنت بنانے میں لگ جائے گی۔ تمہیں موزے ڈھونڈنے کے لیے اسے کہنا نہیں پڑے گا وہ خود ہی ڈھونڈ کے لا دے گی۔ تمہارے گھر آنے سے پہلے ہی کھانا گرم کرنے کے لیے رکھ دے گی۔ لیکن یہ سب تب ہوگا جب مرد عورت کی عزت کرے گا۔ مرد اور عورت کا تعلق کمتری یا برتری کا نہیں ہے صرف اور صرف عزت اور محبت کا ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے۔ مرد اگر عزت نہیں کرے گا تو اَنا تو عورت میں بھی ہے اَنا میں آئے گی تو وہی ہوگا جو آجکل ہو رہا ہے۔ حقوق نہیں دو گے تو وہ تو مانگے گی۔ حقوق مانگنے پہ گالیاں دو گے تو نئی نسلوں پہ کیا اثر پڑے گا۔ کیا ہمارے بچے بھی اس تماشے کو عام سی بات نہیں سمجھیں گے؟ اپنے بچوں کو لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنا سکھائیے، یقین جانیے یہ مسئلہ ہمارے گھر سے ختم ہوگا تو ہمارے ملک سے ختم ہوگا۔ اور اگر یہی مسئلہ گھمبیر بن گیا تو ملک میں بے راہ روی کا وہ طوفان آئے گا کہ رکنے سے بھی نہیں رکے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply