لکڑ ہارا اور قبیح حرکت۔۔سعید چیمہ

اس لکڑ ہارے کی روح اب قفسِ جسمانی سے پرواز کر کے عالمِ برزخ پہنچ چکی تھی،ساری زندگی وہ رزقِ حلال کے لیے سر توڑ محنت کرتا رہا، دس بیٹیوں کے باپ اس لکڑ ہارے کی زندگی کا زیادہ تر حصہ پریشانیوں میں گزرا،  کیوں کہ پہلے بیٹیوں کی پرورش کے معاملہ اور بعد میں ان کی شادیوں کا مسئلہ، آخری دنوں میں بھی اس سے کہا گیا کہ میاں اب بوڑھے ہو چکے ہو،درختوں کو کاٹنا اب تمہارے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے تو اب اس کام کو چھوڑ کر باقی زندگی آرام و سکون سے بسر کرو، مگر کچھ لوگوں کی قسمت میں مصائب و مشکلات کو دوام ہوتا ہے شاید اس لیے کہ اخروی زندگی میں ان کے لیے کوئی بڑا اجر ہو گا،اپنی زندگی کے آخری دن بھی وہ لکڑ ہارا درخت کاٹ رہا تھا کہ درخت کٹتے ہی اس پر آ گرا،درخت کے گرنے کی وجہ سے لکڑ ہارے کو  اجل کی صدا پر لبیک کہنا پڑا، اب اس لکڑ ہارے کو مٹی کے گھروندے میں چھوڑ کے آنے کا مرحلہ تھا جہاں اس نے دنیا کی مصیبتوں سے بے پروا ہو کر صورِ اسرافیل کے پھونکے جانے تک آرام کرنا تھا۔

اس مٹی کے گھروندے کا مکین بننے کی شرائط میں سے وہ پہلی شرط مکمل کر چکا تھا یعنی موت کو گلے لگا چکا تھا، بیری کے پتوں ملے پانی سے اس کو غسل دے کر دوسری شرط کی تکمیل بھی کر دی گئی،سفید لباس جسے عرفِ عام میں کفن بولا جاتا ہے کو اس کے بدن پر لپیٹ دیا گیا اور چارپائی پر اس کی میت کو رکھ کر قبرستان کی طرف لے جایا جانے لگا تا کہ نمازِ جنازہ ادا کر کے اس پر منوں مٹی ڈال دی جائے، نمازِ جنازہ ادا کرنے کے بعد لوگ باری باری  اس لکڑ ہارے کا آخری بار دیدار کر رہے تھے، جب آخری سات آٹھ لوگ میت کا دیدار کر رہے تھے تو  فدوی کی نظر پڑی کہ ایک نوجوان میت کے ساتھ سیلفی بنا رہا ہے، ایک لمحے کے لیے احساس ہوا کہ جسم میں خون کی گردش رک گئی ہے، دل کی دھڑکن آہستہ ہو رہی ہے اور دماغ کی شریانیں پھٹنے کے قریب ہیں، خدایا یہ مخلوق کیسے پیدا ہو گئی جو میت کے ساتھ بھی سیلفی بنانے سے باز نہیں آتی۔

اس لکڑ ہارے کی میت کے ساتھ سیلفی بنانے والے بائیس تئیس سالہ نوجوان کی شکل سے ہی عیاں تھا کہ اس میں خدا نے دماغ نامی ایک پرزہ فٹ نہیں کیا، جی چاہتا تھا کہ سیلفی لینے کی اس قبیح حرکت کیوجہ سے اس نوجوان پر زناٹے دار تھپڑوں کی بارش کر دی جائے مگر پھر قبرستان کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا، سیرو سیاحت کے لیے بندہ شمالی علاقہ جات گیا ہو یا پھر خدا کے  فضل و کرم سے انسان کی کسی عظیم نیکی کی بدولت کسی سلیبرٹی کے ساتھ سیلفی بنانے کا نادر موقع مل جائے تو سیلفی بنانے پر فدوی سمیت کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا مگر ایک میت کے ساتھ سیلفی،خدا کی پناہ۔

حسن نثار کی ہر بات سے اختلاف ممکن ہے مگر جب وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ یہاں اقتصادیات کا نہیں بلکہ اخلاقیات کا ہے تو جی چاہتا ہے ان کو اکیس توپوں کی سلامی دی جائے،کسی اچھے ڈاکٹر کی طرح حسن نثار نے بھی مرض کی تشخیص کر دی ہوئی ہے مگر مریض بضد ہے کہ میں نے علاج نہیں کروانا، مرض کے اندر مزید کئی امراض پنہاں ہیں جو مریض کو یکمشت تندرست نہیں ہونے دیتے، طبیب بھی پریشان ہے کہ علاج کہاں سے شروع کیا جائے مگر مریض کی ضد اور مرض کی پیچیدگی تندرستی کے سفر میں آڑے آ رہی ہیں، اخلاقیات ہی تو ہوتی ہیں جن کی بنا پر قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ کیا جاتا ہے، لوطؑ کی قوم ایسا عروج بہت کم قوموں نے دیکھا ہوگا، کناروں تک بہتی نہریں، درختوں پر ثمرات کی فراوانی، مویشیوں کی کثرت گویا کہ ہر نعمت لوطؑ  کی قوم کو حاصل تھی مگر اخلاقیات کی قبا اتار کر وہ ایک نہایت قبیح فعل کے مرتکب ہونے لگے، اور پھر ان پر جبار و قہار کو نہ ٹلنے والا عذاب آیا اور وہ گھروں میں  اوندھے منہ پڑے رہ گئے گویا کبھی زمین پر آباد ہی نہ تھے، لوطؑ کی قوم کے برعکس عرب کے صحرا نشین تھےجن پر نبوت کا آخری چاند چمکا، اخلاقیات کی پستی میں گرے ہوئے عرب اب اخلاقیات کے ہمالہ پر تھے، یہ اخلاقیات ہی تو تھیں جن کی بنا پر عرب کسی آندھی کی طرح اٹھے اور طوفان کی طرح چھا گئے، فارس کے کسریٰ اور روم کے قیصر کی منظم فوجوں سے وہ ٹکرا گئے، چشمِ فلک نے اس سے پہلے ایسا نظارہ کہاں دیکھا تھا کہ ممولہ شہباز کو للکار دے، مگر جنگوں کے نتائج نے تاریخ دانوں کو حیران کر دیا، اخلاقیات کا سفوف اگر کہیں دستیاب ہوتا تو وہ پانی میں گھول کر اس سیلفی لینے والے نوجوان ایسے لوگوں کو بار بار پلایا جاتا کہ حضور یہ پیجیے اس سے آپ کے مرض کی شدت میں کمی آئے گی،۔

Advertisements
julia rana solicitors

اخلاقیات کا سبق کیمسٹری کے فارمولوں کی طرح بہت مشکل ہوتا ہے جو اگر بار بار نہ دہرایا جائے تو بھول جاتا ہے، اشفاق احمد اور واصف علی واصف ایسے لوگ کیا ہوئے جو اخلاقیات کا سبق یاد دلاتے تھے،اخلاقیات کے تابوت میں آخری کیل تب ٹھونکا گیا جب اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر ناہنجار قسم کے سیاستدانوں نے اخلاقیات کو سبق دینا کر دیا!

Facebook Comments