یہ ہیں عطیہ فیضی! اب تک کسی کو حتمی پتہ نہیں کہ یہ علامہ اقبال کی دوست تھیں، محبوبہ تھیں یا اس سے بھی بڑھ کر کچھ اور ۔ ۔ رشتہ کچھ اتنا قریب مگر غیر واضح تھا کہ شاید انہیں خود بھی اپنے درست اسٹیٹس کی صحیح خبر نہ رہی ہو۔ فیضی ممبئ کے ایک بوہرا پریوار سے تھیں، والد کی تجارت کے چلتے استنبول ترکی میں پیدا و پروان چڑھیں، اور لندن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ لندن تعلیمی قیام کے دوران ایک دن وارڈن کے گھر پر اقبال کے دوستوں نے بتایا کہ آپ کو ایک خاتون کو ڈنر پر بلانا چاہیے جو یہیں پاس میں ہی رہتی ہیں۔ ۔ اور پھر کچھ دنوں بعد، اقبال نے عطیہ کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ “میں اپنی زندگی میں کبھی ناکام نہیں ہوا، مجھے امید ہے کہ میری دعوت کو قبول نہ کرکے آپ یہ سلسلہ توڑیں گی نہیں” ۔ اور اس طرح ایک یہودی وارڈن کے گھر اور کرسچین دوستوں کے مشورے سے ایک سُنی مسلم لڑکے اور بوہرہ شیعہ لڑکی میں شناسائی شروع ہوئی ۔
سوچتا ہوں کہ محبت یا دوستی جو بھی نام دے دیا جائے، پر یہ محبت و دوستی والا تعلق کس قدر لبرل اور جمہوریت آلود ہوتا ہے۔ کھانے کی ٹیبل سے شروع ہونے والی یہ ملاقات فلسفہ، شاعری، سیر وتفریح، آرٹ، میوزیم سے ہوتے ہوئے اس مقام کو جاپہنچی کہ ایک بار اقبال کو کہنا ہی پڑا کہ “میں اپنی زندگی میں جتنے بھی لوگوں سے ملا ،عطیہ فیضی ان میں سب سے بہتر تھیں”۔ اتنا ہی نہیں، اقبال کو یہ اعتراف بھی کرنا پڑا کہ ”عطیہ! میں تم سے اپنی زندگی کا کچھ بھی مخفی نہیں رکھ سکتا، تم سے پردہ داری میرے ہاں گناہ کے زمرے میں آتی ہے”۔
وقت گزرتا رہا، اقبال لندن سے لاہور آگئے۔ فیسبک اور واٹس ایپ تو تھا نہیں، سو اب خطوط کا سلسلہ شروع ہوا۔ اقبال فیضی کو لکھے ہر خط کی شروعات “My Dear Ms Attiya” اور خاتمہ “Yours, MS Iqbal” سے کرتے تھے۔
دلچسپ یہ ہے کہ ان تمام قربتوں کے باوجود کبھی اقبال اور عطیہ نے اپنے قریبی دوستوں تک کو نہ بتلایا کہ انکا یہ رشتہ کیا کہلاتا تھا۔ دوستی، محبت، یا کچھ اور!
اقبال نے تین شادیاں کیں، عطیہ کی شادی ایک کرسچین آرٹسٹ “راحمین” سے ہوگئی، جو بعد میں نا صرف مسلمان ہوگیا بلکہ بیوی سے ہی منسوب ہوکر “راحمین فیضی” کہلایا جانے لگا۔
عطیہ کی شادی کے بعد دونوں کے روابط منقطع ہوگئے، پھر جب مدتوں بعد لاہور میں دوبارہ ملاقات ہوئی تو اقبال نے فیضی سے برجستہ کہا اور انکی ڈائری میں خود سے لکھ بھی دیا ۔۔
عالم ِجوشِ جنوں میں ہے روا کیا کیا کچھ
کہیے کیا حکم ہے، دیوانہ بنوں یا نہ بنوں؟
عطیہ خاموش رہیں۔۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اقبال نے جب اس رشتے کو کوئی نام دینے کی جسارت جُٹائی ،تب تک بڑی دیر ہوچکی تھی۔
عطیہ فیضی کوئی ایسی شمع نہ تھیں جس کی لوء صرف ایک اقبال کو جلا رہی تھی۔ ۔ کہا جاتا ہے کہ حرارت کے ساتھ تھوڑا بہت دھواں علامہ شبلی نعمانی کے حصّے میں بھی آیا تھا۔ کچھ کی مانیں تو یہ دھواں جلنے جلانے کی حد تک ٹھیک ٹھاک مقدار میں آیا تھا ۔ محبوب کے لئے جلنا اور رقیب کے لئے جلن۔۔۔ اور انہوں نے بھی فیضی کو ہی سامنے رکھ کر کافی کچھ لکھا تھا (واللہ اعلم بالصواب)۔ لکھنے والوں کا تو یہاں تک ماننا ہے کہ عطیہ کا خاموش میلان اقبال کی طرف تھا، مگر عطیہ کے اپنا ہونے کا حق اکثر شبلی جتایا کرتے تھے۔ عطیہ کی راحمین فیضی سے شادی پر شبلی نے کہا تھا۔
بتانِ ہند کافر کردیا کرتے تھے مسلم کو
عطیہ کی بدولت آج اک کافر مسلماں ہے
محبت۔ ۔ عطیہ فیضی اور اقبال و شبلی کی ہو، امریتا پریتم و ساحر لدھیانوی کی ہو یا پھر ہیر رانجھا، لیلیٰ مجنوں اور شیریں و فرہاد جیسے خیالی کرداروں کی ہو۔ حسّاس انسان کو ایک یا ایک سے زیادہ بار کرنی ضرور چاہیے ۔ اور اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ محبت ایسی کی جائے جس کا انجام ادھورا ہو، خاتمہ بالخیر محبتوں میں نیک فال نہیں ہوتا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں