لر او بر یو افغان: حقیقت کیا ہے؟ ۔۔۔ فدا ء الرحمان

نیشن سٹیٹس کے بعد جس طرح “اُمتِ مسلمہ” کا تصور اپنی تمام تر مذہبی رومانویت اور جذباتی وابستگی کے بے معنی، غیر فطری اور ناقابلِ عمل تصور قرار پایا ہے بالکل اسی طرح “لر او بر یو افغان” کا تصور بے معنی، غیر فطری اور ناقابلِ عمل ہے۔ ویسے ہی جیسے شیعہ سُنی تقسیم کے ساتھ ساتھ بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث وغیرہ جیسی ذیلی تقسیم “اُمتِ مسلمہ” کے تصور کے ساتھ عجیب و غریب رومانویت اور غیر شعوری جذباتی وابستگی کی قلعی کھولنے کے لئے کافی ہے۔ نیز “اُمتِ مسلمہ” کے دلکش اور پُرفریب تصور کے باوجود بغیر ویزے کے مسلمان ممالک میں قدم رنجا فرمانے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ بالکل اسی طرح “لر او بر یو افغان” ایک غیر فطری نعرہ ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ پشتون قبائل میں ذیلی تقسیم محض شناخت تک محدود نہیں ہے بلکہ ان قبائل اور ان کی ذیلی شاخوں کے مابین خونریز تصادم، بد اعتمادی، تحقیر و تنقیص پر مبنی روئیے اور تعصبات نوشتہ دیوار ہیں۔

پی ٹی ایم کی شکل میں نظر آنے والا موجودہ اتحاد مظلومیت اور محرومی کے جذباتی نعروں پر استوار ہے لہذا جب تک مظلومیت اور محرومی کا لالی پاپ دیا جاتا رہے گا تب تک یہ وقتی اور غیر فطری اتحاد بھی موجود رہے گا (اس پر بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا پی ٹی ایم واقعی تمام پشتونوں کی نمائندگی کرتی ہے)۔

میں پچھلے ڈیڑھ سال سے بلوچستان میں خدمات سرانجام دے رہا ہوں اور یہاں کی نسلی اور لسانی تقسیم کا قریب سے مشاہدہ کررہا ہوں۔ یہاں پر پشتون قبائل کی ذیلی تقسیم اتنی گہری، پیچیدہ اور پریشان کن ہے کہ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پشتون نیشنلزم کی بنیاد پر سیاست کرنے والی ایلیٹ کلاس کی اپنی حالت تو دن بدن بہتر ہوتی جارہی ہے لیکن ایک عام پشتون غیر شعوری طور پر نسلی اور لسانی تعصبات، منافرت اور باہمی بداعتمادی کی فضا میں جی رہا ہے اور دوسری قومیتوں کے حوالے سے نامعلوم منافرت اور خوف کا شکار ہے۔ یہی مسئلہ خیبر پختونخواہ کے پشتون قبائل کے مابین تعلقات میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

مظلومیت اور نسلی امتیاز کا ڈھنڈورا اتنی شدت اور تواتر سے پیٹا جارہا ہے کہ مسائل کے داخلی وجوہات کا کھوج لگانے اور حل پر غوروفکر کرنے کی بجائے عدم تحفظ کا لالی پاپ تھما دیا گیا اور یہ تحریک ان علاقوں میں شروع کی گئی جہاں ریاستی ادارے بتدریج تعمیر و ترقی کاکام کررہے ہیں۔ فاٹا کا انضمام اور قبائل کو قومی دھارے میں لانا اسی کوشش کی پہلی کڑی ہے۔ نیشنلسٹس کے دیرینہ اور گمراہ کن نعرے کے زیرِ اثر اکثریت پنجاب کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے حالانکہ جنوبی پنجاب کا حال پشتون علاقوں سے بدتر ہے۔

مظلومیت، امتیازی سلوک اور حقوق کی پامالی کا نعرہ لگا کر ایک نئی سیاسی بساط بچھانے والے پشتون نیشنلسٹس سے یہ پوچھنے کی زحمت کیجیئے کہ ۲۰۰۸ ا ۲۰۱۳ میں خیر پختونخواہ اور ۲۰۱۳ ا ۲۰۱۸ میں بلوچستان میں اقتدار کے مزے لوٹنے اور دل کھول کر اپنوں کو نوازنے کے علاوہ آپ کی پالیسز کی وجہ سے عام آدمی کے طرزِ زندگی میں کیا قابلِ غور تبدیلی آئی؟

سابقہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں تعمیر وترقی اور تعلیمی اداروں کے قیام (کم یا زیادہ تعداد سے قطع نظر) کا تمام تر کریڈٹ فوج کو جاتا ہے ورنہ نام نہاد قوم پرستوں کی ترجیحات کا حال تو یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کی لوکیشنز اور من مانے سٹاف کی تقرری پر بچوں کی طرح لڑتے پائے جاتے ہیں۔ بھلا ہو خاکی وردی اور ڈنڈے کا جس کی “شفقت” سے محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

نیشن سٹیٹ کا جبر دیکھئے کہ یہی نام نہاد پشتون لیڈرشپ بشمول قوم نما ہجوم بغیر ویزے کے افغانستان میں قدم تک نہیں رکھ سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر پھر بھی “لر او بر یو افغان”۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply