اپنے بچوں کی حفاظت کیجیے۔۔ڈاکٹر عامر میر

کافی سال پہلے کی بات ہے میں اُن دنوں پاکستان میں ہی تھا کہ میرے ایک دوست اپنی بیگم صاحبہ کے ہمراہ تشریف لائے کہ ہم دونوں میاں بیوی عمرے کی سعادت کے لئے جا رہے ہیں۔دوست:تمھیں   تو پتہ ہی ہے کہ ہمارے جتنے بھی بہن بھائی ہیں وہ سب پاکستان سے باہر رہتے ہیں تو ایسی صورت میں ہمیں تم میاں بیوی ہی سب سے زیادہ مناسب لگتے ہو جن کے پاس ہم اپنے بچے چھوڑ جائیں۔صرف پندرہ دن کی بات ہے۔
میں نے سٹریٹ فارورڈ انکار کر دیا کہ میں یہ ذمہ داری نہیں اُٹھا سکتا۔سوری۔
دوست:کیوں؟
میں:پیدائش سے لے کر اٹھارہ سال تک بچوں کی دیکھ بھال والدین کی ذمہ داری ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ حمل ٹھہرنے سے لے کر اٹھارہ سال تک۔اونچ نیچ تو بڑی دور کی بات ہے۔اگر آپ کے بچے کو پراپر نیند بھی نہ آئی تو میری نیند اُڑ جائے گی۔
دوست:یار ہم لوگ عمرے کے لئے جا رہے ہیں۔
میں:عمرہ ایک نفلی عبادت ہے۔حج بھی آپ لوگوں پہ اُس وقت فرض ہوتا ہے جب آپ اپنی تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو جاتے ہیں اور بچوں سے بڑھ کر کونسی ذمہ داری ہے؟
بہرحال مجھے اُس وقت ہی پھک پڑ گئی ہے کا اندازہ ہو گیا تھا کیونکہ اُس کے بعد دوست نے فون تک اُٹھانا بند کر دیا تھا۔
کل رات کو اُسی دوست کا فون آیا کہ سوری یار۔تو ٹھیک تھا ہم میاں بیوی غلط تھے۔
آپ کے بچے حمل کے پہلے دن سے لے کر اٹھارہ سال تک آپ کی ذمہ داری ہیں۔میرے بچے بھی باہر گلی میں کھیلتے ہیں لیکن اُس وقت بھی اُن کے سر پر میں یا میری بیوی کھڑے ہوتے ہیں اور موبائل تک ہاتھ کی بجائے جیب میں ہوتا ہے۔گھریلو میڈ اور ڈرائیور کو بھی یہ ذمہ داری کبھی نہیں سونپی۔
اکثر والدین کو اگر ویڈیوز بنا کر دکھائی جائیں کہ جب آپ بچوں کو دوسروں کے پاس چھوڑ کر گئے تو یہ سلوک آپ کے بچوں کے ساتھ ہوا تھا۔عین ممکن ہے بہت سارے لوگ بچے دوسروں کے حوالے کرنا چھوڑ جائیں؟
ہاں ہاں مجھے پتہ ہے۔کامن سینس کی بات ہے۔واقعی کچھ لوگ بڑی اچھی کیئر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد اقلیت میں ہے اور عمومی بات کرتے ہوئے اکثریت کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
ترتیب درست کر لیجیئے۔اس بچی کی موت کے ذمہ دار سب سے زیادہ اُس کے اپنے والدین ہیں۔پھر وہ جن کی ذمہ داری والدین لگا کر گئے تھے اور پھر بچی کا قاتل۔
آپ پوری دنیا کو ٹھیک نہیں کر سکتے تو اپنے بچوں کی حفاظت کیجیئے اور انہیں درندوں سے بچنے کی تربیت دیجیئے۔
اگر کسی کو میرا لہجہ تلخ لگے تو سوری لیکن بچوں کے معاملے میں تلخی جائز ہے۔پھر دوبارہ کافروں کی مثال مجبوراً  دینی پڑتی ہے جہاں اگر حکومت کو یہ کنفرم ہو جائے کہ آپ بچوں کی پراپر دیکھ بھال نہیں کر رہے تو آپ سے آپ کے بچے حکومت چھین کر اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر عامر میر
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ میں تکلیف دہ حد تک سچا انسان ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply